الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
49. بَابُ : الْقِرَانِ
49. باب: حج قِران کا بیان۔
Chapter: Qiran
حدیث نمبر: 2726
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني معاوية بن صالح، قال: حدثني يحيى بن معين، قال: حدثنا حجاج، قال: حدثنا يونس، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: كنت مع علي بن ابي طالب حين امره رسول الله صلى الله عليه وسلم على اليمن، فلما قدم على النبي صلى الله عليه وسلم، قال علي: فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كيف صنعت؟" قلت: اهللت بإهلالك , قال: فإني سقت الهدي وقرنت، قال: وقال صلى الله عليه وسلم لاصحابه:" لو استقبلت من امري ما استدبرت، لفعلت كما فعلتم، ولكني سقت الهدي وقرنت".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ حِينَ أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْيَمَنِ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَلِيٌّ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيْفَ صَنَعْتَ؟" قُلْتُ: أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِكَ , قَالَ: فَإِنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ وَقَرَنْتُ، قَالَ: وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:" لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، لَفَعَلْتُ كَمَا فَعَلْتُمْ، وَلَكِنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ وَقَرَنْتُ".
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کا حاکم بنایا، پھر جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: تم نے کیسے کیا ہے؟ یعنی کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے، میں نے کہا: میں نے آپ کا تلبیہ پکارا ہے (یعنی آپ کے احرام کے مطابق احرام باندھا ہے)، آپ نے فرمایا: میں تو ہدی ساتھ لایا ہوں، اور میں نے قِران کیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: اگر مجھے پہلے وہ باتیں معلوم ہوئی ہوتیں جواب معلوم ہوئی ہیں تو میں بھی ویسے ہی کرتا جیسے تم نے کیا ہے ۱؎ لیکن میں ہدی ساتھ لایا ہوں، اور میں نے حج قِران کا احرام باندھ رکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج24 (1797)، (تحفة الأشراف: 10026) ویأتی عند المؤلف برقم 2746 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی میں بھی احرام کھول کر حلال ہو جاتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1979) وحديث الآتي (2746) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 342

   سنن ابن ماجه2982براء بن عازباجعلوا حجتكم عمرة فقال الناس يا رسول الله قد أحرمنا بالحج فكيف نجعلها عمرة انظروا ما آمركم به فافعلوا فردوا عليه القول فغضب فانطلق ما لي لا أغضب وأنا آمر أمرا فلا أتبع
   سنن النسائى الصغرى2726براء بن عازبلفعلت كما فعلتم ولكني سقت الهدي وقرنت
   سنن النسائى الصغرى2746براء بن عازبسقت الهدي وقرنت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2726  
´حج قِران کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کا حاکم بنایا، پھر جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: تم نے کیسے کیا ہے؟ یعنی کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے، میں نے کہا: میں نے آپ کا تلبیہ پکارا ہے (یعنی آپ کے احرام کے مطابق احرام باندھا ہے)، آپ نے فرمایا: میں تو ہدی ساتھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2726]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث کی سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہے جو عن سے بیان کر رہا ہے لیکن اس کے صحیح شواہد موجود ہیں۔ جن کا محقق کتاب نے بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک شاہد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث بھی ہے، لہٰذا یہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے اور ابو اسحاق کا عنعنہ یہاں مضر نہیں۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 24/ 159-162)
(2) کیسے احرام باندھا ہے؟ یعنی صرف حج کا یا صرف عمرے کا یا دونوں کا؟
(3) آپ کے احرام کی طرح۔ یعنی میں نے احرام باندھتے وقت کہا تھا کہ میرا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگا۔ اگرچہ اس وقت انھیں علم نہ تھا۔ کہ رسول اللہﷺ نے احرام کیسے باندھا ہے لیکن چونکہ ان کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا عملاً بھی ان کا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگیا۔
(4) میں اسی طرح کرتا۔ یعنی قربانی ساتھ نہ لاتا (بلکہ موقع پر خریدتا) اور عمرہ کر کے حلال ہو جاتا۔
(5) ثابت ہوا تمتع اور قران شرعاً جائز ہیں، بلکہ تمتع افضل ہے اور آسانی کا باعث بھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2726   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2982  
´حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نکلے، ہم نے حج کا احرام باندھا، جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے حج کو عمرہ کر دو، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے حج کا احرام باندھا ہے ہم اس کو عمرہ کیسے کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو، لوگوں نے پھر وہی بات دہرائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو کر چل دئیے اور غصہ کی ہی حالت میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، انہوں نے آپ کے چہرے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2982]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت محققین کے نزدیک ضعیف ہے تاہم اگر کسی دوسری سند سے یہ حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اشکال پیدا ہوگا۔
کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے براہ راست حکم سن کر بھی تعمیل کیوں نہ کی؟اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو احرام کی حالت میں دیکھا تو ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ رسول اللہﷺ کی طرح احرام میں رہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اتباع ہوسکے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دوبارہ وہی بات اس لیے عرض کی کہ شاید رسول اللہ ﷺ انھیں احرام نہ کھولنے کی اجازت دے دیں ورنہ ان سے حکم عدولی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2982   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.