الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
The Book of Manumission (of Slaves)
6. بَابُ الْخَطَإِ وَالنِّسْيَانِ فِي الْعَتَاقَةِ وَالطَّلاَقِ وَنَحْوِهِ، وَلاَ عَتَاقَةَ إِلاَّ لِوَجْهِ اللَّهِ:
6. باب: اگر بھول چوک کر کسی کی زبان سے عتاق (آزادی) یا طلاق یا اور کوئی ایسی ہی چیز نکل جائے۔
(6) Chapter. What is said about manumission and divorce by mistake or forgetfulness. Manumission of slave should be for Allah’s sake only.
حدیث نمبر: Q2528
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ونحوه ولا عتاقة إلا لوجه الله، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: لكل امرئ ما نوى ولا نية للناسي والمخطئ.وَنَحْوِهِ وَلَا عَتَاقَةَ إِلَّا لِوَجْهِ اللَّهِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى وَلَا نِيَّةَ لِلنَّاسِي وَالْمُخْطِئِ.
‏‏‏‏ اور آزادی صرف اللہ کی رضا مندی کے لیے کی جاتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملتا ہے اور بھولنے والے اور غلطی سے کوئی کام کر بیٹھنے والے کی کوئی نیت نہیں ہوتی۔

حدیث نمبر: 2528
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا مسعر، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن الله تجاوز لي عن امتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل او تكلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَكَلَّمْ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے زرارہ بن اوفی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ انہیں عمل یا زبان پر نہ لائیں۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Allah has accepted my invocation to forgive what whispers in the hearts of my followers, unless they put it to action or utter it." (See Hadith No. 657 Vol. 8)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 705


   صحيح البخاري6664عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي عما وسوست أو حدثت به أنفسها ما لم تعمل به أو تكلم
   صحيح البخاري5269عبد الرحمن بن صخرتجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمل أو تتكلم
   صحيح البخاري2528عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لي عن أمتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل أو تكلم
   صحيح مسلم332عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي عما حدثت به أنفسها ما لم تعمل أو تكلم به
   صحيح مسلم331عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي ما حدثت به أنفسها ما لم يتكلموا أو يعملوا به
   جامع الترمذي1183عبد الرحمن بن صخرتجاوز الله لأمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تكلم به أو تعمل به
   سنن أبي داود2209عبد الرحمن بن صخرتجاوز لأمتي عما لم تتكلم به أو تعمل به وبما حدثت به أنفسها
   سنن النسائى الصغرى3465عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي عما حدثت به أنفسها ما لم تكلم أو تعمل به
   سنن النسائى الصغرى3463عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز عن أمتي كل شيء حدثت به أنفسها ما لم تكلم به أو تعمل
   سنن النسائى الصغرى3464عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي ما وسوست به وحدثت به أنفسها ما لم تعمل أو تتكلم به
   سنن ابن ماجه2040عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي عما حدثت به أنفسها ما لم تعمل به أو تكلم به
   سنن ابن ماجه2044عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز لأمتي عما توسوس به صدورها ما لم تعمل به أو تتكلم به ما استكرهوا عليه
   مشكوة المصابيح63عبد الرحمن بن صخرإن الله تعالى تجاوز عن امتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل به او تتكلم
   مسند اسحاق بن راهويه20عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمله أو تكلم به
   مسند اسحاق بن راهويه21عبد الرحمن بن صخرالله تجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمله أو تكلم به
   مسند اسحاق بن راهويه22عبد الرحمن بن صخرالله عفا عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمله أو تكلم به
   بلوغ المرام921عبد الرحمن بن صخر إن الله تعالى تجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها ما لم تعمل أو تكلم
   مسندالحميدي1207عبد الرحمن بن صخرإن الله عز وجل تجاوز عن أمتي ما وسوست في صدورها، ما لم تعمل، أو تكلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 63  
´وسوسہ قابل مواخذہ نہیں`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لم تعْمل بِهِ أَو تَتَكَلَّم» . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سینے میں جو وسوسے پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا ہے اس کی پکڑ نہیں کرے گا۔ جب تک کہ ان وسوسوں کے موافق عمل نہ کرے یا زبان سے کلام نہ کرے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 63]

تخریج:
[صحيح بخاري 2528]،
[صحيح مسلم 331، 332]

فقہ الحدیث:
➊ طیبی شارح مشکوٰۃ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وسوسے کی دو قسمیں ہیں:
اول:
جو بغیر اختیار کے خود بخود دل میں پیدا ہو جاتا ہے، جس میں آدمی کا ذاتی ارادہ شامل نہیں ہوتا۔ یہ وسوسہ تمام شریعتوں میں قابل معافی ہے۔
دوم:
اپنے اختیار اور ذاتی ارادے کے ساتھ دل میں برائی کا تصور پیدا کرنا۔ یہ وسوسہ شریعت محمدیہ میں اس وقت تک قابل معافی ہے، جب تک اس وسوسے والا زبانی اظہار یا جسمانی عمل نہ کر دے۔
➋ امت محمدیہ کو سابقہ امتوں پر فضیلت حاصل ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 63   
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 22  
´دلوں میں آنے والے خیالات پر مواخذہ نہیں`
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے، جب تک وہ انہیں عملی جامہ نہ پہنا لیں یا ان کے متعلق بات نہ کر لیں، درگزر فرمایا ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 22]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں جو مختلف خیالات آتے ہیں، ان خیالات پر مواخذہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا جیسا کہ:
ارشاد باری تعالیٰ:
«لاَ يُكَلِّفُ اللهُ نَفسًا» [ البقرة: 286 ]
پھر یہ خیالات اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی اور اگر خیالات گندے کاموں کی طرف دعوت دیں تو ان خیالات کو وساوس کہتے ہیں۔ اور اگر نیکی کی طرف دعوت دیں تو الہامات ہیں۔
لیکن احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب انسان گناہ کا عزم کرتا ہے اور مکمل کوشش کرتا ہے اور اس میں ناکام ہو جائے تو وہ عنداللہ مجرم ہو گا۔ جیسا کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنم میں جائیں گے۔ عرض کیا گیا: یہ تو قاتل ہے (اس لیے مجرم ہے) مقتول (کو سزا ملنے) کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی خواہش رکھتا تھا۔ [صحيح بخاري، رقم: 8083]
بعض اوقات انسان مجبوراً اپنی زبان سے ایسے کلمات کہتا ہے لیکن دل سے انکا اقرار نہیں کرتا تو ایسے انسان پر بھی مواخذہ نہیں ہےجیسا کہ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعدِ اِيمانِه اِلامَن اُكرِهَ وَ قَلبُه’مُطمَىن بِالاِيمَانِ» [النحل: 106]
جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔
اسی طرح بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان کا اظہار زبان سے نہ بھی کیا جائے تو اس کی جزا و سزا ملتی ہے۔ مثلاً:
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے محبت کرنا، اللہ ذوالجلال کے شعار کا احترام کرنا ثواب ہے اور اسی طرح برے کام سے نفرت کرنا بھی ثواب ہے۔ ان کا تعلق دل سے ہی ہے۔ اگر انسان اظہار نہ بھی کرے تو عنداللہ مجور ہو گا۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 22   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2040  
´دل میں طلاق دینے اور زبان سے کچھ نہ کہنے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے معاف کر دیا ہے جو وہ دل میں سوچتے ہیں جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا اسے زبان سے نہ کہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2040]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  انسان کےدل میں مختلف خیالات آتے رہتے ہیں جن میں اچھے خیالات بھی ہوتے ہیں اوربرے بھی۔
یہ جب تک خیالات کی حدتک رہیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہے۔

(2)
  جب خیال عزم کے درجے پر پہنچ جائے تو نیک عزم کا ثواب ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک شخص برے کام کا پروگرام بناتا ہے لیکن کسی وجہ سے وہ پروگرام ناکام ہوجاتا ہے تو اس نے جس حد تک کوشش کی ہے اس کا گناہ ہوگا، مثلاً:
ایک شخص پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن وہ بچ گیا تو حملہ آور کو گناہ بہر حال ہوگا اگرچہ وہ قتل نہیں کرسکا۔
ارشاد نبوی ہے:
جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں)
جہنم میں جائیں گے۔
عرض کیا گیا:
یہ تو قاتل ہے (اس لیے مجرم ہے)
مقتول(کو سزا ملنے)
کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا:
وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی شدید خواہش رکھتا تھا۔ (صحیح البخاري، الفتن، باب إذا التقی المسلمان بسیفیهما، حدیث: 7083)

(3)
  بعض اعمال کا تعلق صرف دل سے ہے، مثلاً محبت، نفرت، خوف وغیرہ، ان میں سے جو چیزدل میں بیٹھ جاتی ہے اور دوسرے اعمال پراثر انداز ہوتی ہے، اس پر ثواب و عذاب ملتا ہے، مثلاً:
اللہ سے محبت، رسول اللہﷺ سے محبت، قرآن کا احترام، یا کسی نیک کام سے نفرت یا کسی نیک آدمی سے بغض وغیرہ۔
ایمان، کفر، اخلاص اور نفاق کا تعلق اسی قسم سے ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2040   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 921  
´طلاق کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل کے وسوسہ (پر گرفت و مؤاخذہ) سے درگزر فرما دیا ہے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک کوئی زبان سے نہ کہے اور عمل نہ کرے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 921»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب الطلاق في الإغلاق...، حديث:5269، ومسلم، الإيمان، باب تجاوز الله عن حديث النفس والخواطر بالقلب إذا لم تستقر، حديث:127.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسے قابل مؤاخذہ نہیں‘ مثلاً: کسی کے دل میں عورت کو طلاق دینے کا خیال آیا یا کسی لڑکی سے نکاح کا ارادہ کیا تو محض خیالات اور ارادے سے یہ باتیں واقع نہیں ہو جاتیں‘ البتہ اگر انسان دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں کا عملاً اظہار کرے یا زبان سے اقرار کرے تو یہ قابلِ مؤاخذہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 921   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1183  
´جو شخص دل میں اپنی بیوی کی طلاق کا خیال لائے تو کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو جو دل میں آتے ہیں معاف فرما دیا ہے جب تک کہ وہ انہیں زبان سے ادا نہ کرے، یا ان پر عمل نہ کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1183]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ دل میں پیداہونے والے خیالات اورگزرنے والے وسوسے مؤاخذہ کے قابل گرفت نہیں،
مثلاً کسی کے دل میں کسی لڑکی سے شادی یا اپنی بیوی کوطلاق دینے کاخیال آئے تومحض دل میں خیال آنے سے یہ باتیں واقع نہیں ہوں گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1183   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2209  
´دل میں طلاق کے خیال آنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان چیزوں کو معاف کر دیا ہے جنہیں وہ زبان پر نہ لائے یا ان پر عمل نہ کرے، اور ان چیزوں کو بھی جو اس کے دل میں گزرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2209]
فوائد ومسائل:
محض خیال کرنے سے یا دل میں پیچ وتاب کھاتے ہوئے طلاق دینا جبکہ زبان سے کچھ نہ بولا ہو طلاق نہیں ہوتی۔
لیکن اپنے ان جذبات وخیالات کو کسی واضح تحریر میں نقل کریا ہو تو طلاق ہوجائے گی کیونکہ ہاتھ کا لکھنا عمل ہے۔
خواہ بیوی کو تحریر دے یا دیے بغیر ہی ضائع کردے تو طلاق ہوجائے گی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2209   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2528  
2528. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: نے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ معاملات معاف کردیے ہیں جو ان کے دلوں میں وسوسے کے طور پرآئیں جب تک وہ (امتی) ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2528]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کا مطلب اس طرح نکالا کہ جب وسوسے اور دل کے خیال پر مؤاخذہ نہ ہوا تو جو چیز خالی زبان سے بھول چوک کر نکل جائیں ان پر بطریق اولیٰ مؤاخذہ نہ ہوگا۔
یا وسوسے اور دل کے خیال پر مؤاخذہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ دل پر آن کر گزر جاتا ہے جمتا نہیں۔
اسی طرح جو کلام زبان سے گزر جائے قصد نہ کیا جائے تو اس کا حکم بھی وسوسے کی طرح ہوگا کیوں کہ دل اور زبان دونوں انسانی اعضاءہیں اور دونوں کا حکم ایک ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2528   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2528  
2528. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: نے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ معاملات معاف کردیے ہیں جو ان کے دلوں میں وسوسے کے طور پرآئیں جب تک وہ (امتی) ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2528]
حدیث حاشیہ:
(1)
انسان کے دل میں جو خیالات آتے ہیں اگر وہ برائی پر آمادہ کریں تو انہیں وسوسہ کہا جاتا ہے اور اگر کار خیر کی دعوت دیں تو یہ الہام ہے۔
اس امت کی خصوصیت ہے کہ ان کے قلوب پر آنے والے خطرات معاف ہیں جب تک وہ دل میں پختہ نہ ہوں، یعنی ان پر عمل نہ کیا جائے یا انہیں زبان پر نہ لایا جائے۔
اگر دل میں قرار پکڑ لیں جیسا کہ حسد وغیرہ میں ہوتا ہے تو اس پر مؤاخذہ ہو گا، اسی وجہ سے هم (ارادہ)
اور عزم میں فرق کیا جاتا ہے کیونکہ هم (ارادہ)
وہ ہے جو دل میں آئے اور گزر جائے اور عزم وہ ہے جو دل میں آئے اور ٹھہر جائے۔
(2)
اس حدیث کا عنوان سے اس طرح تعلق ہے کہ جب وسوسے اور دل کے خیال پر پکڑ نہیں تو جو چیز خالی زبان سے ازراہ بھول چوک نکل جائے تو اس پر بطریق اولیٰ مؤاخذہ نہیں ہو گا یا وسوسے اور دل کے خیال پر مؤاخذہ اس لیے نہیں کہ وہ دل میں آتا ہے اور گزر جاتا ہے اس طرح جو کلام زبان پر آئے اور گزر جائے اس کا کوئی ارادہ یا نیت نہ ہو اس کا حکم بھی وسوسے کی طرح ہو گا کیونکہ دل اور زبان دونوں انسانی اعضاء ہیں اور دونوں کا حکم ایک ہے، اس لیے اگر بھول چوک اور نیت کے بغیر طلاق اور عتاق کا لفظ زبان پر آ جائے تو قانونی طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2528   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.