الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز عیدین کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Two Eids
حدیث نمبر: 2053
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن ايوب ، وقتيبة وابن حجر ، قالوا: حدثنا إسماعيل بن جعفر ، عن داود بن قيس ، عن عياض بن عبد الله بن سعد ، عن ابي سعيد الخدري ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخرج يوم الاضحى ويوم الفطر، فيبدا بالصلاة فإذا صلى صلاته وسلم قام، فاقبل على الناس وهم جلوس في مصلاهم، فإن كان له حاجة ببعث ذكره للناس، او كانت له حاجة بغير ذلك امرهم بها، وكان، يقول: " تصدقوا تصدقوا تصدقوا "، وكان اكثر من يتصدق النساء، ثم ينصرف فلم يزل كذلك حتى كان مروان بن الحكم، فخرجت مخاصرا مروان حتى اتينا المصلى، فإذا كثير بن الصلت قد بنى منبرا من طين ولبن، فإذا مروان ينازعني يده كانه يجرني نحو المنبر، وانا اجره نحو الصلاة، فلما رايت ذلك منه، قلت: اين الابتداء بالصلاة؟ فقال: لا يا ابا سعيد قد ترك ما تعلم، قلت: كلا والذي نفسي بيده لا تاتون بخير مما اعلم ثلاث مرار، ثم انصرف.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ، فَيَبْدَأُ بِالصَّلَاةِ فَإِذَا صَلَّى صَلَاتَهُ وَسَلَّمَ قَامَ، فَأَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ وَهُمْ جُلُوسٌ فِي مُصَلَّاهُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ حَاجَةٌ بِبَعْثٍ ذَكَرَهُ لِلنَّاسِ، أَوْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ بِغَيْرِ ذَلِكَ أَمَرَهُمْ بِهَا، وَكَانَ، يَقُولُ: " تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا "، وَكَانَ أَكْثَرَ مَنْ يَتَصَدَّقُ النِّسَاءُ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى كَانَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، فَخَرَجْتُ مُخَاصِرًا مَرْوَانَ حَتَّى أَتَيْنَا الْمُصَلَّى، فَإِذَا كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ قَدْ بَنَى مِنْبَرًا مِنْ طِينٍ وَلَبِنٍ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُنَازِعُنِي يَدَهُ كَأَنَّهُ يَجُرُّنِي نَحْوَ الْمِنْبَرِ، وَأَنَا أَجُرُّهُ نَحْوَ الصَّلَاةِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ مِنْهُ، قُلْتُ: أَيْنَ الِابْتِدَاءُ بِالصَّلَاةِ؟ فَقَالَ: لَا يَا أَبَا سَعِيدٍ قَدْ تُرِكَ مَا تَعْلَمُ، قُلْتُ: كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَأْتُونَ بِخَيْرٍ مِمَّا أَعْلَمُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روا یت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن تشریف لا تے تو نماز سے آغاز فرماتے اور جب اپنی نماز پڑھ لیتے اور سلام پھیر تے تو کھڑے ہو جا تے لوگوں کی طرف رخ فرماتے جبکہ لو گ اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں بیٹھے ہو تے اگر آپ کو کوئی لشکر بھیجنے کی ضرورت ہو تی تو اس کا لو گو ں کے سامنے ذکر فرماتے اور اگر آپ کو اس کے سوا کوئی اور ضرورت ہوتی تو انھیں اس کا حکم دیتے اور فرمایا کرتے "صدقہ کرو صدقہ کرو صدقہ کرو زیادہ صدقہ عورتیں دیا کرتی تھیں پھر آپ واپس ہو جا تے اور یہی معمول چلتا رہا حتیٰ کہ مردان بن حکم کا دور آگیا میں اس کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر نکلا حتیٰ کہ ہم عید گا ہ میں پہنچ گئے تو دیکھا کہ کثیر بن صلت نے وہاں مٹی (کے گا رے) اور اینٹوں سے منبر بنا یا ہو اتھا تو اچانک مردان کا ہا تھ مجھ سے کھنچا تا نی کرنے لگا جیسے وہ مجھے منبر کی طرف کھنچ رہا ہو اور میں اسے نماز کی طرف کھنچ رہا ہوں جب میں نے اس کی طرف سے یہ بات دیکھی تو میں نے کہا: نماز سے آغاز (کا مسنون کا طریقہ) کہاں ہے؟ اس نے کہا: اے ابو سعید!نہیں جو آپ جا نتے ہیں اسے ترک کر دیا گیا ہے میں نے کہا: ہر گز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو میں جانتا ہوں تم اس سے بہتر طریقہ نہیں لاسکتے۔۔۔ابو سعید رضی اللہ عنہ نے تین دفہ کہا، پھر چل دئیے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن نکلتے تھے تو نماز سے آغاز فرماتے اور جب اپنی نماز پڑھ لیتے اور سلام پھیرتے تو کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہو جاتے جبکہ لو گ اپنی نماز گاہ میں بیٹھے رہتے، اگر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی لشکر بھیجنے کی ضرورت ہوتی تو اس کا لوگوں کے تذکرہ فرماتے اور اس کے سوا کوئی اور ضرورت ہوتی تو انھیں اس کا حکم دیتے اور فرمایا کرتے صدقہ کرو صدقہ کرو صدقہ کرو زیادہ صدقہ عورتیں دیا کرتی تھیں پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم واپس آ جاتے اور یہی معمول قائم رہا۔ حتیٰ کہ مروان بن حکم کا دور آ گیا تو میں اس کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر نکلا حتیٰ کہ ہم عید گا ہ میں پہنچ گئے تو دیکھا کہ کثیر بن صلت نے وہاں مٹی اور اینٹوں سے منبر بنایا ہوا تھا تو مروان مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑوانے لگا گویا کہ وہ مجھے منبر کی طرف کھنچ رہا ہے اور میں اسے نماز کی طرف کھنچ رہا ہوں جب میں نے اس کا یہ فعل دیکھا تو میں نے کہا۔ نماز آغاز کا عمل کہاں گیا؟ تو اس نے کہا۔ اے ابو سعید! ایسے نہیں ہے۔ آپ جو جانتے ہیں اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ میں نے کہا ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو میں جانتا ہوں تم اس سے بہتر طریقہ نہیں نکال سکتے۔ تین دفعہ کہا اور پھر ہٹ گئے۔ (مخاصرا، ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرچلنا۔)
ترقیم فوادعبدالباقی: 889

   صحيح البخاري304سعد بن مالكيا معشر النساء تصدقن أريتكن أكثر أهل النار تكثرن اللعن وتكفرن العشير ما رأيت من ناقصات عقل ودين أذهب للب الرجل الحازم من إحداكن قلن وما نقصان ديننا وعقلنا يا رسول الله قال أليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل
   صحيح البخاري1462سعد بن مالكتصدقن فإني رأيتكن أكثر أهل النار
   صحيح مسلم2053سعد بن مالكتصدقوا تصدقوا تصدقوا وكان أكثر من يتصدق النساء ثم ينصرف
   سنن ابن ماجه1288سعد بن مالكتصدقوا تصدقوا فأكثر من يتصدق النساء بالقرط والخاتم والشيء
   بلوغ المرام125سعد بن مالكاليس إذا حاضت المراة لم تصل ولم تصم
   مشكوة المصابيح19سعد بن مالكيا معشر النساء تصدقن فإني اريتكن اكثر اهل النار
   بلوغ المرام515سعد بن مالك‏‏‏‏صدق ابن مسعود،‏‏‏‏ زوجك وولدك احق من تصدقت به عليهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 125  
´حائضہ کے لیے ترک صلاۃ و صوم `
«. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏اليس إذا حاضت المراة لم تصل ولم تصم . . .»
. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ کیا عورت جب حالت حیض میں ہوتی ہے تو نماز اور روزہ چھوڑ نہیں دیتی . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 125]
لغوی تشریح:
«أَلَيْسَ» اس میں ہمزہ انکار کے لیے ہے۔ جب نفی کا انکار ہو تو اثبات ثابت ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوئے کہ شریعت میں ایسی عورت کے لیے ترک صلاۃ و صوم ثابت ہے، البتہ دیگر دلائل کی رو سے روزوں کی قضا دوسرے ایام میں ادا کرے گی جبکہ نماز کی قضا نہیں، اس لیے کہ اس قضا کا ادا کرنا عورت کے لیے نہایت مشکل ہے اور یہ عورت کے حق میں ثابت بھی نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 125   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 304  
´عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے`
«. . . قَالَ: أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟ قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا، أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟ قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا، جی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے، عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 304]

لغوی توضیح:
«اُرِيْتُكُنَّ» مجھے دکھایا گیا ہے (یعنی معراج کی رات)۔
«تَكْفُرْنَ الْعَشِيْرَ» شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔
«لُبّ» عقل۔
«الْحَازم» مضبوط و ضابط شخص۔

فہم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا دین اور عقل مردوں سے کم ہے۔ یاد رہے کہ یہ بات مجموعی اعتبار سے ہے کیونکہ انفرادی اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ بہت سی عورتیں بہت سے مردوں سے زیادہ عقل مند اور دین پر عمل پیرا ہوں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گی۔ لہٰذا خواتین کو ایک تو شوہروں کی نافرمانی و ناشکری سے بچنا چاہئیے اور دوسرے زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ صدقہ آتش جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہے جیسا کہ فرمان نبوی ہے کہ آگ سے بچو خواہ کھجور کی گٹھلی صدقہ کر کے ہی۔ [بخاري: كتاب الزكاة: بَابُ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ: 1417]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 49   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 19  
´عورتوں کونصیحتیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ - [14] - أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرجل الحازم من إحداكن قُلْنَ وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَان عقلهَا أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تَصِلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقرہ عید یا عیدالفطر میں عیدگاہ کی طرف نکلے تو عورتوں کے پاس سے آپ کا گزر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت! تم لوگ صدقہ و خیرات کرو کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ تم دوزخ میں زیادہ جانے والی ہو۔ (یعنی عورتیں زیادہ تر دوزخ میں داخل ہوں گی۔) ان عورتوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! عورتیں کس وجہ سے دوزخ میں زیادہ تر داخل ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لعن و طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی نافرمانی اور ناشکری بہت کرتی ہو، دین و عقل کی کمی تم لوگوں سے زیادہ کسی میں نہیں دیکھی ہے کہ تم سب سے زیادہ بےعقل بھی ہو اور تم لوگوں کا دین بھی ناقص ہے کہ ہوشیار اور سمجھدار آدمی کی عقل کو کھو دیتی ہو۔ ان عورتوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے دین اور ہماری عقل کی کیا کمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ایک عورت کی گواہی ایک مرد کے نصف گواہی کے برابر نہیں ہے (یعنی شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے) ان عورتوں نے کہا: ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ان کی عقل کی کمی کی وجہ سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا جس وقت عورت ماہواری کی حالت میں ہوتی ہے تو نماز نہیں پڑھتی اور نہ روزہ رکھتی ہے؟ ان عورتوں نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان کے دین کی کمی کا سبب ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 19]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 304]،
[صحيح مسلم 2053]

فقہ الحدیث
➊ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مردوں کو عورتوں پر بحیثیت مجموعی برتری حاصل ہے۔ اس کی تائید قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ»
مرد عورتوں پر نگراں ہیں۔‏‏‏‏ [سورة النساء: 34]
➋ نماز دین اسلام کا ایک (یعنی دوسرا) بنیادی رکن ہے، چونکہ نماز عمل کا نام ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ نماز اعمال دین (یعنی ایمان) میں سے ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ»
اور اللہ تمہارے ایمان (یعنی نمازیں) ضائع نہیں کرے گا۔ [سورة البقرة:143]
➌ عورت ایام حیض میں نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔ اس کے لئے دین کے یہ دونوں کام، اس حالت میں ممنوع ہیں۔ دوسرے دلائل سے یہ ثابت ہے کہ ایام حیض گزرنے کے بعد وہ روزوں کی قضا تو کرے گی، لیکن نماز کی قضا نہیں کرے گی۔
➍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کب عورتوں کو جہنم میں دیکھا تھا؟ اس کا ذکر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن والی نماز کے دوران میں عورتوں کو جہنم میں دیکھا تھا۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 1052، وصحيح مسلم 907/17، اضوء المصابيح 1482]
تنبیہ:
ایک روایت میں آیا ہے کہ ہر آدمی کو بہتر 72 حوریں اور سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد سے دو عورتیں ملیں گی۔ [مسند ابي يعلي بحواله النهاية فى الفتن والملاحم 1؍177 ح498 بتحقيقي، وتحقيق ثاني ح: 53 والمطولات للطبراني ح: 36/المعجم الكبير 25؍276]
اس سے معلوم ہوا کہ جنت میں عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ ہوں گی۔
↰ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے، اس کا راوی اسماعیل بن رافع ضعیف ہے۔
↰ حافظ ابن حجر نے کہا: «ضعيف الحفظ» [تقريب التهذيب: 442]
↰ اس روایت کی سند متصل نہیں ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: «لا يصح» یہ صحیح نہیں ہے۔ [الكامل لابن عدي 1؍278 وسنده صحيح]
➎ اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی آدھی ہے۔ یعنی ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی ہے۔ اس کی تائید قرآن مجید کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ»
پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں (کی گواہی پیش کرو۔) [سورة البقره: 282]
تنبیہ: جن امور کا تعلق خاص عورت سے ہے مثلاً بچے کو دودھ پلانا وغیرہ تو اس میں ایک عورت کی گواہی بھی مقبول ہے اور اسی طرح قبول روایت میں ایک ثقہ عورت کی گواہی مقبول ہے۔
➏ مسلمان کا مسلمان پر لعنت بھیجنا حرام ہے، اگرچہ جس پر لعنت بھیجی جا رہی ہے وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک شرابی پر کسی نے لعنت بھیجی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تلعنوه» اس پر لعنت نہ بھیجو۔‏‏‏‏ [صحيح البخاري: 6780]
اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ متعین زندہ کافر پر بھی لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے۔ اگر کافر مر جائے اور اس بات کا یقینی ثبوت ہو کہ وہ کفر پر مرا ہے تو پھر اس پر لعنت بھیجنا جائز ہے، جیسے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ کافروں پر لعنت بھیجنا بالاجماع جائز ہے۔ کسی متعین انسان کا نام لئے بغیر عام لعنت بھیجی جا سکتی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی اور سودی پر لعنت بھیجی ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود 3478 وصحيح مسلم 1598، 1597]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 19   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1288  
´عیدین میں خطبے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن نکلتے اور لوگوں کو دو رکعت پڑھاتے، پھر سلام پھیرتے، اور اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر لوگوں کی جانب رخ کرتے، اور لوگ بیٹھے رہتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: لوگو! صدقہ کرو، صدقہ کرو، زیادہ صدقہ عورتیں دیتیں، کوئی بالی ڈالتی، کوئی انگوٹھی اور کوئی کچھ اور، اگر آپ کو لشکر بھیجنا ہوتا تو لوگوں سے اس کا ذکر کرتے، ورنہ تشریف لے جاتے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1288]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عید کی نماز مسجد کے بجائے کھلے میدان میں ادا کرنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی افضل ترین جگہ چھوڑ کر میدان میں نماز عید ادا کی۔

(2)
خطبہ عید کی نماز کے بعد دینا چاہیے۔

(3)
  عید کا خطبہ منبر پر نہیں زمین پر کھڑے ہوکر ہی دینا چاہیے۔

(4)
خطبے میں حالات کے مطابق مناسب مسائل بیان کرنے چاہیں۔

(5)
عورت اپنی ذاتی چیز خاوند کی اجازت کے بغیر صدقہ کرسکتی ہے۔

(6)
خطبہ اطمینان سے بیٹھ کرسننا چاہیے۔
تاہم کوئی شخص اٹھ جائے تو جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1288   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2053  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مروان بن حکم کی گورنری کے دور سے پہلے تک خطبہ سے عید کی نماز پہلے پڑھنے کا معمول جاری تھا اس نے مدینہ میں نماز سے خطبہ پہلے دینے کاعمل شروع کیا۔
لیکن حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برملا اس کو روکا اور کہا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے بہتر طریقہ نکالنا ممکن نہیں ہے۔
اس لیے تمہارا یہ طرز عمل درست نہیں ہے لیکن مروان نے ان کی بات نہیں مانی۔
تو انہوں نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا۔
اس کو صحیح بات سمجھانے پر اکتفا کیا۔
اور اس کے بعد اس کی اقتداء میں عید پڑھ لی۔
اور نماز کے بعد دوبارہ اس مسئلہ میں ان سے گفتگو کی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2053   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.