الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
58. بَابُ : الصَّلاَةِ عَلَى الصِّبْيَانِ
58. باب: بچوں پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
Chapter: (Funeral) Prayer For Boys
حدیث نمبر: 1949
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، حدثنا سفيان، قال: حدثنا طلحة بن يحيى، عن عمته عائشة بنت طلحة، عن خالتها ام المؤمنين عائشة، قالت: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بصبي من صبيان الانصار فصلى عليه , قالت عائشة: فقلت: طوبى لهذا عصفور من عصافير الجنة لم يعمل سوءا ولم يدركه , قال:" او غير ذلك يا عائشة، خلق الله عز وجل الجنة وخلق لها اهلا وخلقهم في اصلاب آبائهم، وخلق النار وخلق لها اهلا وخلقهم في اصلاب آبائهم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قال: حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَمَّتِهِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ خَالَتِهَا أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَبِيٍّ مِنْ صِبْيَانِ الْأَنْصَارِ فَصَلَّى عَلَيْهِ , قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: طُوبَى لِهَذَا عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ لَمْ يَعْمَلْ سُوءًا وَلَمْ يُدْرِكْهُ , قَالَ:" أَوَ غَيْرُ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ، خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْجَنَّةَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ، وَخَلَقَ النَّارَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انصار کے بچوں میں سے ایک بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ نے اس کی جنازے کی نماز پڑھی، میں نے کہا: (یہ) خوش بخت جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، نہ تو اس نے کوئی برا کام کیا، اور نہ اس عمر رضی اللہ عنہ کو پہنچا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا عائشہ! اس کے علاوہ کچھ اور معاملہ ہے اللہ تعالیٰ نے جنت کی تخلیق فرمائی، اور اس کے لیے لوگ پیدا کئے، جبکہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے، اور (اللہ) نے جہنم کی تخلیق کی، اور اس کے لیے لوگ پیدا کیے جبکہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القدر 6 (2662)، سنن ابی داود/السنة 18 (4713)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (82)، (تحفة الأشراف: 17873)، مسند احمد 6/41، 208 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور وہ توقف ہے، لیکن یہ پہلے کی بات ہے، بعد میں آپ نے یہ بتایا کہ مسلمانوں کے نابالغ بچے جنت میں جائیں گے، البتہ کفار و مشرکین کے بچوں کی بابت جمہور کا موقف یہی ہے کہ ان کے بارے میں توقف اختیار کیا جائے، دیکھئیے حدیث رقم: ۱۹۵۱، ۱۹۵۳۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   سنن النسائى الصغرى1949عائشة بنت عبد اللهخلق الله الجنة وخلق لها أهلا وخلقهم في أصلاب آبائهم خلق النار وخلق لها أهلا وخلقهم في أصلاب آبائهم
   صحيح مسلم6768عائشة بنت عبد اللهالله خلق للجنة أهلا خلقهم لها وهم في أصلاب آبائهم وخلق للنار أهلا خلقهم لها وهم في أصلاب آبائهم
   سنن أبي داود4713عائشة بنت عبد اللهالله خلق الجنة وخلق لها أهلا وخلقها لهم وهم في أصلاب آبائهم وخلق النار وخلق لها أهلا وخلقها لهم وهم في أصلاب آبائهم
   سنن ابن ماجه82عائشة بنت عبد اللهالله خلق للجنة أهلا خلقهم لها وهم في أصلاب آبائهم وخلق للنار أهلا خلقهم لها وهم في أصلاب آبائهم
   مشكوة المصابيح84عائشة بنت عبد الله إن الله خلق للجنة اهلا خلقهم لها وهم في اصلاب آبائهم وخلق للنار اهلا خلقهم لها وهم في اصلاب آبائهم
   مسندالحميدي267عائشة بنت عبد اللهأو غير ذلك يا عائشة إن الله عز وجل خلق الجنة وخلق لها أهلا وخلقهم وهم في أصلاب آبائهم، وخلق النار وخلق لها أهلا وخلقهم وهم في أصلاب آبائهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 84  
´تقدیر کا غالب آنا`
«. . . ‏‏‏‏عَن عَائِشَة أم الْمُؤمنِينَ قَالَتْ: «دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِنَازَةِ صَبِيٍّ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ طُوبَى لِهَذَا عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ لَمْ يَعْمَلِ السُّوءُ وَلَمْ يُدْرِكْهُ قَالَ أَوَ غَيْرُ ذَلِكِ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ لِلْجَنَّةِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ وَخَلَقَ لِلنَّارِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا وهم فِي أصلاب آبَائِهِم» . رَوَاهُ مُسلم . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک انصاری بچے کی نماز جنازہ کے لیے بلایا گیا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس بچے کے لیے خوشخبری اور خوشحالی ہو یہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، نہ اس نے برا کام کیا ہے اور نہ برائی نے اسے پایا۔ یعنی برائی کی حد کو نہیں پہنچا ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ! کیا تم ایسا سمجھتی ہو حالانکہ حقیقت اس کے غیر ہے (یعنی کسی کو جنتی ہونے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے لوگوں کو پیدا کر دیا ہے حالانکہ وہ اپنے باپوں کے پیٹھوں میں تھے اور اسی طرح جہنم کے لیے لوگوں کو پیدا کیا ہے حالانکہ وہ اپنے باپوں کے پیٹھوں میں تھے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 84]

تخریج:
[صحيح مسلم 6768]

فقہ الحدیث:
➊ کسی آدمی کے بارے میں قطعی فیصلہ نہیں کرنا چاہئیے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی؟ الا یہ کہ جو قرآن و حدیث کی رو سے واضح ہو۔
➋ مسلمانوں کے نابالغ فوت شدہ بچوں کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ راجح یہی ہے کہ یہ بچے اپنے جنتی والدین کے ساتھ جنتی ہیں۔ رہے کفار کے بچے تو راجح قول میں ان کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور کفار کے مردہ بچوں کی نماز جنازہ نہیں
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مومنوں کی اولاد کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اپنے والدین کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے پوچھا: بغیر عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جانتا ہے جو وہ اعمال کرنے والے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: مشرکین کی اولاد؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: وہ اپنے والدین کے ساتھ ہے۔ انہوں نے پوچھا: بغیر عمل کے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اللہ جانتا ہے، جو وہ اعمال کرنے والے تھے۔ [سنن ابي داود: 4712، وسنده صحيح]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 84   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث82  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک بچے کے جنازے میں بلائے گئے، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس بچہ کے لیے مبارک باد ہو، وہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، نہ تو اس نے کوئی برائی کی اور نہ ہی برائی کرنے کا وقت پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ بات یوں نہیں ہے، بلکہ اللہ نے جنت کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے، اور جہنم کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 82]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے جس یقین کے ساتھ اس لڑکے کو جنتی کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آیا اور فرمایا کہ اس کا علم محض اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ مسلمانوں کے سب بچے جنتی ہیں، چنانچہ متعدد احادیث بھی اس فیصلے کی موید ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث شاید تب فرمائی ہو جب اس کا آپ کو علم نہ ہو اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے علم عنایت فرما دیا ہو۔

(2)
اس روایت سے تقدیر کا ثبوت ملتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 82   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.