الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
31. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلاًّ وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ} إِلَى قَوْلِهِ: {غَفُورًا رَحِيمًا} :
31. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) یہ فرمانا کہ ”مسلمانوں میں جو لوگ معذور نہیں ہیں اور جہاد سے بیٹھ رہیں وہ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے، اللہ نے ان لوگوں کو جو اپنے مال اور جان سے جہاد کریں، بیٹھے رہنے والوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ کا اچھا وعدہ سب کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدوں کو بیٹھنے والوں پر بہت بڑی فضیلت دی ہے۔“ اللہ کے فرمان «غفوراً رحيما» تک۔
(31) Chapter. The Statement of Allah: “Not equal are those of the believers who sit (at home), except those who are disabled (by injury or are blind or lame)..(up to).. Ever Oft-Forgiving, Most Merciful." (V.4:95,96).
حدیث نمبر: 2832
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد الزهري، قال: حدثني صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، عن سهل بن سعد الساعدي، انه قال: رايت مروان بن الحكم جالسا في المسجد فاقبلت حتى جلست إلى جنبه، فاخبرنا ان زيد بن ثابت اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" املى عليه لا يستوي القاعدون من المؤمنين سورة النساء آية 95 والمجاهدون في سبيل الله سورة النساء آية 95، قال: فجاءه ابن ام مكتوم وهو يملها علي، فقال: يا رسول الله، لو استطيع الجهاد لجاهدت، وكان رجلا اعمى فانزل الله تبارك وتعالى على رسوله صلى الله عليه وسلم، وفخذه على فخذي، فثقلت علي حتى خفت ان ترض فخذي، ثم سري عنه فانزل الله عز وجل غير اولي الضرر سورة النساء آية 95".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِت أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمْلَى عَلَيْهِ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95 وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة النساء آية 95، قَالَ: فَجَاءَهُ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ يُمِلُّهَا عَلَيَّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ، وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي، فَثَقُلَتْ عَلَيَّ حَتَّى خِفْتُ أَنَّ تَرُضَّ فَخِذِي، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد زہری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے صالح بن کیسان نے بیان کیا ابن شہاب سے ‘ انہوں نے سہل بن سعد زہری رضی اللہ عنہ سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں مروان بن حکم (خلیفہ اور اس وقت کے امیر مدینہ) کو مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو ان کے قریب گیا اور پہلو میں بیٹھ گیا اور پھر انہوں نے ہمیں خبر دی کہ زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے آیت لکھوائی «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله» انہوں نے بیان کیا پھر عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مجھ سے آیت مذکورہ لکھوا رہے تھے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ! اگر مجھ میں جہاد کی طاقت ہوتی تو میں جہاد میں شریک ہوتا۔ وہ نابینا تھے ‘ اس پر اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر تھی میں نے آپ پر وحی کی شدت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کا اتنا بوجھ محسوس کیا کہ مجھے ڈر ہو گیا کہ کہیں میری ران پھٹ نہ جائے۔ اس کے بعد وہ کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ختم ہو گئی اور اللہ عزوجل نے فقط «غير أولي الضرر‏» نازل فرمایا۔

Narrated Sahl bin Sa`d As-Sa`idi: I saw Marwan bin Al-Hakam sitting in the Mosque. So I came forward and sat by his side. He told us that Zaid bin Thabit had told him that Allah's Apostle had dictated to him the Divine Verse: "Not equal are those believers who sit (at home) and those who strive hard and fight in the Cause of Allah with their wealth and lives.' (4.95) Zaid said, "Ibn-Maktum came to the Prophet while he was dictating to me that very Verse. On that Ibn Um Maktum said, "O Allah's Apostle! If I had power, I would surely take part in Jihad." He was a blind man. So Allah sent down revelation to His Apostle while his thigh was on mine and it became so heavy for me that I feared that my thigh would be broken. Then that state of the Prophet was over after Allah revealed "...except those who are disabled (by injury or are blind or lame etc.) (4.95)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 85


   صحيح البخاري2832زيد بن ثابتأملى عليه لا يستوي القاعدون من المؤمنين
   جامع الترمذي3033زيد بن ثابتأملى عليه لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله لو أستطيع الجهاد لجاهدت وكان رجلا أعمى فأنزل الله على رسوله وفخذه على فخذي فثقلت حتى همت ترض فخذي ثم سري عنه فأنزل الله عليه غير أولي الضرر
   سنن أبي داود2507زيد بن ثابتاكتب فكتبت في كتف لا يستوي القاعدون من المؤمنين
   سنن النسائى الصغرى3102زيد بن ثابتلا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله قال فجاءه ابن أم مكتوم وهو يملها علي لو أستطيع الجهاد لجاهدت وكان رجلا أعمى فأنزل الله على رسوله وفخذه على فخذي حتى همت ترض فخذي ثم سري عنه فأنزل الله غير أولي الضرر
   سنن النسائى الصغرى3101زيد بن ثابتلا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله فجاء ابن أم مكتوم وهو يملها علي لو أستطيع الجهاد لجاهدت فأنزل الله وفخذه على فخذي فثقلت علي حتى ظننت أن سترض فخذي ثم سري عنه غير أولي الضرر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2507  
´عذر کی بنا پر جہاد میں نہ جانے کی اجازت کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھا تو آپ کو سکینت نے ڈھانپ لیا (یعنی وحی اترنے لگی) (اسی دوران) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر پڑ گئی تو کوئی بھی چیز مجھے آپ کی ران سے زیادہ بوجھل محسوس نہیں ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: لکھو، میں نے شانہ (کی ایک ہڈی) پر «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله» اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2507]
فوائد ومسائل:

مریض، نابینا، اپاہج، یا دیگر شرعی عذر کی بنا ء پر اگر کوئی جہاد سے پیچھے رہ جائے۔
تو مباح ہے، لیکن جب نفیر عام کا حکم ہو تو بلا عذر پیچھے رہنا کسی طرح روا نہیں۔


نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر انتہائی بوجھ پڑتا تھا۔
حتیٰ کے سخت سردی میں بھی آپﷺ کو پسینہ آجاتا تھا۔
اور اگر آپ اونٹنی پر ہوتے تو وہ بھی ٹک کرکھڑی ہوجاتی تھی۔
اور چل نہ سکتی تھی۔


قرآن مجید جس قدر اترتا تھا نبی کریم ﷺ اس کی کتابت کروا دیا کرتے تھے۔
البتہ ابتداء میں احادیث کے لکھنے کی عام اجازت نہ تھی۔
سوائے چند ایک صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے زیادہ وثائق جو آپ نے بالخصوص لکھوائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2507   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2832  
2832. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓسے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے حاکم مدینہ جناب مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں آکر اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ اس نے ہمیں زید بن ثابت ؓکے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ انھیں ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ لکھوا رہے تھے اتنے میں حضرت عبد اللہ بن اُم مکتوم ؓ آئے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اگر مجھ میں جہاد کی طاقت ہوتی تو میں بھی جہاد میں شریک ہوتا، وہ نابینا تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ پر وحی بھیجی، جبکہ آپ کی ران میری ران پر تھی جو مجھ پر اس قدر گراں ہو گئی کہ مجھے میری ران ٹکڑےٹکڑے ہونے کا خطرہ محسوس ہوا۔ پھر وہ کیفیت آپ سے کھل گئی تو اللہ تعالیٰ نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ ﴾ کے الفاظ نازل فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2832]
حدیث حاشیہ:
رسول کریمﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ کی حالت دگرگوں ہو جاتی‘ سخت سردی میں پسینہ پسینہ ہو جاتے اور جسم مبارک بوجھل ہو جاتا۔
اسی کیفیت کو راوی نے یہاں بیان کیا ہے۔
آیت میں ان الفاظ سے نابینا بیمار اپاہج لوگ فرضیت جہاد سے مستثنیٰ کردئیے گئے۔
سچ ہے ﴿لَا یُکَلّفُ اللہُ نَفسنا اِلا وُسْعَھَا﴾ (البقرة: 286)
احکام الٰہی صرف انسانی وسعت و طاقت کی حد تک بچا لانے ضروری ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2832   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2832  
2832. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓسے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے حاکم مدینہ جناب مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں آکر اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ اس نے ہمیں زید بن ثابت ؓکے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ انھیں ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ لکھوا رہے تھے اتنے میں حضرت عبد اللہ بن اُم مکتوم ؓ آئے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اگر مجھ میں جہاد کی طاقت ہوتی تو میں بھی جہاد میں شریک ہوتا، وہ نابینا تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ پر وحی بھیجی، جبکہ آپ کی ران میری ران پر تھی جو مجھ پر اس قدر گراں ہو گئی کہ مجھے میری ران ٹکڑےٹکڑے ہونے کا خطرہ محسوس ہوا۔ پھر وہ کیفیت آپ سے کھل گئی تو اللہ تعالیٰ نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ ﴾ کے الفاظ نازل فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2832]
حدیث حاشیہ:

اس آیت سے معلوم ہواکہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے کیونکہ معاشرے میں کئی افراد بوڑھے،ناتواں،کمزور،اندھے،لنگڑے اور بیمار وغیرہ ہوتے ہیں جو جہاد پر جا ہی نہیں سکتے،نیز کچھ لوگ ملک کے اندرونی دفاع،مجاہدین کے گھروں کی حفاظت،ان کے اہل وعیال کی دکھ بھال کے لیے ضرور پیچھے رہنے چائیں اور اس لیے بھی کہ مجاہدین کو بروقت مدد مہیا کرتے رہیں،خواہ یہ رسد اور سامان خوردونوش سے متعلق ہو یا افرادی قوت سے،پھرکچھ لوگ زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی ضروری ہوتے ہیں۔

آیت کریمہ سے یہ بات بھی صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ جو اہل ایمان میدان میں بغیر جسمانی عذر کے بھی شریک نہیں ہوتے ان کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے خیر وبھلائی اور جنت کا وعدہ کررکھاہے لیکن اگر جہاد ہرحال میں فرض عین ہوتا تو پھر جہاد سے پیچھے رہنے والوں سے خیرو بھلائی کا وعدہ کیوں کرتا،چنانچہ حافظ ابن کثیر ؓ لکھتے ہیں:
اس آیت سے اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔
(تفسیر ابن کثیر: 821/1)

اللہ تعالیٰ نے اگرچہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کا عذرقبول فرمالیا لیکن اس رخصت کے باوجود آپ کا جذبہ جہاد اتنا بلند تھا کہ آپ مشقت اٹھا کر بھی کئی غزوات میں شریک ہوئے۔
جہاد کن صورتوں میں فرض عین ہوتا ہے،اس کی تفصیل ہم پیچھے بیان کرآئے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2832   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.