الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
Chapters on the description of the Day of Judgement, Ar-Riqaq, and Al-Wara'
حدیث نمبر: 2512
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا ابن المبارك، عن المثنى بن الصباح، عن عمرو بن شعيب، عن جده عبد الله بن عمرو، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " خصلتان من كانتا فيه كتبه الله شاكرا صابرا، ومن لم تكونا فيه لم يكتبه الله شاكرا ولا صابرا، من نظر في دينه إلى من هو فوقه فاقتدى به، ومن نظر في دنياه إلى من هو دونه فحمد الله على ما فضله به عليه، كتبه الله شاكرا صابرا، ومن نظر في دينه إلى من هو دونه ونظر في دنياه إلى من هو فوقه فاسف على ما فاته منه لم يكتبه الله شاكرا ولا صابرا "(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " خَصْلَتَانِ مَنْ كَانَتَا فِيهِ كَتَبَهُ اللَّهُ شَاكِرًا صَابِرًا، وَمَنْ لَمْ تَكُونَا فِيهِ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ شَاكِرًا وَلَا صَابِرًا، مَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَاقْتَدَى بِهِ، وَمَنْ نَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا فَضَّلَهُ بِهِ عَلَيْهِ، كَتَبَهُ اللَّهُ شَاكِرًا صَابِرًا، وَمَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ وَنَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَأَسِفَ عَلَى مَا فَاتَهُ مِنْهُ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ شَاكِرًا وَلَا صَابِرًا "
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر وہ موجود ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر و شاکر لکھے گا اور جس کے اندر وہ موجود نہ ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر اور شاکر نہیں لکھے گا، پہلی خصلت یہ ہے کہ جس شخص نے دین کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے کو دیکھا اور اس کی پیروی کی اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے کم حیثیت والے کو دیکھا پھر اس فضل و احسان کا شکر ادا کیا جو اللہ نے اس پر کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر لکھے گا۔ اور دوسری خصلت یہ ہے کہ جس نے دین کے اعتبار سے اپنے سے کم اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ پر نظر کی پھر جس سے وہ محروم رہ گیا ہے اس پر اس نے افسوس کیا، تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر نہیں لکھے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8778) (ضعیف) (سند میں مثنی بن صباح ضعیف راوی ہیں، ان کی تضعیف خود امام ترمذی نے کی ہے، اور عمرو بن شعیب بن محمد اور ان کے پردادا عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کے درمیان انقطاع ہے، لیکن اگلی سند میں عن أبیہ کا ذکر ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفة 633، 1924)»

وضاحت:
۱؎: گویا دینی معاملہ میں ہمیشہ اپنے سے بہتر اور سب سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے شخص کو دیکھنا چاہیئے، تاکہ اپنے اندر اسی جیسا دینی جذبہ پیدا ہو، اور دنیا کے اعتبار سے ہمیشہ اپنے سے کم تر پر نگاہ رہے تاکہ رب العالمین کی جانب سے ہمیں جو کچھ میسر ہے اس پر ہم اس کا شکر گزار بندہ بن سکیں، اور ہمارے اندر نعمت شناسی کی صفت پیدا ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (633 و 1924) // ضعيف الجامع الصغير (2832) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2512) إسناده ضعيف
المثني: ضعيف (تقدم:641)

   جامع الترمذي2512عبد الله بن عمروخصلتان من كانتا فيه كتبه الله شاكرا صابرا ومن لم تكونا فيه لم يكتبه الله شاكرا ولا صابرا من نظر في دينه إلى من هو فوقه فاقتدى به من نظر في دنياه إلى من هو دونه فحمد الله على ما فضله به عليه كتبه الله شاكرا صابرا ومن نظر في دينه إلى من هو دونه نظر في دنياه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2512  
´باب:۔۔۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر وہ موجود ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر و شاکر لکھے گا اور جس کے اندر وہ موجود نہ ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر اور شاکر نہیں لکھے گا، پہلی خصلت یہ ہے کہ جس شخص نے دین کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے کو دیکھا اور اس کی پیروی کی اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے کم حیثیت والے کو دیکھا پھر اس فضل و احسان کا شکر ادا کیا جو اللہ نے اس پر کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر لکھے گا۔ اور دوسری خصلت یہ ہے کہ جس نے دین کے اعتبار سے اپنے سے ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2512]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
گویا دینی معاملہ میں ہمیشہ اپنے سے بہتر اور سب سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے شخص کو دیکھنا چاہیے،
تاکہ اپنے اندر اسی جیسا دینی جذبہ پیدا ہو،
اور دنیا کے اعتبار سے ہمیشہ اپنے سے کم تر پر نگاہ رہے تاکہ رب العالمین کی جانب سے ہمیں جو کچھ میسر ہے اس پر ہم اس کا شکر گزار بندہ بن سکیں،
اور ہمارے اندر نعمت شناسی کی صفت پیدا ہو۔

نوٹ1: (سند میں مثنی بن صباح ضعیف راوی ہیں،
ان کی تضعیف خود امام ترمذی نے کی ہے،
اور عمرو بن شعیب بن محمد اور ان کے پردادا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے درمیان انقطاع ہے،
لیکن اگلی سند میں عن أبیہ کا ذکر ہے،
نیز ملاحظہ ہو:
الضعیفة: 633، 1924)

نوٹ2: (تحفة الأشراف میں ترمذی کا قول حسن غریب موجود نہیں ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2512   
حدیث نمبر: 2512M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا موسى بن حزام الرجل الصالح، حدثنا علي بن إسحاق، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا المثنى بن الصباح، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، قال: هذا حديث حسن غريب، ولم يذكر سويد بن نصر في حديثه , عن ابيه.(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ حِزَامٍ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاق، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَمْ يَذْكُرْ سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ فِي حَدِيثِهِ , عَنْ أَبِيهِ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- سوید بن نصر نے اپنی سند میں «عن أبيه» کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف) (تحفة الأشراف میں ترمذی کا قول ”حسن غریب“ موجود نہیں ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (633 و 1924) // ضعيف الجامع الصغير (2832) //


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.