الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
The Book of Witnesses
7. بَابُ الشَّهَادَةِ عَلَى الأَنْسَابِ وَالرَّضَاعِ الْمُسْتَفِيضِ وَالْمَوْتِ الْقَدِيمِ:
7. باب: نسب اور رضاعت میں جو مشہور ہو، اسی طرح پرانی موت پر گواہی کا بیان۔
(7) Chapter. To give witness concerning lineage, foster suckling relations and dead persons, who died long before.
حدیث نمبر: 2647
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن اشعث بن ابي الشعثاء، عن ابيه، عن مسروق، ان عائشة رضي الله عنها، قالت: دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم وعندي رجل، قال: يا عائشة، من هذا؟ قلت: اخي من الرضاعة، قال: يا عائشة،" انظرن من إخوانكن، فإنما الرضاعة من المجاعة". تابعه ابن مهدي، عن سفيان.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي رَجُلٌ، قَالَ: يَا عَائِشَةُ، مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، قَالَ: يَا عَائِشَةُ،" انْظُرْنَ مَنْ إِخْوَانُكُنَّ، فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ الْمَجَاعَةِ". تَابَعَهُ ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں اشعث بن ابوشعثاء نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (گھر میں) تشریف لائے تو میرے یہاں ایک صاحب (ان کے رضاعی بھائی) بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، عائشہ! یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! ذرا دیکھ بھال کر لو، کون تمہارا رضاعی بھائی ہے۔ کیونکہ رضاعت وہی معتبر ہے جو کم سنی میں ہو۔ محمد بن کثیر کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن مہدی نے سفیان ثوری سے روایت کیا ہے۔

Narrated Aisha: Once the Prophet came to me while a man was in my house. He said, "O `Aisha! Who is this (man)?" I replied, "My foster brothers" He said, "O `Aisha! Be sure about your foster brothers, as fostership is only valid if it takes place in the suckling period (before two years of age).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 815


   صحيح البخاري5102عائشة بنت عبد اللهالرضاعة من المجاعة
   صحيح البخاري2647عائشة بنت عبد اللهالرضاعة من المجاعة
   صحيح مسلم3606عائشة بنت عبد اللهالرضاعة من المجاعة
   سنن أبي داود2058عائشة بنت عبد اللهالرضاعة من المجاعة
   سنن النسائى الصغرى3314عائشة بنت عبد اللهالرضاعة من المجاعة
   سنن ابن ماجه1945عائشة بنت عبد اللهالرضاعة من المجاعة
   بلوغ المرام965عائشة بنت عبد اللهانظرن من إخوانكن فإنما الرضاعة من المجاعة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1945  
´دودھ چھٹنے کے بعد پھر رضاعت ثابت نہیں ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، اور اس وقت ایک شخص ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ میرے بھائی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو جن لوگوں کو تم اپنے پاس آنے دیتی ہو انہیں اچھی طرح دیکھ لو (کہ ان سے واقعی تمہارا رضاعی رشتہ ہے یا نہیں) حرمت تو اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو بچپن کی ہو جس وقت دودھ ہی غذا ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1945]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رضاعت سے محرم کا رشتہ تب قائم ہوتا ہے جب بچے کو دو سال کی عمر کے اندر دودھ پلایا گیا ہو۔
اور کم از کم پانچ بار پیٹ بھر کر دودھ پلایا گیا ہو۔
اگر کسی بچے کو دو سال کی عمر ہو جانے کے بعد دودھ پلایا گیا ہو تو یہ دودھ پلانا معتبر نہیں اس سے دودھ کا رشتہ قائم نہیں ہوگا۔
سوائے ناگزیر صورتحال کے جیسا کہ گزشتہ روایات میں بیان ہوا ہے۔

(2)
رضاعت کے معاملات میں احتیاط ضروری ہے تاکہ غیر محرم کو محرم یا محرم کو غیر محرم نہ سمجھ لیا جائے۔

(3)
مرد کو چاہیے کہ بیوی کو غلطی پر تنبیہ کرے اگر کس سے لا علمی کی بنا پر غلطی ہو جائے تو اسے سختی سے تنبیہ کرنے کے بجائے نرمی سے مسئلہ بتا دینا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1945   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 965  
´دودھ پلانے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ضرور غور کر لیا کرو کہ تمہارے بھائی کون ہیں کیونکہ رضاعت اس وقت معتبر ہے جب دودھ بھوک کے وقت پیا جائے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 965»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب من قال لا رضاع بعد حولين...، حديث:5102، 2647، ومسلم، الرضاع، باب إنما الرضاعة من المجاعة، حديث:1455.»
تشریح:
اس حدیث میں ایک قصے کی طرف اشارہ ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔
اس وقت میرے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔
یہ بات آپ کی طبع مبارک پر گراں گزری اور میں نے چہرۂ انور پر ناراضی کے آثار دیکھ کر کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو میرا رضاعی بھائی ہے۔
یہ سن کر آپ نے فرمایا: غور سے دیکھ لیا کرو کہ تمھارے بھائی کون ہیں؟ … الخ۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 965   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2058  
´بڑی عمر والے کی رضاعت کا حکم۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، ان کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، (حفص کی روایت میں ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات ناگوار گزری، آپ کا چہرہ متغیر ہو گیا (پھر حفص اور شعبہ دونوں کی روایتیں متفق ہیں) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول یہ تو میرا رضاعی بھائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھی طرح دیکھ لو کون تمہارے بھائی ہیں؟ کیونکہ رضاعت تو غذا سے ثابت ہوتی ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2058]
فوائد ومسائل:
یعنی رضاعت فی الحقیقت وہی معتبر ہے کہ بچے نے اپنی دودھ پینے کی عمر میں دودوھ پیا ہو، اسی سے حرمت ثابت ہوتی ہے دوسال کے بعد بچہ روٹی سالن اور دیگر خوراک سے اپنی بھوک مٹانے لگتا ہے، اس لیے جمہور کے نزدیک اس وقت دودھ پینے کا اعتبار نہیں۔
علاوہ ازیں رضاعت وہی معتبر ہے جو بھوک کی بنا پر ہو کا مطلب ہے بچے نے دودھ اتنی مقدار میں پیا ہو کہ جس سے اس کی بھوک مٹ گئی ہو اور اس کی وضاحت دسوری حدیث میں اس طرح ہے کہ وہ پانچ مرتبہ دودھ پیے وہ یوں کہ پستان منہ میں لے کر دودھ پیتا رہے اور پھر اسے اپنی مرضی سے چھوڑے۔
یہ ایک مرتبہ پینا (ایک رضعہ) ہے۔
اس طرح پانچ رضعات سے رضاعت سے ثابت ہوگی۔
ایک دو رضعوں سے نہیں (تفصیل کےلیے دیکھیئے: ضمیمہ تفسیر احس البیان بعنوان رضاعت کے چند ضروری مسائل، از حافظ صلاح الدین یوسف)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2058   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2647  
2647. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ میرے گھر تشریف لائے تو ایک شخص میرے پاس بیٹھا تھا۔ آپ نے دریافت کیا: عائشہ ؓ! یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ آپ نے فرمایا: عائشہ ؓ!ذرا اپنے رضاعی بھائی کے بارے میں غور و فکر کر لیا کرو۔ کیونکہ اس رضاعت کا اعتبار ہے جس میں دودھ بھوک کی وجہ سے پیا جائے۔ ابن مہدی نے سفیان سے روایت کرنے میں محمد بن کثیر کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2647]
حدیث حاشیہ:
بچے کا اسی زمانہ میں کسی عورت کے دودھ پینے کا اعتبار ہے جبکہ بچے کی زندگی کے لیے وہ ضروری ہو یعنی مدت رضاعت جو دو سال کی ہے۔
اگر اس کے اندر دو بچے کسی ماں کا دودھ پئیں تو اس کا اعتبار ہوگا اور دونوں میں حرمت ثابت ہوگی ورنہ حرمت ثابت نہیں ہوگی۔
مدت رضاعت حولین کاملین خود قرآن مجید سے ثابت ہے یعنی پورے دو سال، اس سے زیادہ دودھ پلانا غلط ہوگا۔
حنفیہ کے نزدیک یہ مدت تین ماہ اور زائد تک ہے جو ازروئے قرآن مجید صحیح نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2647   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2647  
2647. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ میرے گھر تشریف لائے تو ایک شخص میرے پاس بیٹھا تھا۔ آپ نے دریافت کیا: عائشہ ؓ! یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ آپ نے فرمایا: عائشہ ؓ!ذرا اپنے رضاعی بھائی کے بارے میں غور و فکر کر لیا کرو۔ کیونکہ اس رضاعت کا اعتبار ہے جس میں دودھ بھوک کی وجہ سے پیا جائے۔ ابن مہدی نے سفیان سے روایت کرنے میں محمد بن کثیر کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2647]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ دودھ کا رشتہ غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے کہ جو لڑکی کسی کا دودھ پی لے تو اس کا بیٹا اس کا بھائی نہیں بن جاتا بلکہ رضاعت اس عمر میں ثابت ہو گی جب بچہ دودھ کے علاوہ اور کوئی چیز استعمال نہ کرتا ہو، پھر دیگر احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے۔
اگر کسی عورت نے یونہی روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے اپنی چھاتی اس کے منہ میں دے دی تو اس سے رضاعت ثابت نہیں ہو گی۔
بہرحال ان احادیث کو پیش کرنے سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ نسب، رضاعت اور موت قدیم شہرت سے ثابت ہوں گی۔
انہیں ثابت کرنے کے لیے گواہی کی ضرورت نہیں ہے۔
(2)
ان احادیث سے نسب اور رضاعت کا ثبوت ملتا ہے اور موت قدیم کا ثبوت بحکم الحاق ثابت ہوتا ہے۔
ان احادیث میں بیان کی جانے والی رضاعت کو شہرت کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا ہے۔
(3)
واضح رہے کہ عنوان میں موت قدیم کا ذکر ہے کیونکہ تازہ موت شہرت سے ثابت نہیں ہو گی۔
اس کے لیے شہادت ضروری ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ اپنی بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے پٹواری کے کاغذات میں انہیں مردہ ظاہر کر دیتے ہیں، حالانکہ وہ زندہ ہوتی ہیں، اس لیے عنوان میں موتِ قدیم کا ذکر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2647   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.