الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
52. باب سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ
52. باب: گالی گلوچ کی مذمت سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 1983
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن زبيد بن الحارث، عن ابي وائل، عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سباب المسلم فسوق، وقتاله كفر "، قال زبيد: قلت لابي وائل: اانت سمعته من عبد الله؟ قال: نعم، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زُبَيْدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ "، قَالَ زُبَيْدٌ: قُلْتُ لِأَبِي وَائِلٍ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جھگڑا کرنا کفر ہے ۱؎۔ راوی زبید بن حارث کہتے ہیں: میں نے ابووائل شقیق بن سلمہ سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے سنی ہے؟ کہا: ہاں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 36 (48)، والأدب 44 (6044)، والفتن 8 (7076)، صحیح مسلم/الإیمان 28 (64)، سنن النسائی/المحاربة 27 (4113-4116)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (69)، والفتن 4 (3939) (تحفة الأشراف: 9243)، و مسند احمد (1/385، 411، 417، 433، 439، 446، 454، 460)، ویأتي في الإیمان برقم 2634) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزت و احترام کا خاص خیال رکھے کیونکہ ناحق کسی کو گالی دینا باعث فسق ہے، اور ناحق جھگڑا کرنا کفار کا عمل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (69)

   صحيح البخاري6044عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   صحيح البخاري48عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   صحيح البخاري7076عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   صحيح مسلم221عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   جامع الترمذي2634عبد الله بن مسعودقتال المسلم أخاه كفر سبابه فسوق
   جامع الترمذي1983عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   جامع الترمذي2635عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   سنن النسائى الصغرى4115عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   سنن النسائى الصغرى4116عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   سنن النسائى الصغرى4111عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسق قتاله كفر
   سنن النسائى الصغرى4114عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   سنن النسائى الصغرى4113عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   سنن ابن ماجه3939عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   سنن ابن ماجه69عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق قتاله كفر
   بلوغ المرام1283عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق وقتاله كفر
   مسندالحميدي104عبد الله بن مسعودسباب المسلم فسوق وقتاله كفر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 48  
´مسلمان سے لڑنا کفر ہے`
«. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 48]

لغوی توضیح:
«سِبَاب» گالی دینا۔
«فُسُوْق» نافرمانی کرنا، حق اور اطاعت سے نکل جانا۔

فہم الحدیث:
اس حدیث میں مسلمان سے لڑائی کو کفر کہا گیا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ ایسا کفر نہیں جو انسان کو کافر بنا دے بلکہ یہ چھوٹا کفر ہے، یہی وجہ ہے کہ مومنوں کی آپس میں لڑنے والی دونوں جماعتوں کو قرآن میں مومن ہی کہا گیا ہے۔ [سورة الحجرات: آيت 9]
البتہ یہ عمل شرک کے بعد کبیرہ گناہ ہے اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 43   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1283  
مسلمان کو گالی دینے اور اس سے لڑنے پر وعید
«وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏سباب المسلم فسوق وقتاله كفر .‏‏‏‏ متفق عليه»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1283]
تخریج:
[بخاري 6044]،
[مسلم، الايمان]،
[تحفة الاشراف 35/7، 55/7، 39/7، 129/7، 314/7، 349/7]

مفردات:
«سِبَاب، سَبَّ يَسُبُّ (نَصَرَ يَنْصُرُ)» کا مصدر «سَبٌ» اور «سِبَابٌ» دونوں طرح آتا ہے گالی دینا بعض نے فرمایا یہاں «سباب» باب مفاعلہ میں سے ہے یعنی دونوں جانب سے گالی گلوچ کرنا۔ «اَلسُّبَّةُ» جسے گالی دی جائے دبر کو بھی «سُبَّة» کہا جاتا ہے کیونکہ گالی دیتے وقت اسی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ ابراہیم حربی نے فرمایا: «سباب» سب سے زیادہ سخت اور تکلیف ده گالی کو کہتے ہیں کیونکہ «سباب» کا مطلب ہے کہ کسی آدمی کے ان عیوب کا ذکر کیا جائے جو اس میں ہیں اور ان کا بھی جو اس میں نہیں ہیں۔
«قِتَال» باب مفاعلہ کا مصدر ہے ایک دوسرے سے لڑنا۔
«فُسُوْق . نَصَرَ يَنْصُرُ» کا مصدر ہے۔ «فَسَقَ يَفْسُقُ فِسْقًا وَ فُسُوْقًا» لغت میں اس کا معنی نکلنا ہے اور شرع میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نکلنا مراد ہے۔ شرع میں یہ عصیان سے سخت ہے۔ «وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ» [49-الحجرات:7]
اور اس نے کفر، فسوق اور عصیان کو تمہارے لئے ناپسند بنا دیا۔ [فتح ]

فوائد:
➊ مسلمان کو گالی دینا اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے۔ مقابلے میں بھی گالی دینے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ مقابلے میں بھی زیادتی سے بچنا مشکل ہے۔
➋ اگر کوئی ابتداءً گالی دے تو اس سے بدلہ لینا جائز ہے اگرچہ بہتر صبر ہے۔
«وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَـٰئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ» [الشوري: 41]
جو شخص ظلم کئے جانے کے بعد بدلہ لے لے تو ان لوگوں پر کوئی گرفت نہیں۔
«وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ») [الشوري: 43]
اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو یقیناً یہ ہمت کا کام ہے۔
➌ بدلہ لینے میں شرط یہ ہے کہ صرف اتنی گالی دے جتنی اسے دی گئی ہے زیادتی نہ کرے اور نہ وہ بات کرے جو جھوٹ ہو۔ اس صورت میں دونوں کا گناہ گالی کی ابتداء کرنے والے پر ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«المستبان ما قالا فعلى البادي منهما ما لم يعتد المظلوم» ‏‏‏‏ [سنن ترمذي 1981 ]
دو گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ بھی کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔
اگر دونوں ہی ایک دوسرے پر جھوٹ باندھیں تو دونوں گناہ گار ہیں اگرچہ پہل کرنے والا پہل کا مجرم بھی ہے۔ عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «المستبان شيطانان يتهاتران ويتكاذبان» [صحيح ابن حبان - 5696]
آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بدزبانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں۔
مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کافر کو گالی دے سکتا ہے خصوصاً جب وہ محارب (حالت جنگ میں) ہو اس وقت اسے ذلیل کرنے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ عروہ بن مسعود نے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ کے ارد گرد ادھر ادھر کے لوگ جمع ہیں جب جنگ ہوئی تو یہ سب بھاگ جائیں گے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا: «امصص بظر اللات انحن نمر عنه» [بخاري، الشروط /5]
(جاؤ جا کر) لات کی شرم گاہ کو چوسو کیا ہم آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟
اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے
لڑائی کرنا گالی دینے سے سخت ہے اس لئے اس پر حکم بھی سخت ہے۔
➏ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے انسان مومن نہیں رہتا بلکہ ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے لڑائی کو کفر قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا: «لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض» [بخاري 7077]
میرے بعد دوباره کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ خارجی لوگوں کا یہی موقف ہے اور اسی بنا پر انہوں نے علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے کئی لوگوں کو بزعم خویش کبیرہ کا مرتکب ہونے کی بنا پر کافر قرار دیا مگر ان احادیث سے یہ مطلب نکالنا درست نہیں، بلکہ شریعت کے قواعد اور قرآن و حدیث کی صریح نصوص کے خلاف ہے۔
➐ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں کفر دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک وہ کفر جس سے مراد خروج عن الاسلام ہے اور جس کا مرتکب اسلام سے خارج اور ابدی جہنمی ہے یہ کفر جحود اور بڑا کفر ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات ماننے سے انکار کر دینا یہ جانتے ہوئے کہ یہ بات واقعی اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور اس انکار کو درست سمجھنا۔
کفر کی دوسری قسم کو امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ نے «كفرٌ دُوْنَ كفرٍ» (بڑے کفر سے کم تر کفر قرار دیا ہے) یعنی اسلام میں رہ کر کفر کے کسی کام کا ارتکاب کرنا۔ اس کفر کے ارتکاب سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایمان کی ساٹھ یا ستر سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سب سے چھوٹی شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ [صحيح مسلم۔ الايمان /12]
ایمان کی ان تمام شاخوں کی ضد جتنے کام ہیں سب کفر کے کام ہیں۔ مگر کفر کے ہر کام کے ارتکاب سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کوئی شخص اسلام قبول کر لینے توحید و رسالت کی شہادت ادا کرنے، نماز قائم کرنے، زکوة ادا کرنے اور عملی طور پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع فرمان ہو جانے کے بعد کسی گناه مثلاً قتل، زنا، چوری وغیرہ کا ارتکاب کرتا ہے مگر ان کاموں کو جائز نہیں سمجھتا، نہ ہی اللہ اور اس کے رسول کی کسی بات کا انکار کرتا ہے تو یہ شخص گناہ گار مسلم ہے، یہ نہ اسلام سے خارج ہے، نہ ابدی جہنمی۔ ہاں اس نے جو گناہ کیا ہے وہ کفر اور جاہلیت کا کام ہے اس لئے اس کے متعلق اگر کہیں کافر کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کا معنی بھی کفر کے کام کا ارتکاب کرنے والا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہے اور نہ یہ کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں۔
اس تفصیل کی دلیل کے لئے چند آیات و احادیث پر غور کریں۔
«إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ» [4-النساء:48]
یقیناًً اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ چیزیں جسے چاہے گا بخش دے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مشرک جو شرک پر فوت ہو اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں ہاں مومن کے گناہ اللہ چاہے گا تو بخش دے گا۔ چاہے تو سزا دے کر جہنم سے نکال لے گا۔
(ب) شفاعت کی تمام احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا ملت اسلام کا فرد ہے اور اسے اللہ چاہے گا تو شفاعت کے ذریعے جہنم سے نکال دے گا اور چاہے گا تو محض اپنے فضل و کرم سے بغیر کسی کی شفاعت کے جہنم سے نکال دے گا۔
(ج) اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا» [49-الحجرات:9]
اگر مومنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کروا دو۔
اس کے بعد والی آیت میں فرمایا:
«إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ» [49-الحجرات:10]
مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کروا دو۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان آپس میں لڑائی کے باوجود مومن ہیں ان کی ایمانی اخوت ختم نہیں ہوئی کہ وہ ملت اسلام سے خارج ہو جائیں۔ اسی طرح قصاص کی آیات میں قاتل کو اور مقتول کے وارثوں کو بھائی قرار دیا۔ فرمایا:
«فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ» [2-البقرة:178]
تو جس شخص کو اپنے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کر دی جائے تو پیچھا کرنا ہے اچھے طریقے سے اور اس کی طرف ادا کرنا ہے احسان کے ساتھ۔
معلوم ہوا کہ قتل کے باوجود قاتل مسلمان ہے اور مقتول کے وارثوں کا دینی اور ایمانی بھائی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے یا طلحہ و زبیر و عائشہ رضی اللہ عنہم اور حضرت علی اللہ رضی اللہ عنہ کے در میان حتیٰ کہ علی رضی اللہ عنہ اور خوارج کے درمیان جو جنگیں ہوئیں اپنے بالمقابل لڑنے والے کسی شخص کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کافر قرار نہیں دیا، نہ ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنایا، نہ ان کے مال کو مال غنیمت بنایا۔ اگر وہ انہیں کافر قرار دیتے تو مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کی طرح ان کے اموال کو مال غنیمت بناتے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو لونڈی غلام بناتے۔
ان آیات اور صحابہ کرام انتظام کے اجماع سے ثابت ہوا کہ حدیث میں مسلمان سے لڑنے کو جو کفر قرار دیا گیا ہے اور آپس میں لڑنے والوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان سے لڑنا کفر کا کام ہے ایمان کا نہیں اور اس کا ارتکاب کرنے والا کفر کے کام کا ارتکاب کرنے والا ہے یہ نہیں کہ مسلمان سے لڑنا اسلام سے خارج ہونا ہے اور نہ یہ کہ مسلمان سے لڑنے والا ملت اسلام سے خارج ہے۔
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کئی صحابہ سے قتل، زنا، چوری بہتان، شراب نوشی اور دوسرے گناہوں کا صدور ہوا آپ نے ان پر اللہ کی مقرر کردہ حدیں لگائیں مگر نہ کسی کو کافر قرار دیا نہ ملت اسلام سے خارج قرار دیا نہ ہی کسی کو مرتد قرار دے کر اس پر ارتداد کی حد (قتل) لگائی۔
➒ مسلمان کو گالی دینے کو فسق اور اس سے لڑنے کو کفر قرار دینے سے ان گناہوں کی قباحت اور شناعت صاف ظاہر ہے اہل ایمان کو فسق اور کفر کا ارتکاب کسی طور پر زیب نہیں دیتا۔
➓ بعض علماء نے مسلمان سے لڑائی کرنا کفر ہے کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ اسے مجازاً کفر قرار دیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی نعمت اس کے احسان کی ناشکری اور اخوة اسلام کی بے قدری ہے۔ یہ وہ کفر نہیں جو ایمان سے انکار پر لازم آتا ہے۔ اسے کفر اس لئے قرار دیا گیا کہ اس گناہ میں بڑھتے بڑھتے دل پر زنگ لگ جانے کی وجہ سے بعض اوقات انسان بڑے کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ «اعاذنا الله منه»
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 155   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث69  
´ایمان کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 69]
اردو حاشہ:
(1)
چونکہ مسلمانوں میں باہمی تعلقات کا خوش گوار ہونا شرعا مطلوب ہے، اس لیے شریعت نے ان کاموں سے منع فرمایا ہے جن سے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہو، ان میں ایک چیز گالی گلوچ بھی ہے جو ایک اچھے مسلمان کی شان کے لائق نہیں، اس لیے اسے فسق یعنی نافرمانی اور گناہ قرار دیا گیا ہے۔

(2)
مسلمان سے جنگ کرنا کفر ہے، اس سے وہ کفر مراد نہیں جس کی وجہ سے کوئی شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے بلکہ اس سے مراد ایسا کام ہے جو مسلمان کی شان کے خلاف ہے، یعنی علماء کی اصطلاح میں (كفر دون كفر)
چھوٹا کفر ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
﴿وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا﴾ (الحجرات: 9)
 جب مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کرادیا کرو۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑائی کے باوجود وہ مومن ہی رہتے ہیں، کافر نہیں ہو جاتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 69   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1283  
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1283»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأدب، باب ما ينهي من السباب واللعن، حديث:6044، ومسلم، الإيمان، باب بيان قول النبي صلي الله عليه وسلم سباب المسلم فسوق وقتاله كفر"، حديث:64.»
تشریح:
1. اس حدیث میں مسلمان کا مسلمان کو گالی دینا فسق قرار دیا گیا ہے۔
اور فسق آدمی کے اللہ کی اطاعت سے باہر نکل جانے کو کہتے ہیں۔
چونکہ اسلام میں مسلمان کو گالی دینا ممنوع ہے اور گالی دینے والا حکم الٰہی سے باہر نکل جاتا ہے‘ اس لیے ایسے شخص کو فاسق کہا گیا ہے۔
2. اگر کوئی شخص مسلمان کا قتل جائز سمجھتا ہو اور اسلام کی حالت میں اس سے لڑنا حلال اور جائز سمجھتا ہو تو اس کے کفر حقیقی پر سب کا اتفاق ہے۔
اور اگر دونوں باتیں نہ ہوں تو اس پر کفر کا اطلاق مجازی طور پر ہوگا۔
صحیح مسلم میں ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سب لوگ عافیت دیے جانے کے قابل ہیں مگر جو لوگ علانیہ طور پر گناہ کا ارتکاب کریں‘ وہ اس کے مستحق نہیں۔
(صحیح مسلم‘ الزھد‘ باب النھي عن ھتک الإنسان ستر نفسہ‘ حدیث:۲۹۹۰) 3.علماء کے مابین فاسق کے فسق سے لوگوں کو آگاہ کرنے میں اختلاف ہے۔
فاسق کے فسق کو اگر اس لیے ظاہر کیا جائے کہ لوگ اس کے شر سے محفوظ رہ سکیں تو جائز ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1283   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1983  
´گالی گلوچ کی مذمت سے متعلق ایک اور باب۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جھگڑا کرنا کفر ہے ۱؎۔ راوی زبید بن حارث کہتے ہیں: میں نے ابووائل شقیق بن سلمہ سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے سنی ہے؟ کہا: ہاں۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1983]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزت و احترام کا خاص خیال رکھے کیوں کہ ناحق کسی کو گالی دینا باعث فسق ہے،
اور ناحق جھگڑا کرنا کفار کا عمل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1983   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.