الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
Chapters On Al-Fitan
64. باب مِنْهُ
64. باب: یہ پیشین گوئی کہ سو سال کے بعد آج کا کوئی آدمی زندہ نہ بچے گا۔
حدیث نمبر: 2251
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم بن عبد الله، وابي بكر بن سليمان وهو ابن ابي حثمة، ان عبد الله بن عمر، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة صلاة العشاء في آخر حياته، فلما سلم قام، فقال: " ارايتكم ليلتكم هذه على راس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الارض احد "، قال ابن عمر: فوهل الناس في مقالة رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك فيما يتحدثونه من هذه الاحاديث عن مائة سنة، وإنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الارض احد " يريد بذلك ان ينخرم ذلك القرن، قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وأبي بَكْرِ بنِ سُلَيمْانَ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ، فَقَالَ: " أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ "، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَوَهَلَ النَّاسُ فِي مَقَالَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ فِيمَا يَتَحَدَّثُونَهُ مِنْ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ عَنْ مِائَةِ سَنَةٍ، وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ " يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ يَنْخَرِمَ ذَلِكَ الْقَرْنُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں ایک رات ہمیں عشاء پڑھائی، جب آپ سلام پھیر چکے تو کھڑے ہوئے اور فرمایا: کیا تم نے اپنی اس رات کو دیکھا اس وقت جتنے بھی آدمی اس روئے زمین پر ہیں سو سال گزر جانے کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: یہ سن کر لوگ مغالطے میں پڑ گئے کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث بیان کرتے ہیں کہ سو سال کے بعد قیامت آ جائے گی، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ جو آج باقی ہیں ان میں سے کوئی روئے زمین پر باقی نہیں رہے گا، یعنی اس نسل اور قرن کے لوگ ختم ہو جائیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 41 (116)، والمواقیت الصلاة 20 (601)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 53 (2537)، سنن ابی داود/ الملاحم 18 (4348) (تحفة الأشراف: 6934) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري601عبد الله بن عمرأرأيتكم ليلتكم هذه فإن رأس مائة لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الأرض أحد
   صحيح البخاري564عبد الله بن عمرأرأيتم ليلتكم هذه فإن رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد
   صحيح مسلم6479عبد الله بن عمرأرأيتكم ليلتكم هذه فإن على رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد
   جامع الترمذي2251عبد الله بن عمرأرأيتكم ليلتكم هذه على رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد
   سنن أبي داود4348عبد الله بن عمرأرأيتكم ليلتكم هذه فإن على رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4348  
´قیامت آنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں ایک رات ہمیں عشاء پڑھائی، پھر جب سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا: تمہیں پتا ہے، آج کی رات کے سو سال بعد اس وقت جتنے آدمی اس روئے زمین پر ہیں ان میں سے کوئی بھی (زندہ) باقی نہیں رہے گا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سو سال کے بعد کے متعلق احادیث بیان کرنے میں غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ سو برس بعد قیامت آ جائے گی، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ آج روئے زمین پر جتنے لوگ زندہ ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4348]
فوائد ومسائل:

فی الواقع اصحابِ نبی میں سے کو ئی شخص ایک صدی سے آگے نہیں بڑھا سبھی وفات پا گئے تھے۔
۔
۔
۔
تو اس کے بعد صحابیت کا دعوٰی کرنے والے کا دعوٰی غلط محض ہوا، جیسے کہ رتن ہندی کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ اس نے پانچ سو سال بعد صحابی ہونے کا دعوٰٰ ی کیا تھا۔


اس حدیث کی روشنی میں جنابِ خضر کے متعلق بھی استدلال لیا جاتا ہے کہ وہ بھی وفات پا گئے ہیں، مگر ان کے بالمقابل دوسرے کہتے ہیں کہ وہ اس مو قعے پر زمین پر موجود ہی نہ تھے اس لیئے کہ حیاتِ خضر پر کو ئی مستند دلیل نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4348   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.