الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
110. بَابُ : مَسْأَلَةِ الْكَافِرِ
110. باب: قبر میں کافر و مشرک سے سوال و جواب۔
Chapter: The Questioning of The Disbeliever
حدیث نمبر: 2053
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن ابي عبيد الله , قال: حدثنا يزيد بن زريع، عن سعيد، عن قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه اصحابه، إنه ليسمع قرع نعالهم اتاه ملكان فيقعدانه , فيقولان له: ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه وسلم فاما المؤمن , فيقول: اشهد انه عبد الله ورسوله , فيقال له: انظر إلى مقعدك من النار قد ابدلك الله به مقعدا خيرا منه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فيراهما جميعا واما الكافر او المنافق , فيقال له: ما كنت تقول في هذا الرجل، فيقول: لا ادري، كنت اقول كما يقول الناس، فيقال له: لا دريت ولا تليت، ثم يضرب ضربة بين اذنيه، فيصيح صيحة يسمعها من يليه غير الثقلين".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ , فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ , فَيَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ , فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا خَيْرًا مِنْهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا وَأَمَّا الْكَافِرُ أَوِ الْمُنَافِقُ , فَيُقَالُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ، فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، كُنْتُ أَقُولُ كَمَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيُقَالُ لَهُ: لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ثُمَّ يُضْرَبُ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ، فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرُ الثَّقَلَيْنِ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے ساتھی لوٹتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے، (پھر) دو فرشتے آتے ہیں، (اور) اسے بٹھاتے ہیں (پھر) اس سے پوچھتے ہیں: تم اس شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ رہا مومن تو وہ کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (پھر) اس سے کہا جاتا ہے تم جہنم میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کے بدلے ایک اچھا ٹھکانا دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: وہ ان دونوں (جنت و جہنم) کو ایک ساتھ دیکھتا ہے، اور رہا کافر یا منافق تو اس سے پوچھا جاتا ہے: اس شخص (محمد) کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟، تو وہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، تو اس سے کہا جائے گا: نہ تم نے خود جاننے کی کوشش کی، اور نہ جانکار لوگوں کی پیروی کی، پھر اس کے دونوں کانوں کے بیچ ایک ایسی مار ماری جاتی ہے کہ وہ ایسے زور کی چیخ مارتا ہے جسے انسان اور جنات کے علاوہ جو بھی اس کے قریب ہوتے ہیں سبھی سنتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2051 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   سنن النسائى الصغرى2051أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم
   سنن النسائى الصغرى2052أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم قال فيأتيه ملكان فيقعدانه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة قال النبي صلى الله عليه و
   سنن النسائى الصغرى2053أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا خيرا منه قال رسو
   صحيح البخاري1338أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال انظر إلى مقعدك من النار أبدلك الله به مقعدا من الجنة قال النبي صلى الله عل
   صحيح البخاري1374أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه وإنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فيقعدانه فيقولان ما كنت تقول في هذا الرجل لمحمد فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة فيراهما
   صحيح مسلم7216أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم قال يأتيه ملكان فيقعدانه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل قال فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله قال فيقال له انظر إلى مقعدك من النار قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة قال نبي الله صلى
   سنن أبي داود3231أنس بن مالكالعبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه إنه ليسمع قرع نعالهم
   سنن أبي داود4751أنس بن مالكالمؤمن إذا وضع في قبره أتاه ملك فيقول له ما كنت تعبد فإن الله هداه قال كنت أعبد الله فيقال له ما كنت تقول في هذا الرجل فيقول هو عبد الله ورسوله فما يسأل عن شيء غيرها فينطلق به إلى بيت كان له في النار فيقال له هذا بيتك كان لك في النار ولكن الله عصمك ورحمك
   مشكوة المصابيح126أنس بن مالكإن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه اصحابه وإنه ليسمع قرع نعالهم اتاه ملكان فيقعدانه فيقولان ما كنت تقول في هذا الرجل
   المعجم الصغير للطبراني342أنس بن مالك من قتله بطنه لم يعذب فى قبره
   مسندالحميدي1221أنس بن مالكلولا أن تدافنوا لسألت الله عز وجل أن يسمعكم من عذاب أهل القبور ما أسمعني

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1338  
´مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ , وَتُوُلِّيَ , وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے اس کے لوگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1338]

فوائد و مسائل:
↰ یہ ایک استثناء ہے۔ ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ مردوں کے نہ سننے کا قانون اپنی جگہ مستقل ہے۔ اگر وہ ہر وقت سن سکتے ہوتے تو «حين يولون عنهٔ» (جب لوگ میت کو دفنا کر واپس ہو رہے ہو تے ہیں) اور «إِذا انصرفوا»، (جب لوگ لوٹتے ہیں) کی قید لگا کر مخصوص وقت بیان کرنے کا کیا فائدہ تھا؟ مطلب یہ کہ قانون اور اصول تو یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا، تاہم اس حدیث نے ایک موقع خاص کر دیا کہ دفن کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، ان کی واپسی کے وقت میت ان لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔

◈ علامہ عینی حنفی(م:855 ھ) لکھتے ہیں:
«وفيه دليل على أنّ الميت تعود إليه روحه لأجل السؤال، وإنه ليسمع صوت نعال الاحياء، وهو فى السؤال»
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کی روح اس سے (منکر و نکیر کے) سوال کے لیے لوٹائی جاتی ہے اور میت سوال کے وقت زندہ لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔ [شرح أبى داؤد:188/6]
↰ پھر عربی گرائمر کا اصول ہے کہ جب فعل مضارع پر لام داخل ہو تو معنی حال کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے یعنی «ليسمع» وہ خاص اس حال میں سنتے ہیں۔

↰ اس تحقیق کی تائید، اس فرمان نبوی سے بھی ہوتی ہے جو:
◈ امام طحاوی حنفی نے نقل کیا ہے:
«والذي نفسي بيده! إنه ليسمع خفق نعالهم، حين تولون عنه مدبرين»
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جا رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کی جوتوں کی آواز سنتی ہے۔ [شرح معاني الاثار للطحاوي:510/1، وسنده حسن]

◈ عالم عرب کے مشہور اہل حدیث عالم دین، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332- 1420ھ)اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
«فليس فيه إلا السماع فى حالة إعادة الروح إليه ليجيب على سؤال الملكين، كما هو واضح من سياق الحديث.»
اس حدیث میں صرف یہ مذکور ہے کہ جب فرشتوں کے سوالات کے جواب کے لئے میت میں روح لوٹائی جاتی ہے تو اس حالت میں وہ (جوتوں کی) آواز سنتی ہے۔ حدیث کے سیاق سے یہ بات واضح ہو رہی ہے۔ [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء فى الأمّة: 1147]

◈ مشہور عرب، اہل حدیث عالم، محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (م:1421 ھ) فرماتے ہیں:
«فهو وارد فى وقت خاص، وهو انصراف المشيعين بعد الدّفن.»
مردوں کا یہ سننا ایک خاص وقت میں ہوتا ہے اور وہ دفن کرنے والوں کا تدفین کے بعد واپس لوٹنے کا وقت ہے۔ [القول المفيد على كتاب التوحيد: 289/1]
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث\صفحہ نمبر: 26   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 126  
´قبر میں سوال جواب`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنه حَدثهمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجنَّة فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَة وَذكر لنا أَنه يفسح لَهُ فِي قَبره ثمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيث أنس قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثقلَيْن» وَلَفظه للْبُخَارِيّ . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق بندے کو جب اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس ہونے لگتے ہیں تو وہ مردہ واپس جانے والوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے، اس کے پاس دو فرشتے آ کر اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے دریافت کرتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے تھے جو تمہارے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تم کیا کہتے تھے۔ پس مومن بندہ جواب میں کہتا ہے کہ میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اس سے کہا جاتا ہے تم دوزخ میں اپنے ٹھکانے کو دیکھو (کہ اگر تو ایمان نہیں لاتا تو تیرا ٹھکانا دوزخ میں تھا)، لیکن ایمان لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں جنت میں تمہارا ٹھکانا مقرر کر دیا ہے تو وہ دونوں جنت جہنم کے ٹھکانے کو دیکھتا ہے۔ اور جو مردہ منافق یا کافر ہوتا ہے اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ تم اس کے بارے میں کیا کہتے تھے جو تمہارے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ وہ اس کے جواب میں کہتا ہے میں نہیں جانتا جو لوگ کہا کرتے تھے میں بھی وہی کہہ دیا کرتا تھا یعنی منافق بغیر سچے اعتقاد کے کلمہ طیبہ جان بچانے کے لیے کہہ دیتا تھا مگر نہ اس کا مطلب سمجھا اور نہ اس کے مطابق عمل کیا صرف مسلمانوں کے دیکھا دیکھی وہ کہہ دیا کرتا تھا اسی لیے وہ فرشتوں کے جواب میں کہتا ہے کہ میں حقیقت حال کو کچھ نہیں جانتا، جو اور لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کہہ دیا کرتا تھا۔ تو اس سے کہا جاتا ہے نہ تو نے عقل ہی سے پہچانا اور نہ قرآن مجید کی تلاوت کی۔ یا یہ مطلب ہے نہ تم نے خود سمجھا اور نہ سمجھداروں کی تابعداری کی یعنی نہ دلیل عقلی سے سمجھا اور نہ دلیل نقلی، قرآن و حدیث سے جانا۔ یہ کہہ کر اسے لوہے کی گرزوں سے مارا جاتا ہے کہ وہ چیخنے لگتا ہے کہ اس کی چیخ کی آواز آس پاس کے سب ہی سنتے ہیں، سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور الفاظ بخاری کے ہیں۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 126]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 1374]،
[صحيح مسلم 7216]

فقہ الحدیث:
➊ سوال و جواب کے وقت میت واپس جانے والے لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔
➋ قبرستان میں جوتوں سمیت چلنا جائز ہے۔
«هذا الرجل» سے مراد یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دکھائے جاتے ہیں۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ میت اس سوال کے جواب میں کہتی ہے: «اي رجل» کون سا آدمی؟ ديكهئے: [المستدرك للحاكم 3801/1 ح1709، وسنده حسن، و صحيح ابن حبان، الاحسان: 3119/3103 و صححه الحاكم و وافقه الذهبي]
اگر قبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار ہوتا تو مرنے والا یہ کبھی نہ پوچھتا کون سا آدمی؟
➍ آج کل «ولاتليتَ» سے بعض تقلیدی لوگ تقلید ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اس سے مراد کتاب اللہ کی تلاوت یا انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 126   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2053  
´قبر میں کافر و مشرک سے سوال و جواب۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے ساتھی لوٹتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے، (پھر) دو فرشتے آتے ہیں، (اور) اسے بٹھاتے ہیں (پھر) اس سے پوچھتے ہیں: تم اس شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ رہا مومن تو وہ کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (پھر) اس سے کہا جاتا ہے تم جہنم میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لو ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2053]
اردو حاشہ:
(1) جس طرح لوگ کہتے تھے گویا اس کا اپنا ایمان نہیں تھا۔ ایمان کا اثر ہی باقی رہتا ہے۔ زبانی باتیں تو ہوا میں اڑ جاتی ہیں، لہٰذا اس کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا۔
(2) انسان و جن کے علاوہ ورنہ اس کی زندگی برباد ہو جائے اور معاش بگڑ جائے۔ دوسری مخلوقات کا عذاب قبر کو سننا کوئی بعید بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے حیوانات کو بعض صلاحیتیں انسان سے بڑھ کر دی ہیں، جیسے کتے وغیرہ کی سونگھنے کی قوت انسان سے بہت بڑھ کر ہے۔ ﴿ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ﴾ (یس: 38:36)
(3) دینی مسائل میں تقلید مذموم چیز ہے، ہر مکلف پر اتباع ضروری ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2053   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3231  
´قبروں کے درمیان جوتا پہن کر چلنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: جب بندہ اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی لوٹنے لگتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3231]
فوائد ومسائل:

میت کو قبر میں زندہ کیا جاتاہے۔
اور پھر اس کا محاسبہ ہوتا ہے۔
اور یہ سب غیبی معاملہ ہے۔
سماع موتیٰ میں ہمیں صرف اسی قدر خبر دی گئی ہے۔
کہ وہ جانے والوں کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔
اور اسی پر ہمارا ایمان ہے اس سے مذید کی نفی ثابت ہے۔

معلوم ہوا کہ قبرستان میں جوتے پہننا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3231   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.