الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جنت کا وصف اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ
Chapters on the description of Paradise
20. باب مَا جَاءَ فِي خُلُودِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ
20. باب: جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور جہنمی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
حدیث نمبر: 2557
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " يجمع الله الناس يوم القيامة في صعيد واحد ثم يطلع عليهم رب العالمين فيقول: الا يتبع كل إنسان ما كانوا يعبدونه، فيمثل لصاحب الصليب صليبه، ولصاحب التصاوير تصاويره، ولصاحب النار ناره، فيتبعون ما كانوا يعبدون، ويبقى المسلمون فيطلع عليهم رب العالمين فيقول: الا تتبعون الناس؟ فيقولون: نعوذ بالله منك نعوذ بالله منك الله ربنا هذا مكاننا حتى نرى ربنا، وهو يامرهم ويثبتهم، ثم يتوارى، ثم يطلع فيقول: الا تتبعون الناس؟ فيقولون: نعوذ بالله منك نعوذ بالله منك الله ربنا وهذا مكاننا حتى نرى ربنا وهو يامرهم ويثبتهم، قالوا: وهل نراه يا رسول الله؟ قال: وهل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر؟ قالوا: لا يا رسول الله، قال: فإنكم لا تضارون في رؤيته تلك الساعة، ثم يتوارى، ثم يطلع فيعرفهم نفسه ثم يقول: انا ربكم فاتبعوني، فيقوم المسلمون ويوضع الصراط فيمرون عليه مثل جياد الخيل والركاب وقولهم عليه سلم سلم، ويبقى اهل النار فيطرح منهم فيها فوج، ثم يقال: هل امتلات؟ فتقول: هل من مزيد؟ ثم يطرح فيها فوج فيقال: هل امتلات؟ فتقول: هل من مزيد؟ حتى إذا اوعبوا فيها وضع الرحمن قدمه فيها وازوى بعضها إلى بعض، ثم قال: قط، قالت: قط قط، فإذا ادخل الله اهل الجنة الجنة، واهل النار النار، قال: اتي بالموت ملببا فيوقف على السور بين اهل الجنة واهل النار، ثم يقال: يا اهل الجنة، فيطلعون خائفين، ثم يقال: يا اهل النار، فيطلعون مستبشرين يرجون الشفاعة، فيقال لاهل الجنة واهل النار: هل تعرفون هذا؟ فيقولون هؤلاء وهؤلاء: قد عرفناه هو الموت الذي وكل بنا، فيضجع فيذبح ذبحا على السور الذي بين الجنة والنار، ثم يقال: يا اهل الجنة خلود لا موت، ويا اهل النار خلود لا موت " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم روايات كثيرة مثل هذا ما يذكر فيه امر الرؤية ان الناس يرون ربهم، وذكر القدم وما اشبه هذه الاشياء والمذهب في هذا عند اهل العلم من الائمة، مثل سفيان الثوري، ومالك بن انس، وابن المبارك، وابن عيينة، ووكيع، وغيرهم انهم رووا هذه الاشياء، ثم قالوا: تروى هذه الاحاديث ونؤمن بها، ولا يقال: كيف؟ وهذا الذي اختاره اهل الحديث ان تروى هذه الاشياء كما جاءت، ويؤمن بها ولا تفسر ولا تتوهم ولا يقال كيف، وهذا امر اهل العلم الذي اختاروه وذهبوا إليه، ومعنى قوله في الحديث فيعرفهم نفسه يعني يتجلى لهم.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَطَّلِعُ عَلَيْهِمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ فَيَقُولُ: أَلَا يَتْبَعُ كُلُّ إِنْسَانٍ مَا كَانُوا يَعْبُدُونَهُ، فَيُمَثَّلُ لِصَاحِبِ الصَّلِيبِ صَلِيبُهُ، وَلِصَاحِبِ التَّصَاوِيرِ تَصَاوِيرُهُ، وَلِصَاحِبِ النَّارِ نَارُهُ، فَيَتْبَعُونَ مَا كَانُوا يَعْبُدُونَ، وَيَبْقَى الْمُسْلِمُونَ فَيَطَّلِعُ عَلَيْهِمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ فَيَقُولُ: أَلَا تَتَّبِعُونَ النَّاسَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ اللَّهُ رَبُّنَا هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى نَرَى رَبَّنَا، وَهُوَ يَأْمُرُهُمْ وَيُثَبِّتُهُمْ، ثُمَّ يَتَوَارَى، ثُمَّ يَطَّلِعُ فَيَقُولُ: أَلَا تَتَّبِعُونَ النَّاسَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ اللَّهُ رَبُّنَا وَهَذَا مَكَانُنَا حَتَّى نَرَى رَبَّنَا وَهُوَ يَأْمُرُهُمْ وَيُثَبِّتُهُمْ، قَالُوا: وَهَلْ نَرَاهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: وَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّكُمْ لَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ تِلْكَ السَّاعَةَ، ثُمَّ يَتَوَارَى، ثُمَّ يَطَّلِعُ فَيُعَرِّفُهُمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّبِعُونِي، فَيَقُومُ الْمُسْلِمُونَ وَيُوضَعُ الصِّرَاطُ فَيَمُرُّونَ عَلَيْهِ مِثْلَ جِيَادِ الْخَيْلِ وَالرِّكَابِ وَقَوْلُهُمْ عَلَيْهِ سَلِّمْ سَلِّمْ، وَيَبْقَى أَهْلُ النَّارِ فَيُطْرَحُ مِنْهُمْ فِيهَا فَوْجٌ، ثُمَّ يُقَالُ: هَلِ امْتَلَأْتِ؟ فَتَقُولُ: هَلْ مِنْ مَزِيدٍ؟ ثُمَّ يُطْرَحُ فِيهَا فَوْجٌ فَيُقَالُ: هَلِ امْتَلَأْتِ؟ فَتَقُولُ: هَلْ مِنْ مَزِيدٍ؟ حَتَّى إِذَا أُوعِبُوا فِيهَا وَضَعَ الرَّحْمَنُ قَدَمَهُ فِيهَا وَأَزْوَى بَعْضَهَا إِلَى بَعْضٍ، ثُمَّ قَالَ: قَطْ، قَالَتْ: قَطْ قَطْ، فَإِذَا أَدْخَلَ اللَّهُ أَهْلَ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلَ النَّارِ النَّارَ، قَالَ: أُتِيَ بِالْمَوْتِ مُلَبَّبًا فَيُوقَفُ عَلَى السُّورِ بَيْنَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، فَيَطَّلِعُونَ خَائِفِينَ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَهْلَ النَّارِ، فَيَطَّلِعُونَ مُسْتَبْشِرِينَ يَرْجُونَ الشَّفَاعَةَ، فَيُقَالُ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ: قَدْ عَرَفْنَاهُ هُوَ الْمَوْتُ الَّذِي وُكِّلَ بِنَا، فَيُضْجَعُ فَيُذْبَحُ ذَبْحًا عَلَى السُّورِ الَّذِي بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ لَا مَوْتَ، وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ لَا مَوْتَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِوَايَاتٌ كَثِيرَةٌ مِثْلُ هَذَا مَا يُذْكَرُ فِيهِ أَمْرُ الرُّؤْيَةِ أَنَّ النَّاسَ يَرَوْنَ رَبَّهُمْ، وَذِكْرُ الْقَدَمِ وَمَا أَشْبَهَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ وَالْمَذْهَبُ فِي هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ الْأَئِمَّةِ، مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَابْنِ عُيَيْنَةَ، وَوَكِيعٍ، وَغَيْرِهِمْ أَنَّهُمْ رَوَوْا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، ثُمَّ قَالُوا: تُرْوَى هَذِهِ الْأَحَادِيثُ وَنُؤْمِنُ بِهَا، وَلَا يُقَالُ: كَيْفَ؟ وَهَذَا الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْحَدِيثِ أَنْ تُرْوَى هَذِهِ الْأَشْيَاءُ كَمَا جَاءَتْ، وَيُؤْمَنُ بِهَا وَلَا تُفَسَّرُ وَلَا تُتَوَهَّمُ وَلَا يُقَالُ كَيْفَ، وَهَذَا أَمْرُ أَهْلِ الْعِلْمِ الَّذِي اخْتَارُوهُ وَذَهَبُوا إِلَيْهِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ فِي الْحَدِيثِ فَيُعَرِّفُهُمْ نَفْسَهُ يَعْنِي يَتَجَلَّى لَهُمْ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو ایک وسیع اور ہموار زمین میں جمع کرے گا، پھر اللہ رب العالمین ان کے سامنے اچانک آئے گا اور کہے گا: کیوں نہیں ہر آدمی اس چیز کے پیچھے چلا جاتا ہے جس کی وہ عبادت کرتا تھا؟ چنانچہ صلیب پوجنے والوں کے سامنے ان کی صلیب کی صورت بن جائے گی، بت پوجنے والوں کے سامنے بتوں کی صورت بن جائے گی اور آگ پوجنے والوں کے سامنے آگ کی صورت بن جائے گی، پھر وہ لوگ اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے لگ جائیں گے اور مسلمان ٹھہرے رہیں گے، پھر رب العالمین ان کے پاس آئے گا اور کہے گا: تم بھی لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں چلے جاتے؟ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہمارا رب اللہ تعالیٰ ہے، ہم یہیں رہیں گے یہاں تک کہ ہم اپنے رب کو دیکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں حکم دے گا اور ان کو ثابت قدم رکھے گا اور چھپ جائے گا، پھر آئے گا اور کہے گا: تم بھی لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں چلے جاتے؟ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہمارا رب اللہ ہے اور ہماری جگہ یہی ہے یہاں تک کہ ہم اپنے رب کو دیکھ لیں، اللہ تعالیٰ انہیں حکم دے گا اور انہیں ثابت قدم رکھے گا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا: کیا چودہویں رات کے چاند دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت اور دھکم پیل ہوتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کے دیکھنے میں اس وقت کوئی مزاحمت اور دھکم پیل نہیں کرو گے۔ پھر اللہ تعالیٰ چھپ جائے گا پھر جھانکے گا اور ان سے اپنی شناخت کرائے گا، پھر کہے گا: میں تمہارا رب ہوں، میرے پیچھے آؤ، چنانچہ مسلمان کھڑے ہوں گے اور پل صراط قائم کیا جائے گا، اس پر سے مسلمان تیز رفتار گھوڑے اور سوار کی طرح گزریں گے اور گزرتے ہوئے ان سے یہ کلمات ادا ہوں گے «سلم سلم» سلامت رکھ، سلامت رکھ، صرف جہنمی باقی رہ جائیں گے تو ان میں سے ایک گروہ کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا، پھر پوچھا جائے گا: کیا تو بھر گئی؟ جہنم کہے گی: «هل من مزيد» اور زیادہ، پھر اس میں دوسرا گروہ پھینکا جائے گا اور پوچھا جائے گا: کیا تو بھر گئی؟ وہ کہے گی: «هل من مزيد» اور زیادہ، یہاں تک کہ جب تمام لوگ پھینک دیے جائیں گے تو رحمن اس میں اپنا پیر ڈالے گا اور جہنم کا ایک حصہ دوسرے میں سمٹ جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ کہے گا: بس۔ جہنم کہے گی: «قط قط» بس، بس۔ جب اللہ تعالیٰ جنتیوں کو جنت میں اور جہنمیوں کو جہنم میں داخل کر دے گا، تو موت کو کھینچتے ہوئے اس دیوار تک لایا جائے گا جو جنت اور جہنم کے درمیان ہے، پھر کہا جائے گا: اے جنتیو! تو وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے، پھر کہا جائے گا: اے جہنمیو! تو وہ شفاعت کی امید میں خوش ہو کر جھانکیں گے، پھر جنتیوں اور جہنمیوں سے کہا جائے گا: کیا تم اسے جانتے ہو؟ تو یہ بھی کہیں گے اور وہ بھی کہیں گے: ہم نے اسے پہچان لیا، یہ وہی موت ہے جو ہمارے اوپر وکیل تھی، پھر وہ جنت اور جہنم کی بیچ والی دیوار پر لٹا کر یکبارگی ذبح کر دی جائے گی، پھر کہا جائے گا: اے جنتیو! ہمیشہ (جنت میں) رہنا ہے موت نہیں آئے گی۔ اے جہنمیو! ہمیشہ (جہنم میں) رہنا ہے موت نہیں آئے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی بہت سی احادیث مروی ہیں جس میں دیدار الٰہی کا ذکر ہے کہ لوگ اپنے رب کو دیکھیں گے، قدم اور اسی طرح کی چیزوں کا بھی ذکر ہے،
۳- اس سلسلے میں ائمہ اہل علم جیسے سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، ابن عیینہ اور وکیع وغیرہ کا مسلک یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کی روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ حدیثیں آئی ہیں اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں، لیکن صفات باری تعالیٰ کی کیفیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جائے گا، محدثین کا مسلک یہ یہی کہ یہ چیزیں ویسی ہی روایت کی جائیں گی جیسی وارد ہوئی ہیں، ان کی نہ (باطل) تفسیر کی جائے گی نہ اس میں کوئی وہم پیدا کیا جائے گا، اور نہ ان کی کیفیت وکنہ کے بارے میں پوچھا جائے گا، اہل علم نے اسی مسلک کو اختیار کیا ہے اور لوگ اسی کی طرف گئے ہیں،
۴- حدیث کے اندر «فيعرفهم نفسه» کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے تجلی فرمائے گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14055)، وانظر مسند احمد (2/368) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج الطحاوية (576)

   صحيح البخاري3340عبد الرحمن بن صخربعض الناس ألا ترون إلى ما أنتم فيه إلى ما بلغكم ألا تنظرون إلى من يشفع لكم إلى ربكم فيقول بعض الناس أبوكم آدم فيأتونه فيقولون يا آدم أنت أبو البشر خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه وأمر الملائكة فسجدوا لك وأسكنك الجنة ألا تشفع لنا إلى ربك ألا ترى ما نحن ف
   صحيح البخاري4712عبد الرحمن بن صخرأنا سيد الناس يوم القيامة يجمع الله الناس الأولين والآخرين في صعيد واحد يسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون ولا يحتملون فيقول الناس ألا ترون ما قد بلغكم ألا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم فيقول بعض الناس لبعض عليكم
   صحيح البخاري3361عبد الرحمن بن صخرالله يجمع يوم القيامة الأولين والآخرين في صعيد واحد فيسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس منهم فذكر حديث الشفاعة فيأتون إبراهيم فيقولون أنت نبي الله وخليله من الأرض اشفع لنا إلى ربك فيقول فذكر كذباته نفسي نفسي اذهبوا إلى موسى
   صحيح مسلم7206عبد الرحمن بن صخرالعرق يوم القيامة ليذهب في الأرض سبعين باعا وإنه ليبلغ إلى أفواه الناس أو إلى آذانهم
   صحيح مسلم480عبد الرحمن بن صخرسيد الناس يوم القيامة يجمع الله يوم القيامة الأولين والآخرين في صعيد واحد فيسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون وما لا يحتملون فيقول بعض الناس لبعض ألا ترون ما أنتم فيه ألا ترون ما قد بلغكم ألا تنظرون من يشفع لكم
   جامع الترمذي2557عبد الرحمن بن صخرألا يتبع كل إنسان ما كانوا يعبدونه فيمثل لصاحب الصليب صليبه ولصاحب التصاوير تصاويره ولصاحب النار ناره فيتبعون ما كانوا يعبدون ويبقى المسلمون فيطلع عليهم رب العالمين فيقول ألا تتبعون الناس فيقولون نعوذ بالله منك نعوذ بالله منك الله ربنا هذا مكاننا حتى نرى
   جامع الترمذي2434عبد الرحمن بن صخرأنا سيد الناس يوم القيامة يجمع الله الناس الأولين والآخرين في صعيد واحد فيسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس منهم فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون ولا يحتملون فيقول الناس بعضهم لبعض ألا ترون ما قد بلغكم ألا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم فيقول الن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3340  
´شفاعت محمدیہ کا اثبات`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، وَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ...: 3340]

تخريج الحديث:
[120۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 17 سورة الإسراء: 5 باب ذرية من حملنا مع نوح 3340، مسلم 194]
لغوی توضیح:
«فَنَهَسَ» دانتوں سے نوچا۔
«صَعِيْد وَاحِد» ایک چٹیل میدان۔
فھم الحدیث: ان احادیث میں شفاعت محمدیہ کا اثبات ہے۔ روز قیامت جب تمام انبیاء اپنی اپنی لغزشوں کو یاد کر کے کانپ رہے ہوں گے اس وقت صرف اور صرف ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی شفاعت کے لیے آگے بڑھیں گے۔ یہ چیز آپ کے تمام انبیاء سے افضل ہونے کی بھی دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حاصل کرنے کے لیے یہ دعا پڑھنی چاہیے «اللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيْلَةَ وَالْفَضِيْلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودًا الَّذِيْ وَعَدْتَّهُ» ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو بھی اذان سن کر یہ دعا پڑھے گا اسے میری شفاعت نصیب ہوگی۔ [بخاري: كتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء 614]
جس روایت میں ہے کہ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی، وہ موضوع و من گھڑت ہے۔ [موضوع ارواء الغليل 4؍336 ضعيف الجامع الصغير 5607]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 120   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2434  
´قیامت کے دن کی شفاعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، اس میں سے آپ کو دست کا گوشت دیا گیا جو کہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کر کھایا، پھر فرمایا: قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیا تم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہر نگاہ والا دیکھ سکے گا، سورج ان سے بالکل قریب ہو گا جس سے لوگوں کا غم و کرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کر س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2434]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ کی اس شفاعت کا بیان ہے جب سارے انبیاء اپنی اپنی بعض لغزشوں کے حوالے سے شفاعت کرنے سے معذرت کریں گے،
چونکہ انبیاء علیہم السلام ایمان و تقوی کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں،
اس لیے ان کی معمولی غلطی بھی انہیں بڑی غلطی محسوس ہوتی ہے،
اسی وجہ سے وہ بار گاہ الٰہی میں پیش ہونے سے معذرت کریں گے،
لیکن نبی اکرم ﷺ اللہ کے حکم سے سفارش فرمائیں گے،
اس سے آپ ﷺ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے،
آپ کی شفاعت مختلف مرحلوں میں ہوگی،
آپ اپنی امت کے حق میں شفاعت فرمائیں گے،
جو مختلف مرحلوں میں ہوگی،
اس حدیث میں پہلے مرحلہ کا ذکر ہے،
جس میں آپ کی شفاعت پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنت میں لے جانے کی اجازت دے گا جن پر حساب نہیں ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2434   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.