الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
75. بَابُ : اجْتِمَاعِ جَنَائِزِ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ
75. باب: مرد اور عورت کے جنازے کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Combining the funerals of men and women
حدیث نمبر: 1980
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع، قال: انبانا عبد الرزاق، قال: انبانا ابن جريج، قال: سمعت نافعا يزعم، ان ابن عمر" صلى على تسع جنائز جميعا فجعل الرجال يلون الإمام والنساء يلين القبلة فصفهن صفا واحدا، ووضعت جنازة ام كلثوم بنت علي امراة عمر بن الخطاب وابن لها يقال له زيد، وضعا جميعا والإمام يومئذ سعيد بن العاص، وفي الناس ابن عمر، وابو هريرة، وابو سعيد، وابو قتادة فوضع الغلام مما يلي الإمام فقال رجل: فانكرت ذلك فنظرت إلى ابن عباس، وابي هريرة، وابي سعيد، وابي قتادة , فقلت: ما هذا؟ قالوا: هي السنة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قال: سَمِعْتُ نَافِعًا يَزْعُمُ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ" صَلَّى عَلَى تِسْعِ جَنَائِزَ جَمِيعًا فَجَعَلَ الرِّجَالَ يَلُونَ الْإِمَامَ وَالنِّسَاءَ يَلِينَ الْقِبْلَةَ فَصَفَّهُنَّ صَفًّا وَاحِدًا، وَوُضِعَتْ جَنَازَةُ أُمِّ كُلْثُومِ بِنْتِ عَلِيٍّ امْرَأَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَابْنٍ لَهَا يُقَالُ لَهُ زَيْدٌ، وُضِعَا جَمِيعًا وَالْإِمَامُ يَوْمَئِذٍ سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ، وَفِي النَّاسِ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ، وَأَبُو سَعِيدٍ، وَأَبُو قَتَادَةَ فَوُضِعَ الْغُلَامُ مِمَّا يَلِي الْإِمَامَ فَقَالَ رَجُلٌ: فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ فَنَظَرْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي قَتَادَةَ , فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: هِيَ السُّنَّةُ".
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نو جنازوں کی ایک ساتھ نماز پڑھی، تو مرد امام سے قریب رکھے گئے، اور عورتیں قبلہ سے قریب، ان سب عورتوں کی ایک صف بنائی، اور علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیوی ام کلثوم، اور ان کے بیٹے زید دونوں کا جنازہ ایک ساتھ رکھا گیا، امام اس دن سعید بن العاص تھے، اور لوگوں میں ابن عمر، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہم (بھی موجود) تھے، بچہ امام سے قریب رکھا گیا، تو ایک شخص نے کہا: مجھے یہ چیز ناگوار لگی، تو میں نے ابن عباس، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابوقتادہ (رضی اللہ عنہم) کی طرف (حیرت سے) دیکھا، اور پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہی سنت (نبی کا طریقہ) ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، وانظر الحدیث الذي قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن نسائي 1980  
فقہ الحدیث
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سن وفات
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فوت ہو گئے تھے۔ ان لوگوں کی تردید کے لئے جمہور محدثین کے اقوال اور دندان شکن دلائل پیش خدمت ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بہت بعد 54؁ھ میں فوت ہوئے تھے۔
   ایک عظیم الشان دلیل   
◈ امام نافع (تابعی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کا جنازہ پڑھا، لوگوں میں سیدنا ابوسعید اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم موجود تھے۔ إلخ [سنن النسائي 72، 71/4 ح 1980 و سنده صحيح، مصنف عبدالرزاق 465/3 ح 6337 و سنده صحيح، منتقي ابن الجارود: 545]

1: امام لیث بن سعد المصری (متوفی 175ھ) فرماتے ہیں کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [كتاب المعرفة و التاريخ للامام يعقوب بن سفيان ج 3ص 322 و سنده صحيح، معرفة السنن و الآثار للبيهقي 558/1 ح 787 و سنده صحيح]
2: سعید بن عفیر (متوفی 226؁ھ) نے کہا: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تاريخ بغداد 161/1 ت 10و سنده صحيح]
3: محمد بن عبداللہ بن نمیر (متوفی 337؁ھ) نے کہا: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [المعجم الكبير للطبراني 240/3ح 3275 و سنده صحيح]
4: یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر (متوفی 231؁ھ) نے کہا: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [المعجم الكبير للطبراني 40/3 ح 3274 وسنده صحيح]
5: ابراہیم بن المنذر (متوفی 236؁ھ) نے کہا: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني 749/2 ح 1992، والمستدرك للحاكم 480/3]
6: یحییٰ بن معین (متوفی 233؁ھ) نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [كتاب الكنيٰ للدولابي 49/1]
7: ابوجعفر عمرو بن علی الفلاس نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ مدینہ میں 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تاريخ دمشق لابن عساكر 115/71]
8: ابن البرقی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تاريخ دمشق 107/71]
9: ابواحمد الحاکم نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تاريخ دمشق 107/71]
10: ترمذی رحمه الله نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تهذيب السنن لابن القيم مع عون المعبود 422/2]
11: ابوعبداللہ بن مندہ الحافظ نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [ايضا 422/2ومعرفة السنن و الآثار 558/1]
12: امام بیہقی رحمه الله نے کہا: اہل تاریخ کا اس پر (امام بیہقی کے زمانے میں) اجماع ہے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے [معرفة السنن والآثار 558/1 قبل ح 787]
13: ذہبی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تجريد اسماء الصحابة 194/2، الاعلام بوفيات الاعلام 37/1 ت 131]
14: ابن کثیر نے انہیں 54؁ھ کی وفیات میں ذکر کیا ہے۔ [البدايه و النهايه 70/8]
15: ابن حبان نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ إلخ [الثقات 74/3]
16: خلیفہ بن خیاط نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تاريخ خليفه بن خياط ص 223]
17: امام بخاری رحمه الله نے آپ رضی اللہ عنہ کو 50؁ھ کے بعد 60؁ھ تک وفیات میں ذکر کیا ہے۔ [التاريخ الصغير 131/1]
18: ابن حجر العسقلانی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تقريب التهذيب: 8311]
19: ابن الجوزی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [المنتظم 268/5]
20: ابن العماد الحنبلی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [شذرات الذهب 60/1]
21: عینی حنفی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ (ایک قول میں) 54؁ھ میں فوت ہوئے۔ [عمدة القاري 294/2 ح 153 باب النهي عن الاستنجاء باليمين]

اس جم غفیر اور جمہور کے مقابلے میں حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی حیاتی نے ہثیم بن عدی (کذاب) سے نقل کیا ہے کہ (سیدنا) ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 38؁ھ میں فوت ہوئے [نور الصباح ص 207] حنبل بن اسحاق نے کہا: مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ 38؁ھ میں فوت ہوئے [تاريخ بغداد 161/1]
↰ یہ اقوال جمہور کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
◈ ہثیم بن عدی «كذاب» پر جرح کے لئے دیکھئے میزان الاعتدال [324/4 ت 9311] و عام کتب المجروحین۔
◈امام یحییٰ بن معین نے کہا: «كوفي، ليس بثقة، كذاب» [الجرح و التعديل 75/9و سنده صحيح]
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 18، حدیث\صفحہ نمبر: 19   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1980  
´مرد اور عورت کے جنازے کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نو جنازوں کی ایک ساتھ نماز پڑھی، تو مرد امام سے قریب رکھے گئے، اور عورتیں قبلہ سے قریب، ان سب عورتوں کی ایک صف بنائی، اور علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیوی ام کلثوم، اور ان کے بیٹے زید دونوں کا جنازہ ایک ساتھ رکھا گیا، امام اس دن سعید بن العاص تھے، اور لوگوں میں ابن عمر، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہم (بھی موجود) تھے، بچہ امام سے قریب رکھا گیا، تو ایک شخص نے کہا: مجھے یہ چیز ناگوار لگی، تو میں نے ابن عباس، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابوقتادہ (رضی اللہ عنہم) کی طرف (حیرت سے) دیکھا، اور پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہی سنت (نبی کا طریقہ) ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1980]
1980۔ اردو حاشیہ: جب صحابی کسی کام کو سنت یا مسنون کہے تو اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1980   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.