الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جہاد کے مسائل
Jihad (Kitab Al-Jihad)
181. باب فِي حَمْلِ السِّلاَحِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ
181. باب: دشمن کے ملک میں ہتھیار جانے دینے کا بیان۔
Chapter: Regarding Carrying Weapons To The Land Of The Enemy.
حدیث نمبر: 2786
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عيسى بن يونس، اخبرني ابي، عن ابي إسحاق، عن ذي الجوشن رجل من الضباب، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم بعد ان فرغ من اهل بدر بابن فرس لي، يقال لها القرحاء فقلت: يا محمد إني قد جئتك بابن القرحاء لتتخذه، قال: لا حاجة لي فيه، وإن شئت ان اقيضك به المختارة من دروع بدر فعلت، قلت: ما كنت اقيضه اليوم بغرة قال: فلا حاجة لي فيه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ ذِي الْجَوْشَنِ رَجُلٍ مِنَ الضِّبَابِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ فَرَغَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ بِابْنِ فَرَسٍ لِي، يُقَالُ لَهَا الْقَرْحَاءُ فَقُلْتُ: يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ جِئْتُكَ بِابْنِ الْقَرْحَاءِ لِتَتَّخِذَهُ، قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أَقِيضَكَ بِهِ الْمُخْتَارَةَ مِنْ دُرُوعِ بَدْرٍ فَعَلْتُ، قُلْتُ: مَا كُنْتُ أَقِيضُهُ الْيَوْمَ بِغُرَّةٍ قَالَ: فَلَا حَاجَةَ لِي فِيهِ.
ذوالجوشن ابوشمر ضبابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بدر سے فارغ ہونے کے بعد آپ کے پاس اپنے قرحاء نامی گھوڑے کا بچھڑا لے کر آیا، اور میں نے کہا: محمد! میں آپ کے پاس قرحا کا بچہ لے کر آیا ہوں تاکہ آپ اسے اپنے استعمال میں رکھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر تم بدر کی زرہوں میں سے ایک زرہ اس کے بدلے میں لینا چاہو تو میں اسے لے لوں گا، میں نے کہا: آج کے دن تو میں اس کے بدلے گھوڑا بھی نہ لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر مجھے بھی اس کی حاجت نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3545)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/484) (ابواسحاق اورذی الجوشن کے درمیان سند میں انقطاع ہے) (ضعیف)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ذی الجوشن اس وقت مسلمان نہ تھے کافروں کے ملک میں رہتے تھے اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں زرہ دینا منظور کیا اور مفت میں کسی مشرک کا تعاون گوارہ نہیں کیا۔

Narrated Dhul-Jawshan: A man of ad-Dabab, said: When the Prophet ﷺ became free from the people of Badr I brought to him a colt of my mare called al-Qarha' I said: Muhammad, I have brought a colt of a al-Qarha', so that you may take it. He said: I have no need of it. If you wish that I give you a select coat of mail from (the spoils of) Badr, I shall do it. I said: I cannot give you today a colt in exchange. He said: Then I have no need of it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2780


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو إسحاق عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 100

   سنن أبي داود2786شرحبيل بن الأعورجئتك بابن القرحاء لتتخذه قال لا حاجة لي فيه وإن شئت أن أقيضك به المختارة من دروع بدر فعلت قلت ما كنت أقيضه اليوم بغرة قال فلا حاجة لي فيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2786  
´دشمن کے ملک میں ہتھیار جانے دینے کا بیان۔`
ذوالجوشن ابوشمر ضبابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بدر سے فارغ ہونے کے بعد آپ کے پاس اپنے قرحاء نامی گھوڑے کا بچھڑا لے کر آیا، اور میں نے کہا: محمد! میں آپ کے پاس قرحا کا بچہ لے کر آیا ہوں تاکہ آپ اسے اپنے استعمال میں رکھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر تم بدر کی زرہوں میں سے ایک زرہ اس کے بدلے میں لینا چاہو تو میں اسے لے لوں گا، میں نے کہا: آج کے دن تو میں اس کے بدلے گھوڑا بھی نہ لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر مجھے بھی اس کی حاجت نہیں ۱؎۔‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2786]
فوائد ومسائل:
امام صاحب کا اس باب کے تحت یہ روایت لانے کا مقصد اس مسئلے کا اثبات ہے۔
کہ کسی کافر وغیرہ کو اسلحہ دینا جائز ہے۔
جو وہ دارالحرب لے جائے۔
وجہ استدلال یہ ہے کہ ذی الجوشن اس وقت کافرتھے۔
ان کو رسول اللہ ﷺ نے زرہوں کی پیش کش کی تھی۔
جو انہوں نے قبول نہیں کی۔
زرہ بھی ایک جنگی اسلحہ ہے۔
اور وہ اسے دارالحرب میں لے جاتے۔
لیکن یہ روایت ہی ضعیف ہے۔
دوسرا مسئلہ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کوئی ہدیہ دیتا تو آپ بھی اس کو ضرور کوئی ہدیہ دیتے۔
جیسے کہ اس روایت میں ہے کہ جب اس نے ہدیے کے بدلے میں ہدیہ لینا پسند نہیں کیا۔
تو آپ نے بھی اس کا ہدیہ نا منظور فرما دیا۔
نبی کریم ﷺ کا یہ طرز عمل صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2786   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.