الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
The Chapters on Jihad
16. بَابُ : فَضْلِ الشَّهَادَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
16. باب: اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 2801
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عبد الله بن مرة ، عن مسروق ، عن عبد الله في قوله: ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احياء عند ربهم يرزقون سورة آل عمران آية 169، قال: اما إنا سالنا عن ذلك فقال:" ارواحهم كطير خضر تسرح في الجنة في ايها شاءت ثم تاوي إلى قناديل معلقة بالعرش، فبينما هم كذلك إذ اطلع عليهم ربك اطلاعة، فيقول: سلوني ما شئتم، قالوا: ربنا ماذا نسالك ونحن نسرح في الجنة في ايها شئنا، فلما راوا انهم لا يتركون من ان يسالوا، قالوا: نسالك ان ترد ارواحنا في اجسادنا إلى الدنيا حتى نقتل في سبيلك، فلما راى انهم لا يسالون إلا ذلك تركوا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِي قَوْلِهِ: وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سورة آل عمران آية 169، قَالَ: أَمَا إِنَّا سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ:" أَرْوَاحُهُمْ كَطَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ فِي أَيِّهَا شَاءَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلَاعَةً، فَيَقُولُ: سَلُونِي مَا شِئْتُمْ، قَالُوا: رَبَّنَا مَاذَا نَسْأَلُكَ وَنَحْنُ نَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ فِي أَيِّهَا شِئْنَا، فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَا يُتْرَكُونَ مِنْ أَنْ يَسْأَلُوا، قَالُوا: نَسْأَلُكَ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا إِلَى الدُّنْيَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ، فَلَمَّا رَأَى أَنَّهُمْ لَا يَسْأَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ تُرِكُوا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» کے بارے میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں جنت میں جہاں چاہیں چلتی پھرتی ہیں، پھر شام کو عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں، ایک بار کیا ہوا کہ روحیں اسی حال میں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جھانکا پھر فرمانے لگا: تمہیں جو چاہیئے مانگو، روحوں نے کہا: ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں چلتی پھرتی ہیں، اس سے بڑھ کر کیا مانگیں؟ جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر مانگے خلاصی نہیں تو کہنے لگیں: ہمارا سوال یہ ہے کہ تو ہماری روحوں کو دنیاوی جسموں میں لوٹا دے کہ ہم پھر تیرے راستے میں قتل کئے جائیں، اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگ رہی ہیں تو چھوڑ دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 33 (1887) سنن الترمذی/تفسیر القرآن 4 (3011)، (تحفة الأشراف: 9570)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الجہاد 19 (2454) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل کئے جائیں ان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ اپنے مالک کے پاس زندہ ہیں، ان کو روزی ملتی ہے، اس آیت سے شہیدوں کی زندگی اور ان کی روزی ثابت ہوئی، اور دوسری آیتوں اور حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حقیقت میں بدن سے روح کے نکلنے کا نام موت ہے، نہ یہ کہ روح کا فنا ہو جانا پس جب روح باقی ہے اور فنا نہیں ہوئی، تو زندگی بھی باقی ہے، البتہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ دنیا کی سی زندگی ہے، بلکہ شاید دنیاوی زندگی سے زیادہ قوی اور طاقتور ہو، اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب سب لوگ زندہ ہیں تو پھر شہداء کی کیا خصوصیت ہے؟ حالانکہ اس آیت سے ان کی خصوصیت نکلتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ شہداء کی خصوصیت اور ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ زندہ بھی ہیں اور اللہ کے پاس معظم و مکرم بھی، ان کو جنت کے پھل روز کھانے کو ملتے ہیں، یہ سب باتیں اوروں کے لئے نہ ہوں گی، مگر دوسری حدیث میں ہے کہ مومنوں کی روحیں چڑیوں کے لباس میں جنت میں چلتی پھرتی ہیں، اس میں سارے مومن داخل ہو گئے، اور ایک حدیث میں ہے کہ قبر میں جنت کی طرف ایک راستہ مومن کے لئے کھول دیا جائے گا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت تک مومن کی روح وہیں رہے گی، غرض روح کے مسکن کے باب میں علماء کے بہت اقوال ہیں جن کو امام ابن القیم رحمہ اللہ نے تفصیل سے «حادی الأرواح إلی بلاد الأفراح» میں ذکر کیا ہے، اور سب سے زیادہ راجح قول یہی ہے کہ مومنوں کی روحیں جنت میں ہیں، اور کافروں کی جہنم میں، واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   جامع الترمذي3011عبد الله بن مسعودهل تستزيدون شيئا فأزيدكم قالوا ربنا وما نستزيد ونحن في الجنة نسرح حيث شئنا ثم اطلع إليهم الثانية فقال هل تستزيدون شيئا فأزيدكم فلما رأوا أنهم لم يتركوا قالوا تعيد أرواحنا في أجسادنا حتى نرجع إلى الدنيا فنقتل في سبيلك مرة أخرى
   سنن ابن ماجه2801عبد الله بن مسعودأرواحهم كطير خضر تسرح في الجنة في أيها شاءت ثم تأوي إلى قناديل معلقة بالعرش فبينما هم كذلك إذ اطلع عليهم ربك اطلاعة فيقول سلوني ما شئتم قالوا ربنا ماذا نسألك ونحن نسرح في الجنة في أيها شئنا فلما رأوا أنهم لا يتركون من أن يسألوا قالوا نسألك أن ترد أرواح

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2801  
´اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» کے بارے میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں جنت میں جہاں چاہیں چلتی پھرتی ہیں، پھر شام کو عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں، ایک بار کیا ہوا کہ روحیں اسی حال میں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جھانکا پھر فرمانے لگا: تمہیں جو چاہیئے مانگو، روحوں نے کہا: ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں چلتی پھرتی ہیں، اس سے بڑھ کر کیا مان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2801]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
شہیدوں کو قیامت سے پہلے جنت میں داخل کردیا جاتا ہے۔

(2)
برزخی زندگی میں شہیدوں کو دوسرا جسم ملتا ہے جو پرندوں کی شکل میں ہوتا ہے۔

(3)
قیامت کے بعد دوسرے جنتیوں کی طرح انسانی جسم کے ساتھ جنت کی نعمتوں سے مستفید ہونگے۔

(4)
شہیدوں کی روحیں دوبارہ دنیا میں نہیں آتی اور نہ انھیں دوبارہ دنیوی زندگی ہی ملتی ہے۔

(5)
عرش الہی جنت سے اوپر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2801   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3011  
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے آیت «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» کی تفسیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا: لوگو! سن لو، ہم نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) اس کی تفسیر پوچھی تھی تو ہمیں بتایا گیا کہ شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں ہیں، جنت میں جہاں چاہتی گھومتی پھرتی ہیں اور شام میں عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں۔ ایک بار تمہارے رب نے انہیں جھانک کر ایک نظر دیکھا اور پوچھا: تمہیں کوئی چیز مزید چاہیئے تو میں عطا کروں؟ انہوں نے کہا: رب! ہمیں مزید کچھ نہیں چاہیئے۔ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3011]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(عطاء بن السائب صدوق لیکن مختلط راوی ہیں،
اور ابو عبیدہ کا لقاء اپنے والد عبداللہ بن مسعود سے نہیں ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3011   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.