الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
35. باب كَرَاهَةِ الْمَسْأَلَةِ لِلنَّاسِ:
35. باب: لوگوں سے سوال کرنے کی کراہت۔
حدیث نمبر: 2403
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، وسلمة بن شبيب ، قال سلمة: حدثنا، وقال الدارمي: اخبرنا مروان وهو ابن محمد الدمشقي ، حدثنا سعيد وهو ابن عبد العزيز ، عن ربيعة بن يزيد ، عن ابي إدريس الخولاني ، عن ابي مسلم الخولاني ، قال: حدثني الحبيب الامين، اما هو فحبيب إلي، واما هو عندي فامين عوف بن مالك الاشجعي ، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم تسعة او ثمانية او سبعة، فقال: " الا تبايعون رسول الله؟ "، وكنا حديث عهد ببيعة، فقلنا: قد بايعناك يا رسول الله، ثم قال: " الا تبايعون رسول الله؟ "، فقلنا: قد بايعناك يا رسول الله، ثم قال: " الا تبايعون رسول الله؟ "، قال: فبسطنا ايدينا، وقلنا: قد بايعناك يا رسول الله فعلام نبايعك؟ قال: " على ان تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا، والصلوات الخمس وتطيعوا، واسر كلمة خفية، ولا تسالوا الناس شيئا، فلقد رايت بعض اولئك النفر، يسقط سوط احدهم، فما يسال احدا يناوله إياه ".حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، قَالَ سَلَمَةُ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ الدَّارِمِيُّ: أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَبِيبُ الْأَمِينُ، أَمَّا هُوَ فَحَبِيبٌ إِلَيَّ، وَأَمَّا هُوَ عِنْدِي فَأَمِينٌ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَةً أَوْ ثَمَانِيَةً أَوْ سَبْعَةً، فَقَالَ: " أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ "، وَكُنَّا حَدِيثَ عَهْدٍ بِبَيْعَةٍ، فَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ "، فَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ "، قَالَ: فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا، وَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَعَلَامَ نُبَايِعُكَ؟ قَالَ: " عَلَى أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ وَتُطِيعُوا، وَأَسَرَّ كَلِمَةً خَفِيَّةً، وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا، فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَ أُولَئِكَ النَّفَرِ، يَسْقُطُ سَوْطُ أَحَدِهِمْ، فَمَا يَسْأَلُ أَحَدًا يُنَاوِلُهُ إِيَّاهُ ".
ابو مسلم خولانی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھ سے ایک پیارے امانت دار (شخص) نے حدیث بیان کی وہ ایساہے کہ مجھے پیارا بھی ہے اور وہ ایسا ہے کہ میرے نزدیک امانت دار بھی ہے۔یعنی حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ۔۔۔انھوں نے کہا: ہم نو، آٹھ یا سات آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (حاضر) تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کروگے؟"اور ہم نے ابھی نئی نئی بیعت کی تھی۔تو ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ سے بیعت کرچکے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟" ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ سے بیعت کرچکے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: " تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟" تو ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دیئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم (ایک بار) آپ سے بیعت کرچکے ہیں، اب کس بات پر آپ سے بیعت کریں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس بات پر کہ تم اللہ کی عبادت کروگےاور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے اور پانچ نمازوں پر، اور اس بات پر کہ اطاعت کرو گے۔اور ایک جملہ آہستہ سے فرمایا۔اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو گے۔"اس کے بعد میں نے ان میں سے بعض افراد کو دیکھا کہ ان میں سے کسی کا کوڑا کرجاتا تو کسی سے نہ کہتا کہ اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دے دے۔
ابو مسلم خالانی کہتے ہیں مجھے محبوب قابل اعتماد جو مجھے محبوب بھی ہے اور میرے نزدیک امانتدار بھی ہے عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نو آٹھ یا ساتھ آدمی تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟ اور ہم نے نئی نئی بیعت کی تھی۔ تو ہم نے عرض کیاصلی اللہ علیہ وسلم اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر چکے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟ تو ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دئیے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم بیعت کر چکے ہیں اب کس بات کے لیے بیعت کریں؟ آپ نے فرمایا: اس بات پر کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے اور پانچ نمازوں کا اہتمام کرو گے اور فرمانبرداری اختیار کرو گے اور ایک بات آہستہ سے فرمائی اور لوگوں سے کوئی چیز بھی نہیں مانگو گے تو میں نے ان میں سے بعض ساتھیوں کو دیکھا ان میں سے کسی کا کوڑا گر جاتا تو کسی سے اس کے اٹھا دینے (پکڑا دینے) کے لیے نہ کہتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1043

   سنن النسائى الصغرى461عوف بن مالكتعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا الصلوات الخمس لا تسألوا الناس شيئا
   صحيح مسلم2403عوف بن مالكتعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا الصلوات الخمس تسمعوا وتطيعوا لا تسألوا الناس شيئا
   سنن أبي داود1642عوف بن مالكتعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا تصلوا الصلوات الخمس تسمعوا وتطيعوا لا تسألوا الناس شيئا
   سنن ابن ماجه2867عوف بن مالكتعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا تقيموا الصلوات الخمس تسمعوا وتطيعوا لا تسألوا الناس شيئا
   سلسله احاديث صحيحه472عوف بن مالكالا تبايعون رسول الله؟! - فرددها ثلاث مرات-: على ان تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا، والصلوات الخمس- واسر كلمة خفية-[و] ان لا تسالوا الناس شيئا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 461  
´پانچوں نمازوں پر بیعت کرنے کا بیان۔`
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟ آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا، تو ہم سب نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور آپ سے بیعت کی، پھر ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ سے بیعت تو کر لی، لیکن یہ بیعت کس چیز پر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بیعت اس بات پر ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں نمازیں ادا کرو گے، اور آپ نے ایک اور بات آہستہ سے کہی کہ لوگوں سے کچھ مانگو گے نہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 461]
461 ۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس میں چار قسم کی بیعت رائج تھی: ٭بیعت اسلام، یعنی اسلام لاتے وقت۔ ٭ہجرت کرنے کے لیے بیعت۔ ٭بیعت جہاد، یعنی کسی لڑائی کے وقت، مثلاً: صلح حدیبیہ کے وقت۔ ٭بیعت اطاعت، یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کی پابندی کے لیے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہے۔ پھر بیعت اسلام کی بجائے بیعت خلافت شروع ہو گئی۔ بیعت جہاد قائم رہی، البتہ بیعت اطاعت ختم ہو گئی، گویا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی۔ صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں ایسا ہی رہا۔ بعد میں صوفیائے کرام نے بیعت لینا شروع کر دی، اپنے سلسلے میں داخل کرنے کے لیے اور اپنی ہر بات کی اطاعت کرانے کے لیے، یہ ایک نئی چیز ہے، اگر یہ بیعت اطاعتِ شریعت ہے تو جواز ہو سکتا ہے مگر صحابہ و تابعین نے ایسے نہیں کیا، لہٰذا مستحسن نہیں۔ اور اگر یہ اپنی اطاعت کی بیعت ہے تو ممنوع ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی مطاع نہیں کہ اس کی اطاعت مطلقاً جائز ہو۔ بیعت سے متعلق دیگر احکام و مسائل بالتفصیل کتاب البیعۃ میں ملاحظہ فرمائیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 461   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2867  
´بیعت کا بیان۔`
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم سات یا آٹھ یا نو آدمی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟ ہم نے بیعت کے لیے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے (بیعت کرنے کے بعد) ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت تو کر چکے لیکن یہ کس بات پر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، پانچ وقت کی نماز کا اہتمام کرو، حکم سنو اور مانو، پھر ایک بات چپکے سے فرمائی: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو، راوی کا بیان ہے کہ (اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2867]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حضرت ابومسلم ؒ کی اپنے استاد کی تعریف کرنے سے سلف صالحین میں استاد کے احترام اور ان کی محبت کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔
طالب علم کا اپنے استاد سے تعلق ایسا ہی ہونا چاہیے۔

(2)
بیعت اسلام یا بیعت خلافت کے علاوہ کسی نیک کام کے التزام یا گناہ سے اجتناب کے لیے بھی کسی نیک عالم کے ہاتھ بیعت کی جا سکتی ہے۔
اس بیعت کی حیثیت محض ایک وعدے کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وعدہ کرنے والے کے لیے نیکی پر قائم رہنے یا گناہ سے بچنے میں آسانی ہوتی ہے۔

(3)
مروجہ خانقاہی نظام میں بہت سی غیر شرعی اشیاء استعمال ہوچکی ہیں۔
اس بیعت سے اس مکمل نظام کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔

(4)
خود دا ری ایک مطلوب اسلامی وصف ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2867   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1642  
´بھیک مانگنے کی کراہت کا بیان۔`
ابومسلم خولانی کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے پیارے اور امانت دار دوست عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سات، آٹھ یا نو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟، جب کہ ہم ابھی بیعت کر چکے تھے، ہم نے کہا: ہم تو آپ سے بیعت کر چکے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جملہ تین بار دہرایا چنانچہ ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دئیے اور آپ سے بیعت کی، ایک شخص بولا: اللہ کے رسول! ہم ابھی بیعت کر چکے ہیں؟ اب کس بات کی آپ سے بیعت کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات کی کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں نمازیں پڑھو گے اور (حکم) سنو گے اور اطاعت کرو گے، ایک بات آپ نے آہستہ سے فرمائی، فرمایا: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو گے، چنانچہ ان لوگوں میں سے بعض کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا کوڑا زمین پر گر جاتا تو وہ کسی سے اتنا بھی سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کر دیدے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ہشام کی حدیث سعید کے علاوہ کسی اور نے بیان نہیں کی۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1642]
1642. اردو حاشیہ:
➊ بھیک مانگنا اور اس کو اپنی عادت بنالینا عزت وقار اخلاق اورشرع ہر اعتبار سے بہت بُری عادت ہے۔عام ضرورت کی اشیاء بھی مانگ کرگزارہ کرنا بہت بُری اخلاقی گراوٹ کی علامت ہے۔
➋ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کاپاس عہد بے مثل اور زریں کلمات سے لکھنے کے قابل ہے۔
➌ بیعت اس عہد معاہدے کوکہتے ہیں۔جودو افراد میں طے پایاجاتا ہے۔ اسلام میں ایک بیعت اسلام ہے۔ دوسری بیعت جہاد اور تیسری بیعت استرشاد وتوبہ ہے۔خیر القرون میں پہلی دو بیعتوں کا ثبوت ملتاہے۔ خلفائے راشدین ااور ان کے بعد ایک زمانے تک صرف یہی بیعتیں جاری رہی ہیں۔تیسری صرف رسول اللہ ﷺ سے ہی خاص سمجھی گئی ہے۔ مگر بعض صالحین اس تیسری بعیت کے قائل وفائل ہیں۔ جس کی شرعی اہمیت محل نظر ہے۔ اور اہل بدعت نے جو اس میں غلو کیا ہے اللہ کی پناہ وہ سراسربدعت ہے۔ خواہ وہ کیسا ہی ظلم کیوں نہ کریں۔الا یہ کہ (کفر بواح) صریح کفر کا ارتکاب کریں۔اس مسئلے کی تفصیل کےلئے حاکم ومحکوم کے حقوق وفرائض اور روابط کا موضوع دیکھا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1642   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2403  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عہد و پیمان باندھتے تھے یا جس چیز کی بیعت کرتے تھے اس کو پورے اہتمام اور انتہائی جانفشانی سے کامل ترین انداز میں پورا کرنے کی کوشش فرماتے تھے اور ان کا یہی جذبہ اطاعت اور نہایت درجہ کی عفت و پرہیزگاری ان کے لیے دنیوی اور اخروی کامیابی و کامرانی کا باعث بنی اور آج کے مسلمانوں کو بھی اللہ اس کی توفیق ارزاں فرمائے۔
(آمین)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2403   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.