الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جہاد کے مسائل
Jihad (Kitab Al-Jihad)
2. باب فِي الْهِجْرَةِ هَلِ انْقَطَعَتْ
2. باب: کیا ہجرت ختم ہو گئی؟
Chapter: Regarding Hijrah: Has It Ended?
حدیث نمبر: 2480
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يوم الفتح فتح مكة لا هجرة ولكن جهاد ونية وإذا استنفرتم فانفروا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَوْمَ الْفَتْحِ فَتْحِ مَكَّةَ لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح (مکہ) کے دن فرمایا: اب (مکہ فتح ہو جانے کے بعد مکہ سے) ہجرت نہیں (کیونکہ مکہ خود دارالاسلام ہو گیا) لیکن جہاد اور (ہجرت کی) نیت باقی ہے، جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (2018)، (تحفة الأشراف: 5748) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ibn Abbas reported that Messenger of Allah ﷺ as saying on the day of the conquest of Makkah: There is no emigration (after the conquest of Makkah, but only Jihad (striving in the path of Allah) and some intention. So when you are summoned to go forth (for Jihad), go forth.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2474


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2018)

   صحيح البخاري2783عبد الله بن عباسلا هجرة بعد الفتح
   صحيح البخاري3189عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا هذا البلد حرمه الله يوم خلق السموات والأرض فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة لم يحل القتال فيه لأحد قبلي لم يحل لي إلا ساعة من نهار هو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة
   صحيح البخاري2825عبد الله بن عباسلا هجرة بعد الفتح لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   صحيح البخاري3077عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح البخاري1834عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح مسلم4829عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح مسلم3302عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   جامع الترمذي1590عبد الله بن عباسلا هجرة بعد الفتح لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   سنن أبي داود2480عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   سنن النسائى الصغرى4175عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   سنن ابن ماجه2773عبد الله بن عباسإذا استنفرتم فانفروا
   بلوغ المرام1085عبد الله بن عباس لا هجرة بعد الفتح ولكن جهاد ونية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3189  
´دغا بازی کرنے والے پر گناہ خواہ وہ کسی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا بےعمل کے ساتھ`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، وَقَالَ: يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهُ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، قَالَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا، اب (مکہ سے) ہجرت فرض نہیں رہی۔ البتہ جہاد کی نیت اور جہاد کا حکم باقی ہے۔ اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے نکالا جائے تو فوراً نکل جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن یہ بھی فرمایا تھا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اسی دن اس شہر (مکہ) کو حرم قرار دے دیا۔ پس یہ شہر اللہ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہی رہے گا، اور مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے لڑنا جائز نہیں ہوا۔ اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لیے جائز کیا گیا۔ پس اب یہ مبارک شہر اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس کی حدود میں نہ (کسی درخت کا) کانٹا توڑا جائے، نہ یہاں کے شکار کو ستایا جائے، اور کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے سوا اس شخص کے جو (مالک تک چیز کو پہنچانے کے لیے) اعلان کرے اور نہ یہاں کی ہری گھاس کاٹی جائے۔ اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ! اذخر کی اجازت دے دیجئیے۔ کیونکہ یہ یہاں کے سناروں اور گھروں کی چھتوں پر ڈالنے کے کام آتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اذخر کی اجازت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ: 3189]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3189 باب: «بَابُ إِثْمِ الْغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح فرمایا کہ دغا بازی (دھوکہ دہی) کرنا سخت گناہ ہے چاہے کوئی دغا بازی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا گنہگار کے، مگر دغا باز ہر حال میں دغا بازی کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ ترجمۃ الباب کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل فرمائی ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مکہ ایک حرمت والا شہر ہے اور وہاں کسی قسم کی لڑائی کرنا اللہ کے نزدیک حرام ہے، لیکن جب سیاق کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو مکہ والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عہد کیا تھا اسے توڑ ڈالا، لہذا مکہ والوں نے دغا کیا، بنو خزاعہ کے مقابلے میں انہوں نے بنو بکر والوں کی مدد کی تو اللہ تعالی نے اس جرم کی پاداش میں انہیں سخت ترین سزا دی کہ حرمت والے شہر مکہ میں بھی انہیں مار ڈالنے کی اجازت عطا کی، لہذا یہاں سے ان کا دغا باز ہونا ثابت ہوا اور انہیں سخت ترین سزا دی گئی کہ حرمت والے شہر میں لڑنے کی اجازت ایمان والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا کی گئی کیوں کہ وہ دغا باز تھے اور دغا بازی کبیرہ گناہ ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے، اسی مناسبت کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:
«و يحتمل أن يكون أشار بذالك إلى ما وقع من سبب الفتح الذى ذكر فى الحديث و هو غدر قريش بخزاعة حلفاء النبى صلى الله عليه وسلم لما تحاربوا مع بني بكر حلفاء قريش، فأمرت قريش بني بكر و أعانوهم على خزاعة و بيوتهم فقتلوا منهم جماعة.» [فتح الباري، ج 6، ص: 350]
ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجه مطابقة الترجمة لحديث مكة، أن النبى صلى الله عليه وسلم نص على أنها اختصت بالحرمة إلا فى الساعة المستثناه و ليس المراد حرمة قتل المؤمن البر فيها.» [المتواري، ص: 200]
ترجمۃ الباب سے مطابقت کی وجہ حدیث مکہ میں یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص فرمایا: مکہ کی حرمت کو سوائے اس استثنائی گھٹری میں (مکہ میں لڑنا جائز نہیں ہوا جس کا ذکر سابقہ اوراق میں کیا گیا) اور اس کی حرمت سے مراد یہ نہیں کہ مؤمن نیک آدمی کو اس میں قتل کیا جائے۔
فائدہ:
بعض منکرین حدیث مذکورہ بالا حدیث پر اشکال وارد کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: «لا هجرة و لكن جهاد و نية» یعنی ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن مجید قیامت تک ہجرت کو برقرار رکھتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
« ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ﴾ » [الانفال: 75]
اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہیں۔
مندرجہ بالا آیت کو نقل کرنے کے بعد ان کا دعوی یہ ہے کہ حدیث جس میں ہجرت کے عمل کو ختم کر دیا گیا ہے وہ آیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہو گی۔
دراصل یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو کہ سرسری طور پر قرآن اور احادیث کا مطالعہ کے بعد پیدا ہوتی ہے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہرگز یہ حکم نہیں ہے کہ ہجرت کا حکم منسوخ ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر غور کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے، یعنی ان صحابہ کے لئے فتح مکہ کے بعد ہجرت کی فرضیت کو ساقط کیا تھا نہ کہ ہجرت کے حکم کو ساقط فرمایا گیا۔ اصول حدیث کا معروف قاعدہ ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی شرح کرتی ہے، بعض روایات کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اسی مسئلے پر اختلاف پیدا ہوا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی، خبادہ بن ابی امیہ فرماتے ہیں:
«أن رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بعضهم أن الهجرة قد انقطعت فاختلفوا فى ذالك، قال: فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم! أن أناسا يقولون، أن الهجرة قد انقطعت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الهجرة لا تنقطع ما كان الجهاد.» [مسند احمد، ج 27، ص: 142، صححه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى الإصابة]
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بعضوں نے یہ کہا کہ ہجرت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اس مسئلے میں (صحابہ میں) اختلاف ہوا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگ کہتے ہیں کہ ہجرت (کا حکم) منقطع ہو گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقینا ہجرت (کا حکم) منقطع نہ ہو گا جب تک جہاد جاری رہے گا۔
امام الطحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار میں حدیث کا ذکر فرمایا کہ:
«لا تنقطع الهجرة ما قوتل الكفار.» [شرح مشكل الآثار للطحاوي، ج 7، رقم: 2631]
جب تک کفار سے قتال ہو گا تب تک ہجرت رہے گی۔
ان احادیث سے واضح ہوا کہ جب تک جہاد قائم رہے گا تب تک ہجرت کا حکم بھی باقی رہے گا، لہذا ہجرت نہیں ہے فتح مکہ کے بعد اس کا مطلب یہ ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتح مکہ کے روز ہجرت کی ان کے لئے ہجرت کی فرضیت ساقط ہو گئی، نہ کہ قیامت تک ہجرت کا حکم منقطع ہوا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 469   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2773  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً نکل کھڑے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2773]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب کافروں سے جہاد کا موقع آئےتو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاد میں عملی طور پر شریک ہونا چاہیے۔

(2)
ایک باقاعدہ اسلامی حکومت میں امیر کے حکم سے جہاد کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر ایسی صورت حال نہ ہو اور کسی علاقے کے مسلمان کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہوں تو مسلمانوں کو خود منظم طور پر جہاد کرنا چاہیے۔
اس صورت میں امیر جہاد جس محاذ پر بھیجے جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2773   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1590  
´ہجرت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے، اور جب تم کو جہاد کے لیے طلب کیا جائے تو نکل پڑو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1590]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ سے خاص طور پر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہے کیوں کہ مکہ اب دار السلام بن گیا ہے،
البتہ دار الکفر سے دار السلام کی طرف ہجرت تا قیامت باقی رہے گی جیسا کہ بعض احادیث سے ثابت ہے اور مکہ سے ہجرت کے انقطاع کے سبب جس خیر و بھلائی سے لوگ محروم ہو گئے اس کا حصول جہاد اور صالح نیت کے ذریعہ ممکن ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1590   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2480  
´کیا ہجرت ختم ہو گئی؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح (مکہ) کے دن فرمایا: اب (مکہ فتح ہو جانے کے بعد مکہ سے) ہجرت نہیں (کیونکہ مکہ خود دارالاسلام ہو گیا) لیکن جہاد اور (ہجرت کی) نیت باقی ہے، جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2480]
فوائد ومسائل:
چونکہ فتح مکہ سے پہلے جہاں آدمی رہ رہا تھا۔
اسلام لانے کے بعد اسے وہاں سے مدینہ کو ہجرت کرنا واجب تھا۔
اور مکہ ان تمام جگہوں کا مرکز تھا۔
فتح مکہ کے بعد وہ دارالاسلام بن گیا۔
تو اس سے ہجرت کا کوئی معنی باقی نہ رہا۔
مگر باقی دنیا میں جہاں کہیں احوال دگرگوں ہو ں تو اپنے اسلام اور ایمان کی حفاظت کےلئے نقل مکانی مطلوب وماجور ہے۔
اور ایسے ہی جہاد بھی قیامت تک جاری ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2480   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.