الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
60. بَابُ النَّجْشِ:
60. باب: نجش یعنی دھوکا دینے کے لیے قیمت بڑھانا کیسا ہے؟
(60) Chapter. An-Najsh and whoever said: " A bargain carried out in such a way (Najsh) is not valid."
حدیث نمبر: Q2142
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ومن قال: لا يجوز ذلك البيع، وقال ابن ابي اوفى: الناجش آكل ربا خائن وهو خداع باطل لا يحل، قال النبي صلى الله عليه وسلم: الخديعة في النار، ومن عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد.وَمَنْ قَالَ: لَا يَجُوزُ ذَلِكَ الْبَيْعُ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي أَوْفَى: النَّاجِشُ آكِلُ رِبًا خَائِنٌ وَهُوَ خِدَاعٌ بَاطِلٌ لَا يَحِلُّ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْخَدِيعَةُ فِي النَّارِ، وَمَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ.
‏‏‏‏ اور بعض نے کہا یہ بیع ہی جائز نہیں اور ابن ابی اوفی نے کہا کہ «ناجش» سود خوار اور خائن ہے۔ اور «نجش» فریب ہے، خلاف شرع بالکل درست نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فریب دوزخ میں لے جائے گا اور جو شخص ایسا کام کرے جس کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے۔

حدیث نمبر: 2142
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنه، قال:" نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن النجش".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّجْشِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «نجش» (فریب، دھوکہ) سے منع فرمایا تھا۔

Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle forbade Najsh.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 352


   صحيح البخاري6963عبد الله بن عمرنهى عن النجش
   صحيح البخاري2142عبد الله بن عمرعن النجش
   صحيح مسلم3818عبد الله بن عمرنهى عن النجش
   سنن النسائى الصغرى4509عبد الله بن عمرنهى عن النجش
   سنن ابن ماجه2173عبد الله بن عمرنهى عن النجش
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم507عبد الله بن عمر نهى عن النجش
   بلوغ المرام671عبد الله بن عمرنهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن النجش

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 507  
´جھوٹی بولی لگانا منع ہے`
«. . . 243- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن النجش. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجش (جھوٹی بولی لگانے) سے منع فرمایا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 507]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2142، ومسلم 13/1516، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ لغت میں نجش کا مفہوم یہ ہے کہ بیع وغیرہ کی بولی میں بائع کی ہمدردی اور خریداری کی ترغیب کے لئے قیمت پڑھانا (اور خریدنے کا ارادہ نہ کرنا) اسے بیع مزایدہ کہتے ہیں، یہ شرعاً مکروہ ہے۔ (القاموس الوحید ص1613 ج)
امام مال نے بھی تقریباً یہی مفہوم بیان کیا ہے۔
➋ بولی میں اگر دھوکا مقصود نہ ہو تو جائز ہے۔ دیکھئے حدیث سابق: 242
➌ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! ایک کمبل ہے جس ہم اوڑھتے بھی ہیں اور بچھاتے بھی ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں پیتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں چیزیں یہاں لے آؤ۔ وہ لے آئے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا: یہ چیزیں کون خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ نے دو یا تین دفعہ فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں یہ دونوں چیزیں دو درہم میں خریدتا ہوں، آپ نے اس سے دو درہم لے کر اس انصاری کو دے دیئے۔۔۔ الخ [سنن ابي داود: 1641، وسنده حسن لذاته وحسنه الترمذي: 1218، ابوبكر الحنفي حسن الحديث ولم يصح قول البخاري فيه: لا يصح حديثه وأخطأ من ضعف هذا الحديث]
اس حسن لزاتہ حدیث سے جائز بولی کا جواز ثابت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 243   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2142  
2142. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دھوکا دینے کے لیے نرخ بڑھانے سے منع کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2142]
حدیث حاشیہ:
نجش خاص طور پر شکار کو بھڑکانے کے معنی میں آتا ہے۔
یہاں ایک خاص مفہوم شرعی کے تحت یہ مستعمل ہے۔
وہ مفہوم یہ کہ کچھ تاجر اپنے غلط گو ایجنٹ مقرر کردیتے ہیں جن کا کام یہی ہوتا ہے کہ ہر ممکن صورت میں خریدنے والوں کو دھوکہ دے کر زیادہ قیمت وصول کرائیں۔
ایسے ایجنٹ بعض دفعہ گاہک کی موجودگی میں اس چیز کا دام بڑھا کر خریدار بنتے ہیں۔
حالانکہ وہ خریدار نہیں ہیں۔
گاہک دھوکہ میں آکر بڑھے ہوئے داموں پر وہ چیز خرید لیتا ہے۔
الغرض بیع میں دھوکہ فریب کی جملہ صورتیں سخت ترین گناہ کبیرہ کا درجہ رکھتی ہیں۔
شریعت نے سختی سے ان کو روکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2142   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2142  
2142. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دھوکا دینے کے لیے نرخ بڑھانے سے منع کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2142]
حدیث حاشیہ:
(1)
نجش کے لغوی معنی،شکار کو اپنی جگہ سے بھگانا ہے تاکہ اسے اپنے جال میں پھانسا جائے۔
شرع میں اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص قیمت زیادہ لگائے، حالانکہ اس کا خریدنے کا ارادہ نہیں۔
وہ صرف دوسرے کو چیز خریدنے پر اکساتا ہے اور دھوکے میں ڈالتا ہے۔
چونکہ فروخت کرنے والااس کی موافقت کرتا ہے اس لیے دونوں گناہ میں شریک ہوں گے۔
(2)
ہمارے ہاں تجارتی منڈیوں میں تاجر حضرات ایسے ایجنٹ مقرر کردیتے، جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر ممکن خریدار کو دھوکا دے کر زیادہ قیمت دینے پر آمادہ کریں۔
ایسے ایجنٹ بعض اوقات خریدار کی موجودگی میں مطلوبہ چیز کی قیمت بڑھا کر خریدار بنتے ہیں، حالانکہ یہ خریدار نہیں ہوتے۔
گاہک دھوکے میں آکر زیادہ قیمت پر چیز خرید لیتا ہے۔
الغرض خرید و فروخت میں دھوکا دہی کی جملہ صورتیں حرام اور کبیرہ گناہ کا درجہ رکھتی ہیں۔
شریعت نے ان سے منع کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2142   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.