الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
95. باب فِي الْجُنُبِ يُصَلِّي بِالْقَوْمِ وَهُوَ نَاسٍ
95. باب: جنبی بھول کر نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو جائے تو کیا کرے؟
Chapter: The Sexually Impure Person Leading The Prayer In A State Of Forgetfulness.
حدیث نمبر: 234
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا حماد بن سلمة، بإسناده ومعناه، وقال في اوله: فكبر، وقال في آخره: فلما قضى الصلاة، قال: إنما انا بشر، وإني كنت جنبا، قال ابو داود: رواه الزهري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، قال: فلما قام في مصلاه وانتظرنا ان يكبر، انصرف، ثم قال: كما انتم، قال ابو داود: ورواه ايوب، وابن عون، وهشام، عن محمد مرسلا، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فكبر، ثم اوما بيده إلى القوم ان اجلسوا، فذهب فاغتسل، وكذلك رواه مالك، عن إسماعيل بن ابي حكيم، عن عطاء بن يسار، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كبر في صلاة، قال ابو داود: وكذلك حدثناه مسلم بن إبراهيم، حدثنا ابان، عن يحيى، عن الربيع بن محمد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه كبر.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، وَقَالَ فِي أَوَّلِهِ: فَكَبَّرَ، وَقَالَ فِي آخِرِهِ: فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنِّي كُنْتُ جُنُبًا، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: فَلَمَّا قَامَ فِي مُصَلَّاهُ وَانْتَظَرْنَا أَنْ يُكَبِّرَ، انْصَرَفَ، ثُمَّ قَالَ: كَمَا أَنْتُمْ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ أَيُّوبُ، وَابْنُ عَوْنٍ، وَهِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ مُرْسَلًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكَبَّرَ، ثُمَّ أَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْقَوْمِ أَنِ اجْلِسُوا، فَذَهَبَ فَاغْتَسَلَ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مَالِكٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ فِي صَلَاةٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ حَدَّثَنَاه مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَبَّرَ.
اس طریق سے بھی حماد بن سلمہ نے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس کے شروع میں ہے: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کہی، اور آخر میں یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا: میں بھی انسان ہی ہوں، میں جنبی تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے زہری نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس میں ہے: جب آپ مصلیٰ پر کھڑے ہو گئے اور ہم آپ کی تکبیر (تحریمہ) کا انتظار کرنے لگے، تو آپ (وہاں سے) یہ فرماتے ہوئے پلٹے کہ تم جیسے ہو اسی حالت میں رہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ایوب بن عون اور ہشام نے اسے محمد سے، محمد بن سیرین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے، اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہی، پھر اپنے ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ کیا کہ تم لوگ بیٹھ جاؤ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے اور غسل فرمایا۔ اور اسی طرح اسے مالک نے اسماعیل بن ابوحکیم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے (مرسلاً) روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح اسے ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ: ہم سے ابان نے بیان کیا ہے، ابان یحییٰ سے، اور یحییٰ ربیع بن محمد سے اور ربیع بن محمد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (مرسلاً) روایت کرتے ہیں کہ آپ نے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 18634،11665) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
یہ حدیث پچھلی حدیث ۲۳۲ کا تسلسل ہے یعنی وہ بھی ساتھ پڑھیں۔ جسے مسجد میں جنابت لاحق ہو جائے اس کے لیے ضروری نہیں کہ تیمم کر کے باہر نکلے جیسے کہ بعض کا خیال ہے۔ اقامت اور تکبیر میں کسی معقول سبب سے فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت نہیں۔ مقتدیوں کو چاہیے کہ اپنے مقرر امام کا انتظار کریں، اگر کھڑے بھی رہیں تو جائز ہے۔

This tradition has been reported by Hammad bin Salamah through the same chain of narrators and conveying a similar meaning. This version adds in the beginning: He uttered TAKBIR (Allahu akbar), and in the end: when he finished the prayer, he said: I am a human being; I was sexually defiled. Abu Dawud said: This tradition has been narrated al-Zuhri from Abu Salamah bin Abdur-Rahman on the authority of Abu Hurairah. It says: When he stood at the place of prayer, we waited for his utterance of takbir (Allah-u akbar). He went away and said: (remain) as you were. Another version on the authority of Muhammad reporting from the Prophet ﷺ says: He uttered takbir (Allah-u-Akbar) and then made a sign to the people, meaning "sit down". He then went away and took a bath. This tradition has also been narrated through a different chain. It says: The Messenger of Allah ﷺ uttered takbir (Allah-u-akbar) in a prayer. Abu Dawud said: Another version through a different chain says; The Prophet ﷺ uttered takbir (Allah-u akbar).
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 234


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
وانظر الحديث السابق (233)


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 234  
´ جنبی بھول کر نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو جائے تو کیا کرے؟`
«. . . أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، وَقَالَ فِي أَوَّلِهِ: فَكَبَّرَ، وَقَالَ فِي آخِرِهِ: فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنِّي كُنْتُ جُنُبًا . . .»
. . . اس طریق سے بھی حماد بن سلمہ نے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس کے شروع میں ہے: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کہی، اور آخر میں یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا: میں بھی انسان ہی ہوں، میں جنبی تھا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي الْجُنُبِ يُصَلِّي بِالْقَوْمِ وَهُوَ نَاسٍ: 234]
فوائد و مسائل:
➊ یہ واقعہ دو طرح سے روایت ہوا ہے۔ پہلا حدیث ابوبکرہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں داخل ہوئے اور تکبیر کہی، جیسے کہ امام ابوداود رحمہ اللہ نے چند شواہد پیش کیے ہیں۔ دوسرا روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ آپ نے تکبیر کہنے سے پہلے ہی اشارہ فرمایا: ان دونوں میں تطبیق ممکن ہے کہ «دخل فى صلاة» یا «كبر فى صلاة» کا معنی ارادہ فعل ہے یعنی «اراد ان يدخل فى صلاة» یا «اراد ان يكبر فى صلاة» مراد ہے۔ قاضی عیاض اور قرطبی نے ان روایات کے پیش نظر دو واقعات کا احتمال پیش کیا ہے جب کہ بخاری و مسلم میں حدیث ابوہریرہ منقول ہے۔ [صحيح بخاري حديث: 275۔ صحيح مسلم حديث: 605]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 234   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.