الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
Chapters On Al-Fitan
26. باب مَا جَاءَ مَا أَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
26. باب: قیامت تک واقع ہونے والی چیزوں کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیش گوئی۔
حدیث نمبر: 2191
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عمران بن موسى القزاز البصري، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا علي بن زيد بن جدعان القرشي، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما صلاة العصر بنهار، ثم قام خطيبا فلم يدع شيئا يكون إلى قيام الساعة إلا اخبرنا به، حفظه من حفظه، ونسيه من نسيه، وكان فيما قال: " إن الدنيا حلوة خضرة، وإن الله مستخلفكم فيها، فناظر كيف تعملون، الا فاتقوا الدنيا واتقوا النساء ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وكان فيما قال: " الا لا يمنعن رجلا هيبة الناس ان يقول بحق إذا علمه "، قال: فبكى ابو سعيد، فقال: قد والله راينا اشياء فهبنا. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فكان فيما قال: " الا إنه ينصب لكل غادر لواء يوم القيامة بقدر غدرته، ولا غدرة اعظم من غدرة إمام عامة يركز لواؤه عند استه ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فكان فيما حفظنا يومئذ: " الا إن بني آدم خلقوا على طبقات شتى، فمنهم من يولد مؤمنا ويحيا مؤمنا ويموت مؤمنا، ومنهم من يولد كافرا ويحيا كافرا ويموت كافرا، ومنهم من يولد مؤمنا ويحيا مؤمنا ويموت كافرا، ومنهم من يولد كافرا ويحيا كافرا ويموت مؤمنا، الا وإن منهم البطيء الغضب سريع الفيء، ومنهم سريع الغضب سريع الفيء فتلك بتلك، الا وإن منهم سريع الغضب بطيء الفيء، الا وخيرهم بطيء الغضب سريع الفيء، الا وشرهم سريع الغضب بطيء الفيء، الا وإن منهم حسن القضاء حسن الطلب، ومنهم سيئ القضاء حسن الطلب، ومنهم حسن القضاء سيئ الطلب فتلك بتلك، الا وإن منهم السيئ القضاء السيئ الطلب، الا وخيرهم الحسن القضاء الحسن الطلب، الا وشرهم سيئ القضاء سيئ الطلب، الا وإن الغضب جمرة في قلب ابن آدم، اما رايتم إلى حمرة عينيه وانتفاخ اوداجه فمن احس بشيء من ذلك فليلصق بالارض ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وجعلنا نلتفت إلى الشمس هل بقي منها شيء؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا إنه لم يبق من الدنيا فيما مضى منها إلا كما بقي من يومكم هذا فيما مضى منه "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن حذيفة، وابي مريم، وابي زيد بن اخطب، والمغيرة بن شعبة، وذكروا ان النبي صلى الله عليه وسلم حدثهم بما هو كائن إلى ان تقوم الساعة، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ الْقُرَشِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا صَلَاةَ الْعَصْرِ بِنَهَارٍ، ثُمَّ قَامَ خَطِيبًا فَلَمْ يَدَعْ شَيْئًا يَكُونُ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلَّا أَخْبَرَنَا بِهِ، حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ، وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ، وَكَانَ فِيمَا قَالَ: " إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا، فَنَاظِرٌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ، أَلَا فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَكَانَ فِيمَا قَالَ: " أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ "، قَالَ: فَبَكَى أَبُو سَعِيدٍ، فَقَالَ: قَدْ وَاللَّهِ رَأَيْنَا أَشْيَاءَ فَهِبْنَا. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَكَانَ فِيمَا قَالَ: " أَلَا إِنَّهُ يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَدْرِ غَدْرَتِهِ، وَلَا غَدْرَةَ أَعْظَمُ مِنْ غَدْرَةِ إِمَامِ عَامَّةٍ يُرْكَزُ لِوَاؤُهُ عِنْدَ اسْتِهِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَكَانَ فِيمَا حَفِظْنَا يَوْمَئِذٍ: " أَلَا إِنَّ بَنِي آدَمَ خُلِقُوا عَلَى طَبَقَاتٍ شَتَّى، فَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ مُؤْمِنًا وَيَحْيَا مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيَحْيَا كَافِرًا وَيَمُوتُ كَافِرًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ مُؤْمِنًا وَيَحْيَا مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ كَافِرًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيَحْيَا كَافِرًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمُ الْبَطِيءَ الْغَضَبِ سَرِيعَ الْفَيْءِ، وَمِنْهُمْ سَرِيعُ الْغَضَبِ سَرِيعُ الْفَيْءِ فَتِلْكَ بِتِلْكَ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمْ سَرِيعَ الْغَضَبِ بَطِيءَ الْفَيْءِ، أَلَا وَخَيْرُهُمْ بَطِيءُ الْغَضَبِ سَرِيعُ الْفَيْءِ، أَلَا وَشَرُّهُمْ سَرِيعُ الْغَضَبِ بَطِيءُ الْفَيْءِ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمْ حَسَنَ الْقَضَاءِ حَسَنَ الطَّلَبِ، وَمِنْهُمْ سَيِّئُ الْقَضَاءِ حَسَنُ الطَّلَبِ، وَمِنْهُمْ حَسَنُ الْقَضَاءِ سَيِّئُ الطَّلَبِ فَتِلْكَ بِتِلْكَ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمُ السَّيِّئَ الْقَضَاءِ السَّيِّئَ الطَّلَبِ، أَلَا وَخَيْرُهُمُ الْحَسَنُ الْقَضَاءِ الْحَسَنُ الطَّلَبِ، أَلَا وَشَرُّهُمْ سَيِّئُ الْقَضَاءِ سَيِّئُ الطَّلَبِ، أَلَا وَإِنَّ الْغَضَبَ جَمْرَةٌ فِي قَلْبِ ابْنِ آدَمَ، أَمَا رَأَيْتُمْ إِلَى حُمْرَةِ عَيْنَيْهِ وَانْتِفَاخِ أَوْدَاجِهِ فَمَنْ أَحَسَّ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ فَلْيَلْصَقْ بِالْأَرْضِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَجَعَلْنَا نَلْتَفِتُ إِلَى الشَّمْسِ هَلْ بَقِيَ مِنْهَا شَيْءٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا فِيمَا مَضَى مِنْهَا إِلَّا كَمَا بَقِيَ مِنْ يَوْمِكُمْ هَذَا فِيمَا مَضَى مِنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ حُذَيْفَةَ، وَأَبِي مَرْيَمَ، وَأَبِي زَيْدِ بْنِ أَخْطَبَ، وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَذَكَرُوا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کچھ پہلے پڑھائی پھر خطبہ دینے کھڑے ہوئے، اور آپ نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کے بارے میں ہمیں خبر دی، یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھا اور بھولنے والے بھول گئے، آپ نے جو باتیں بیان فرمائیں اس میں سے ایک بات یہ بھی تھی: دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا ۱؎، پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کرتے ہو؟ خبردار! دنیا سے اور عورتوں سے بچ کے رہو ۲؎، آپ نے یہ بھی فرمایا: خبردار! حق جان لینے کے بعد کسی آدمی کو لوگوں کا خوف اسے بیان کرنے سے نہ روک دے، ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے روتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے بہت ساری چیزیں دیکھی ہیں اور (بیان کرنے سے) ڈر گئے آپ نے یہ بھی بیان فرمایا: خبردار! قیامت کے دن ہر عہد توڑنے والے کے لیے اس کے عہد توڑنے کے مطابق ایک جھنڈا ہو گا اور امام عام کے عہد توڑنے سے بڑھ کر کوئی عہد توڑنا نہیں، اس عہد کے توڑنے والے کا جھنڈا اس کے سرین کے پاس نصب کیا جائے گا، اس دن کی جو باتیں ہمیں یاد رہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی: جان لو! انسان مختلف درجہ کے پیدا کیے گئے ہیں کچھ لوگ پیدائشی مومن ہوتے ہیں، مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، کچھ لوگ کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کفر کی حالت میں مرتے ہیں، کچھ لوگ مومن پیدا ہوتے ہیں، مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کفر کی حالت میں ان کی موت آتی ہے، کچھ لوگ کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر بن کر زندہ رہتے ہیں، اور ایمان کی حالت میں ان کی موت آتی ہے، کچھ لوگوں کو غصہ دیر سے آتا ہے اور جلد ٹھنڈا ہو جاتا ہے، کچھ لوگوں کو غصہ جلد آتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے، یہ دونوں برابر ہیں، جان لو! کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں جلد غصہ آتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے، جان لو! ان میں سب سے بہتر وہ ہیں جو دیر سے غصہ ہوتے ہیں اور جلد ٹھنڈے ہو جاتے ہیں، اور سب سے برے وہ ہیں جو جلد غصہ ہوتے ہیں اور دیر سے ٹھنڈے ہوتے ہیں، جان لو! کچھ لوگ اچھے ڈھنگ سے قرض ادا کرتے ہیں اور اچھے ڈھنگ سے قرض وصول کرتے ہیں، کچھ لوگ بدسلوکی سے قرض ادا کرتے ہیں، اور بدسلوکی سے وصول کرتے ہیں، جان لو! ان میں سب سے اچھا وہ ہے جو اچھے ڈھنگ سے قرض ادا کرتا ہے اور اچھے ڈھنگ سے وصول کرتا ہے، اور سب سے برا وہ ہے جو برے ڈھنگ سے ادا کرتا ہے، اور بدسلوکی سے وصول کرتا ہے، جان لو! غصہ انسان کے دل میں ایک چنگاری ہے کیا تم غصہ ہونے والے کی آنکھوں کی سرخی اور اس کی گردن کی رگوں کو پھولتے ہوئے نہیں دیکھتے ہو؟ لہٰذا جس شخص کو غصہ کا احساس ہو وہ زمین سے چپک جائے، ابو سعید خدری کہتے ہیں: ہم لوگ سورج کی طرف مڑ کر دیکھنے لگے کہ کیا ابھی ڈوبنے میں کچھ باقی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جان لو! دنیا کے گزرے ہوئے حصہ کی بہ نسبت اب جو حصہ باقی ہے وہ اتنا ہی ہے جتنا حصہ آج کا تمہارے گزرے ہوئے دن کی بہ نسبت باقی ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں حذیفہ، ابومریم، ابوزید بن اخطب اور مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ان لوگوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قیامت تک ہونے والی چیزوں کو بیان فرمایا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 19 (4000) (تحفة الأشراف: 4366) (ضعیف) (سند میں ”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف ہیں، اس لیے یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، لیکن اس حدیث کے کئی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے: الصحیحہ: 486، و911)»

وضاحت:
۱؎: یعنی تم کو پچھلی قوموں کا وارث و نائب بنائے گا، یہ نہیں کہ انسان اللہ کا خلفیہ و نائب ہے یہ غلط بات ہے، بلکہ اللہ خود انسان کا خلیفہ ہے جیسا کہ خضر کی دعا میں ہے «والخلیفۃ بعد» ۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن بعض فقراته صحيح. فانظر مثلا ابن ماجة (4000) الرد على بليق (86)، ابن ماجة (4000) // ضعيف سنن ابن ماجة (865) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2191) إسناده ضعيف
علي بن زيد بن جدعان: ضعيف (تقدم:589)

   صحيح مسلم4537سعد بن مالكلكل غادر لواء عند استه يوم القيامة
   صحيح مسلم4538سعد بن مالكلكل غادر لواء يوم القيامة يرفع له بقدر غدره لا غادر أعظم غدرا من أمير عامة
   جامع الترمذي2191سعد بن مالكينصب لكل غادر لواء يوم القيامةبقدر غدرته لا غدرة أعظم من غدرة إمام عامة يركز لواؤه عند استه
   سنن ابن ماجه2873سعد بن مالكينصب لكل غادر لواء يوم القيامة بقدر غدرته
   جامع الترمذي2191سعد بن مالكلا يمنعن رجلا هيبة الناس أن يقول بحق إذا علمه
   سنن ابن ماجه4008سعد بن مالكلا يحقر أحدكم نفسه قالوا يا رسول الله كيف يحقر أحدنا نفسه قال يرى أمرا لله عليه فيه مقال ثم لا يقول فيه فيقول الله له يوم القيامة ما منعك أن تقول في كذا وكذا فيقول خشية الناس فيقول فإياي كنت أحق أن تخشى
   سنن ابن ماجه4007سعد بن مالكلا يمنعن رجلا هيبة الناس أن يقول بحق إذا علمه
   المعجم الصغير للطبراني44سعد بن مالكلا يمنعن أحدكم هيبة الناس أن يقول الحق إذا رآه أو سمعه
   صحيح مسلم6948سعد بن مالكالدنيا حلوة خضرة الله مستخلفكم فيها فينظر كيف تعملون اتقوا الدنيا اتقوا النساء أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء
   جامع الترمذي2191سعد بن مالكالدنيا حلوة خضرة الله مستخلفكم فيها فناظر كيف تعملون اتقوا الدنيا اتقوا النساء
   سنن ابن ماجه4000سعد بن مالكالدنيا خضرة حلوة وإن الله مستخلفكم فيها فناظر كيف تعملون ألا فاتقوا الدنيا اتقوا النساء
   جامع الترمذي2191سعد بن مالكيولد مؤمنا ويحيا مؤمنا ويموت مؤمنا يولد كافرا ويحيا كافرا ويموت كافرا يولد مؤمنا ويحيا مؤمنا ويموت كافرا يولد كافرا ويحيا كافرا ويموت مؤمنا سريع الغضب بطيء الفيء خيرهم بطيء الغضب سريع الفيء شرهم سريع الغضب بطيء الفيء منهم حسن القضاء حسن الطلب منهم سيئ الق
   المعجم الصغير للطبراني343سعد بن مالكيولد مؤمنا ويحيى مؤمنا ويموت مؤمنا يولد كافرا ويحيى كافرا ويموت كافرا يولد كافرا ويحيى كافرا ويموت مؤمنا
   جامع الترمذي2191سعد بن مالكلم يبق من الدنيا فيما مضى منها إلا كما بقي من يومكم هذا فيما مضى منه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 6948  
´کیا انسان اس دنیا میں اللہ کا خلیفہ اور نائب ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا، فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا (ظاہر میں) شیریں اور سبز ہے (جیسے تازہ میوہ) اللہ تعالیٰ تم کو حاکم کرنے والا ہے دنیا میں، پھر دیکھے گا تم کیسے عمل کرتے ہو . . . [صحيح مسلم/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6948]

فوائد و مسائل
SR سوال: کیا یہ کہا جا سکتا کہ انسان اس دنیا میں اللہ کا خلیفہ اور نائب ہے؟ ER
جواب: خلیفہ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ «فعيلة» کے وزن پر ہے، جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم قام ہو تو عرب کہتے ہیں «خلف فلان فلانا» فلاں شخص فلان کا خلیفہ و نائب ہوا۔

✿ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
« ﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾ »
اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا: میں بلاشبہ زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ [2-البقرة:30]
↰ اس سے مراد پوری ذریت آدم ہے یعنی ایسی قوم پیدا کرنے والا ہوں جو ایک دوسرے کے جانشین ہوں گے نہ کہ اللہ کے جانشین ہوں گے (معاذ اللہ)

◈ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اي قوما يخلف بعضهم بعض قرنا بعد قرن وجيلا بعد جيل»
خلیفہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

✿ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر فرمایا:
« ﴿وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ »
اللہ کی ہستی تو وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں خلیفہ بنایا اور بعض کے بعض پر درجات بلند کیے تاکہ جو کچھ اس نے تمھیں دے رکھا ہے اس میں تمھیں آزمائش کرے۔ یقیناً آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے اور یقیناً وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے۔ [6-الأنعام:165]

✿ ایک اور جگہ فرمایا:
« ﴿أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَـهٌ مَعَ اللَّـهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ﴾ »
کون ہے وہ جو بے قرار شخص کی دعا کو قبول کرے جب وہ بےقرار اس سے فریاد کرے اور اس کی مصیبت کو ٹال دے اور کون ہے جو زمین میں تمہیں خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود بھی ہے؟ تم لوگ غور و فکر بہت کم کرتے ہو۔ [27-النمل:62]

✿ ایک مقام پر فرمایا:
« ﴿وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ﴾ »
قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کرے اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ [43-الزخرف:60]

❀ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن الدنيا حلوة خضرة وإن الله مستخلفكم فيها فينظر كيف تعملون .»
بےشک دنیا میٹھا سبزہ ہے اور بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں اس دنیا میں خلیفہ بنانے والا ہے تاکہ وہ دیکھے تم کیسے عمل کر تے ہو۔ [صحيح مسلم، كتاب الرقاق: باب اكثر اهل الحنة الفقراء 6948، مسند احمد 3/ 22]
◈ اس حدیث کی شرح میں شیخ مسلم بن محمود السلفی فرماتے ہیں:
«اي جاعلكم خلفاء من القرون الذين قبلكم فينظر هل تعلمون بطاعة ام بمعصية وشهواتكم .»
یعنی وہ تمہیں پہلے لوگوں کے خلیفہ بنانے والا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ تم اس کی اطاعت کرتے ہو یا اس کی نافرمانی اور اپنی خواہشات پر عمل کرتے ہے۔ [تعليق على صحيح مسلم 4/ 501]

↰ مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ «إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً» میں خاص آ دم علیہ السلام مراد نہیں ہیں بلکہ ان کی تمام اولاد مراد ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ یکے بعد دیگرے اس زمین پر حکومت و خلافت عطا کرتا ہے۔

◈ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والظاهر أنه لم يرد آدم عينا، إذ لو كان ذلك، لما حسن قول الملائكة: ﴿أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها وَيَسْفِكُ الدِّماءَ﴾ فإنهم أرادوا: أن من هذا الجنس من يفعل ذلك .»
ظاہر بات ہے کہ صرف آدم علیہ السلام کی ذات یہاں مراد نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو فرشتوں کا یہ قول بہتر نہیں تھا۔ تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد اور خون ریزی کرے گا۔ فرشتوں نے اس بات کا ارادہ کیا تھا کہ جنس آ دم میں سے ایسے لوگ ہیں جو فساد اور خونریزی کر یں گے۔ [تفسير ابن كثير: ص 49]

◈ علامہ ابوحفص عمر بن علی المعروف ابن عادل الدمشقی فرماتے ہیں:
مفسرین نے اس بات میں دو وجہوں پر اختلاف کیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو خلیفہ کیوں کہا گیا۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی گئی ہے کہ جب اللہ نے زمین سے جنوں کو نکالا اور آدم علیہ السلام کو آباد کیا تو آدم علیہ السلام ان جنوں کے خلیفہ ہو گئے جو پہلے ہو گزرے، اس لیے کہ آدم علیہ السلام ان کے بعد میں آئے۔

◈ اور دوسری وجہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خلیفہ اس لیے قرار دیا:
«لأنه يخلف الله في الحكم بين خلقه، وهو المروي عن ابن مسعود وابن عباس والسدي، وهذا الرأي متأكد بقوله: ﴿إنا جعلناك خليفة في الأرض فاحكم بين الناس بالحق﴾ » [ص: 26]
وہ اللہ کی مخلوق کے درمیان اللہ کا حکم نافذ کرے گا اور یہ بات عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور مفسر سدی سے روایت کی گئی ہے اور یہ رائے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے موکد ہوتی ہے:
بے شک ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے آپ لوگوں کے درمیان حق سے فیصلہ کریں گے۔ [اللباب فى علوم الكتاب 1/ 501، 500]

↰ مفسرین کی ان توجیہات سے معلوم ہو ا کہ انسان اللہ تعالیٰ کا نائب نہیں ہے۔ اسے خلیفہ یا تو اس لیے کہا گیا کہ یکے بعد دیگرے بعض افراد بعض کے جانشین ہیں اور ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے میں یہ سلسلہ جاری و ساری ہے یا پھر اس لیے کہ انسان اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون لوگوں کے درمیان نافذ کرتا ہے اور اسے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

◈ حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ «إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً» کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
خلیفہ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے اور نائب ہے، غلط ہے۔ [تفسير احسن الكلام: ص 17]

↰ بعض علماء نے جو انسان کو اللہ کا نائب و خلیفہ قرار دیا ہے تو اس سے مراد اللہ کے احکامات کا نفاذ کرنے والا ہے۔

◈ مولانا عبدالرحمان کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
یہاں علی الاطلاق خلیفہ (نائب، قائم مقام) کا لفظ استعمال ہو ا ہے، صراحتاً یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ آدم اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے یا کسی دوسری مخلوق کا۔ بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلیفہ چونکہ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کے مرنے یا عدم موجودگی کی صورت میں اس کے اختیارات سنبھالتا ہے اور اللہ تو «حي لا يموت» اور ہمہ وقت حاضر ہے۔ لہذٰا آدم اللہ کے خلیفہ نہیں تھے بلکہ جنوں کے خلیفہ تھے۔ پھر ایک ایسی روایت بھی ملتی ہے کہ انسان کی پیدائش سے پیشتر اس زمین پر جن آباد تھے جو فتنہ و فساد اور قتل و غارت کرتے رہتے تھے تو اللہ نے فرشتوں کا لشکر بھیج کر ان جنوں کو سمندروں کی طرف دھکیل دیا اور آدم علیہ السلام ان کے خلیفہ ہوئے اور بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلافت یا نیابت کے لیے موت یا عدم موجوگی ضروری نہیں، بلکہ کوئی بااختیار ہستی اپنی موجوگی میں بھی کسی کو کچھ اختیارات تفویض کر کے اسے اپنا خلیفہ یا نائب بنا سکتی ہے کہ وہ اس کی منشا کے مطابق ان اختیارات کو استعمال کرے۔ ہمارے خیال میں دوسری رائے راجح ہے کیونکہ اس کی تائید ایک آیت سے بھی ہو جاتی ہے اور دنیا میں موجود سفارتی نظام سے بھی محولہ آیت کا ترجمہ یوں ہے: ہم نے امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی اور انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس بار عظیم کے اٹھانے سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا کیونکہ انسان تو انہی جیسا ظالم واقع ہو ا ہے۔ [الاحزاب: 72] اور تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض و احکام کی تعمیل اور ان کے نفاذ کا بار ہے اور اس کا دوسرا نظام، نظام خلافت ہے۔ [تيسير القرآن: 1/ 389]

↰ مفسرین کی اس توضیح سے معلوم ہو ا کہ انسان کے خلیفہ ہونے کا یا تو یہ مفہوم ہے کہ یہ زمین پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل، اطاعت و فرماں برداری اور شرعی قواعد و ضوابط کا نفاذ کرتا ہے یا پھر یہ ایک دوسرے کے بعد اس زمین پر وارد ہوتے ہیں اور صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور تا قیام قیامت جاری رہے گا۔ جیسا کہ امام ابن کثیر کے حوالے سے اور کئی ایک آیات قرآنیہ کے حوالے سے اوپر گزر چکا ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص انسان کو اللہ کا نائب یا خلیفہ اس معنوں میں لے کہ اللہ تعالیٰ کے کام انسان کرتا ہے اور اس کے افعال میں نائب ہے تو یہ معنی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ صحیح فہم نصیب فرمائے اور سلف صالحین کے منہج پر قائم و دائم رکھے۔ «آمين!»
   احکام و مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 13   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4007  
´امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو جو باتیں کہیں، ان میں یہ بات بھی تھی: آگاہ رہو! کسی شخص کو لوگوں کا خوف حق بات کہنے سے نہ روکے، جب وہ حق کو جانتا ہو، یہ حدیث بیان کر کے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا: اللہ کی قسم! ہم نے بہت سی باتیں (خلاف شرع) دیکھیں، لیکن ہم ڈر اور ہیبت کا شکار ہو گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4007]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
جب معلوم ہو کہ فلاں کام ناجائز ہورہا ہے اور شریعت کا حکم یہ ہے تو حق بیان کرنا چاہیے شاید غلط کام کرنے والوں کو ہدایت نصیب ہوجائے یا کم از کم دوسرے لوگوں کو شرعی حکم معلوم ہوجائے اور وہ باطل کو حق نہ سمجھ لیں۔

(2)
جب جان چلے جانے کا یا سخت نقصان کا اندیشہ ہو تو خاموش رہنا جائز ہوتا ہے۔
تاہم ایسے موقع پر بھی افضل یہی ہے کہ عزیمت کا راستہ اختیار کرکے حق بیان کیا جائے اور اس راہ میں آنے والی مشکلات اور تکلیفوں کو برداشت کیا جائے۔
جیسے امام مالک، امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرہ نے کیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4007   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2191  
´قیامت تک واقع ہونے والی چیزوں کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیش گوئی۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کچھ پہلے پڑھائی پھر خطبہ دینے کھڑے ہوئے، اور آپ نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کے بارے میں ہمیں خبر دی، یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھا اور بھولنے والے بھول گئے، آپ نے جو باتیں بیان فرمائیں اس میں سے ایک بات یہ بھی تھی: دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا ۱؎، پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کرتے ہو؟ خبردار! دنیا سے اور عورتوں سے بچ کے رہو ۲؎، آپ نے یہ بھی فرمایا: خبردار! حق جان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2191]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی تم کو پچھلی قوموں کا وارث ونائب بنائے گا،
یہ نہیں کہ انسان اللہ کا خلفیہ ونائب ہے یہ غلط بات ہے،
بلکہ اللہ خود انسان کا خلیفہ ہے جیساکہ خضرکی دعامیں ہے (والخلیفةبعد)
2؎:
یعنی تمہارے دین کے کاموں کے لیے دنیا جس قدر مفید اور معاون ہو اسی قدر اس کی چاہت کرو،
اور عورتوں کی مکاری اور ان کی چالبازی سے ہوشیار رہو۔

3؎:
اس حدیث سے بہت سارے فوائد حاصل ہوئے:

(1)
کھڑے ہوکر وعظ و نصیحت کرنا مسنون ہے۔

(2)
انسان بھول چوک کا شکار ہوتاہے،
یہاں تک کہ صحابہ کرام بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔

(3)
اظہار حق کے لیے لوگوں کا ڈر و خوف مانع نہ ہو۔

(4) دنیا اورعورتوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

(5) عہد توڑنا قیامت کے دن رسوائی کا باعث ہوگی۔

(6) انسان پیدائش سے لے کر مرنے تک ایمان و کفر کی آزمائش سے گزر تاہے۔

(7) غصہ کے مختلف مراحل ہیں۔

(8) قرض کا لین دین،
کس انداز سے ہو۔

(9) غصہ کی حالت میں انسان کیا کرے؟
(10) دنیا سے اس کا کس قدر حصہ باقی رہ گیا ہے۔

(سند میں (علی بن زید بن جدعان) ضعیف ہیں،
اس لیے یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے،
لیکن اس حدیث کے کئی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں،
دیکھیے: (الصحیحة: 486،
و 911)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2191   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.