الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
The Book of Purification and its Sunnah
حدیث نمبر: 286
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش . ح وحدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن منصور ، وحصين ، عن ابي وائل ، عن حذيفة ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا قام من الليل يتهجد، يشوص فاه بالسواك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَحُصَيْنٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَتَهَجَّدُ، يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لیے اٹھتے تو مسواک سے دانت و منہ صاف کرتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 73 (245)، الجمعة 8 (889)، التھجد 9 (1136)، صحیح مسلم/الطہارة 15 (255)، سنن ابی داود/الطہارة 30 (55)، سنن النسائی/الطہارة 2 (2)، (تحفة الأشراف: 3336)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/382، 390، 397، 402، 407)، سنن الدارمی/الطہارة 20 (712) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Hudhaifah said: "Whenever the Messenger of Allah got up for prayer at night to pray Tahajjud (night optional prayer), he would clean his mouth with the tooth stick."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

   صحيح البخاري889حذيفة بن حسيلإذا قام من الليل يشوص فاه
   صحيح البخاري245حذيفة بن حسيلإذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك
   صحيح البخاري1136حذيفة بن حسيلإذا قام للتهجد من الليل يشوص فاه بالسواك
   صحيح مسلم593حذيفة بن حسيلإذا قام ليتهجد يشوص فاه بالسواك
   صحيح مسلم595حذيفة بن حسيلقام من الليل يشوص فاه بالسواك
   سنن أبي داود55حذيفة بن حسيلإذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك
   سنن النسائى الصغرى1623حذيفة بن حسيلإذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك
   سنن النسائى الصغرى1622حذيفة بن حسيلإذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك
   سنن النسائى الصغرى2حذيفة بن حسيلإذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك
   سنن النسائى الصغرى1624حذيفة بن حسيلنؤمر بالسواك إذا قمنا من الليل
   سنن ابن ماجه286حذيفة بن حسيلإذا قام من الليل يتهجد يشوص فاه بالسواك
   المعجم الصغير للطبراني144حذيفة بن حسيل إذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك
   مسندالحميدي446حذيفة بن حسيلأن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 1136  
´رات کے قیام میں نماز کو لمبا کرنا`
«. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَامَ لِلتَّهَجُّدِ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ..»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے اپنا منہ مسواک سے خوب صاف کرتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد: 1136]

فقہ الحدیث
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں: یہ باب ہے رات کی نماز میں درازی قیام کے بیان میں۔ اور حدیث ہے حذیفہ سے روایت ہے کہ آنحضرت جب نماز تہجد پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف کر لیتے۔ باب اور حدیث میں مطابقت نہیں۔
{اَقول:} ہم اس کا مفصل جواب رسالہ «الخزي العظيم» (ص:11) میں دے چکے ہیں۔
اور اخبار اہل حدیث (14/7، اکتوبر 2010 ء و 11 نومبر 2010 ء) میں بھی سب جواب دیا گیا ہے۔
مختصر جواب چار شقوں میں سن لیں، یعنی چار دلیلوں سے حدیث مذکور اور اس کے باب میں مطابقت ہے:
➊ لفظ «قيام» درباب اور «قام» درحدیث سے لفظی مطابقت ظاہر ہے۔
➋ مسواک کرنا چونکہ ازالہ نوم کی معین ہے، لہٰذا یہ تہیّو بطریق استنباط خود طولِ قیام پر دال ہے۔
➌ اس میں ایک نکتہ ہے، وہ یہ کہ یہ روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ہے اور نماز تہجد میں طوالت قرات کی روایت بھی صحیح مسلم میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے۔ ۱؎ پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دوسری حدیث کی طرف اشارہ کر کے سمجھا دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد میں لمبی قراَت پڑھتے تھے۔ کیونکہ دونوں روایتیں ایک ہی نماز کے متعلق اور ایک ہی صحابی کی روایت سے ہیں۔
➍ حدیث مذکور سے ہر دوگانہ تہجد کے بعد مسواک کرنا نکلتا ہے، اور ظاہر ہے کہ تغییر رائحہ فم کی ضرورت ایک عرصہ کے بعد ہوتی ہے، پس معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک دوگانہ میں ایک عرصہ تک قیام فرماتے تھے، یعنی قیام طویل کرتے تھے۔ [فتح الباري 19/3]
اور علامہ عینی (جو معترض کا مایہ ناز ہے) نے یوں مطابقت دی ہے کہ:
باب ہے رات کی نماز میں درازی قیام کا، اور حذیفہ کی حدیث میں تہجد کے لیے قیام کا ذکر موجود ہے اور تہجد کی نماز رات کو درازی سے ادا کی جاتی ہے اور درازی طول قیام سے ہوتی ہے۔ [عمدة القاري 186/7]
پس طول قیام ثابت ہے، جو باب کا مضمون ہے۔ بہرحال اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے جسے معترض نے عقدہ سمجھا تھا، وہ پانی ہو کر بہہ گیا۔ «فالحمدلله!»
------------------
۱؎ [صحيح مسلم: كتاب صلاة المسافرين وقصرھا، باب استحباب تطويل القراءة في صلاة الليل، رقم الحديث 776]
   دفاع صحیح بخاری، حدیث\صفحہ نمبر: 105   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 889  
´مسواک کی فضیلت`
«. . . كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو منہ کو مسواک سے خوب صاف کرتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ: 889]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب سے ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جمعہ کے دن مسواک کرنے کی فضیلت کو اجاگر فرما رہے ہیں۔
جس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ اگر امت پر شاق نہ ہوتا تو ہر نماز کے لئے مسواک کا حکم کرتا، تو اس حدیث اور باب میں مناسبت یہ ہے کہ جب تمام نمازوں کے لئے مسواک واجب کر دی جاتی تو یقیناً نماز جمعہ میں بھی بالاولیٰ واجب ہو جاتی کیونکہ جمعہ کی نماز میں پانچوں نمازوں سے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اور بڑا اجتماع ہوا کرتا ہے۔

دوسری حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تم سے مسواک کرنے کی خوبی بارہا کہی۔
اس میں مناسبت یہ ہے کہ مسواک میں غفلت اور سستی نہ کرو مسواک کی عادت ڈالو لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی خوبی بار بار واضح فرمائی اور یہ بھی واضح کر دیا کہ ہمیشہ مسواک کو استعمال کرنا مشکل ہے، لہٰذا ایک دن مسواک کا متعین کرنا مشکل نہیں باقی دنوں میں بہتر دن جمعہ کا ہے اور جمعہ کو روز خوشبو لگانا صاف ستھرے کپڑے پہننا مشروع ہے اور اسی دن مسواک کا بھی استعمال بہترین عمل میں داخل ہے۔

◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث سے استدلال اور مطابقت (ترجمۃ الباب کی) یہ ہے کہ جب مسواک کرنا پنج وقتہ نمازوں میں ثابت ہوا تو جمعہ کے روز جس میں غسل وغیرہ ہے تو مسواک کرنا بالاولیٰ ثابت ہو گا۔ [التوضيح، ج8، ص421]

تنبیہ:
مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر ابن حزم رحمہ اللہ اس کے وجوب کی طرف گئے ہیں کہ مسواک کرنا جمعہ کے روز فرض ہے، اور محدث اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ کی طرف بھی ایک قول منقول ہے کہ:
«هو واجب لكل صلاة فمن تركه عامداً بطلت صلاته»
مسواک کرنا واجب ہے ہر نماز کے لیے پس جس نے جان کر اسے چھوڑ دیا تو اس کی نماز باطل ہو گی۔ [فتح الباري، ج8، ص123]

◈ لیکن ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس قول کی نسبت ابن راھویہ کی طرف درست نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج8، ص123]
لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح سے ہوئی کہ عام نمازوں میں مسواک کرنا مشروع ہے تو جمعہ کے روز بھی بالاولیٰ مشروع ہو گا۔ کیونکہ اس دن نظافت، غسل اور عطر کے استعمال کی خاص ترغیب موجود ہے۔

تیسری حدیث جو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے وقت تہجد میں مسواک کرنا ثابت ہوتا ہے تو اس میں تطبیق یہ ہے کہ رات کی نماز تنہا نماز ہے اور جمعہ کی نماز میں خوشبو کا استعمال کا حکم ہے تو لہٰذا اس نماز میں بطریق اولی مسواک کرنے کا بھی حکم شامل ہو گیا لہٰذا مطابقت اس حدیث سے باب کی ظاہر ہو گئی۔ اس حدیث پر مزید بحث إن شاء اللہ باب «طول القيام فى صلاة الليل» میں آئے گی۔

فائدہ نمبر ➊
امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الحكمة فى استحباب السواك عند القيام إلى الصلاة كونها حالاً تقرب إلى الله» [فتح الباري ج2 ص478]
مسواک کرنے کی حکمت نماز میں اس لیے ہے کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

◈ ابن دقیق العید مزید فرماتے ہیں کہ:
مسواک کرنے میں بہت زیادہ ستھرائی اور عبادت کا شرف کا اظہار ہوتا ہے۔
ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے کئی ایک اہم ترین مسائل کی تخریج فرمائی ہے۔ آپ نے مذکورہ حدیث پر فقھی تبصرہ کرتے ہوئے 32 مسائل کو اجاگر فرمایا ہے۔ دیکھئے: [شرح الالمام، ج3، ص53 تا 91]

فائدہ نمبر ➋
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنا دیتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو ہر وقت منہ صاف رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیا ہے۔ برش سے دانتوں کی اچھی طرح صفائی ممکن نہیں اگر ہو بھی جائے لیکن اس کے بعد دانتوں پر میل (PLAQUE) کی تہہ چڑھ جاتی ہے۔ مسواک ایک ایسی چیز ہے جو دانتوں کے جملہ امراض کے لیے بے حد مفید ہے۔
پاکستان میں 1985ء میں دانت صاف کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی مختلف پودوں کی شاخوں پر جدید طبّی تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات سے مسواک پیلو کے ضمن میں نہایت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے اس مقصد کے لیے استعمال کی جانے والی شاخوں کا خروحیاتی طور پر جراثیم کے خلاف تقابلی جائزہ لیا گیا ان نباتات کے نام حسب ذیل ہیں۔
① نیم (MELIA AZADIRACHTA LINN)
② کیکر (ACACIA ARABICA WILLD)
③ پھلاہی (ACACIA MODESTA WILLD)
④ مسواک / پیلو (SELVADORA PERSICA LINN)
⑤ کرنج (PONGAMIA GLABRA VENT)
ان تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ بیشتر افریقی ممالک، جنوبی ایشیا، امریکہ کے گرم علاقے اور شمالی علاقوں میں درج بالا نباتات کی شاخیں اور جڑیں دانتوں اور منہ کی صفائی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
مسواک یا پیلو کو مجموعی طور پر لعاب دہن سے حاصل کئے گے بیکٹریا کے خلاف موثر پایا گیا اور اس کے مانع جراثیم ((ANTI MICROBIAL) جراثیم کش (GERMICDAL) اور مانع فخج (FUNGICIDAL) اثرات کا میعار بقایہ تمام نبات سے بہتر پایا گیا۔ (MEDICAL AND GENERAL PHYSIOLOGY)

◈ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ جانتا تو ان کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تنگی کا ڈر نہ ہوتا تو مسواک کرنے کو وضو کی طرح نماز کی صحت کے لئے شرط قرار دیتا اور اس طرح کی بہت سی احادیث وارد ہیں جو اس امر پر صاف دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو حدود شرعیہ میں دخل ہے۔ ① اور حدود شرعیہ مقاصد پر مبنی ہیں اور امت سے تنگی کا رفع کرنا من جملہ ان اصول کے ہے جن پر احکام شرعیہ مبنی ہیں۔۔۔ انسان کو مناسب ہے کہ اچھی طرح سے منہ کے اندر مسواک کرے اور حلق اور سینہ کا بلغم نکالے اور منہ میں خوب اندر تک مسواک کرنے سے مرض قلاع دور ہو جاتا ہے اور آواز صاف ہو جاتی ہے۔‏‏‏‏ [حجة الله البالغة ج1 ص183]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 204   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 245  
´رات کو اٹھنا اور مسواک کرنا`
«. . . عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ " . . . .»
. . . حذیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ السِّوَاكِ: 245]

تخريج الحديث:
[144۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 73 باب السواك 245، مسلم 255، أبوداود 55، ابن ماجه 286]
لغوی توضیح:
«يَسْتَنُّ» مسواک استعمال کرنا۔
«يَتَهَوَّعُ» قے کرنا۔
«يَشُوْصُ» مَلتے، دھوتے یا رگڑتے۔
«فَاهُ» اپنے منہ کو۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 144   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 2  
´رات کو سو کر اٹھنے کے بعد مسواک کرنے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو (نماز تہجد کے لیے) اٹھتے تو اپنا منہ مسواک سے خوب صاف کرتے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطهارة/حدیث: 2]
2۔ اردو حاشیہ:
➊ نیند سے بیداری کے بعد مسواک کرنا مستحب ہے، مگر یہ وضو کا حصہ نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر وضو میں مسواک کا ذکر نہیں، اگرچہ آپ نے ہر وضو کے ساتھ مسواک کی تاکید فرمائی ہے۔
➋ مسواک اسم آلہ ہے، یعنی جس چیز سے بھی منہ کی صفائی ممکن ہو، خواہ وہ درخت کی لکڑی ہو یا بالوں والا برش یا کوئی محلول وغیرہ۔ لیکن افضل یہ ہے کہ مسواک پیلو کے درخت کی ہو کیونکہ اس میں سنت پر عمل کے ساتھ ساتھ طبی فوائد کا حصول بھی ہے۔ والله أعلم
«يَشُوصُ» کے معنی دانتوں کو ملنے اور صاف کرنے کے ہیں۔ امام خطابی رحمہ اللہ اس ملنے کی کیفیت کی بابت لکھتے ہیں کہ دانتوں کو مسواک کے ساتھ عرض کے بل صاف کرنا «شوص» کہلاتا ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ مسواک کے ساتھ دانتوں کو اوپر سے نیچے کی جانب صاف کرنا «شوص» ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: ذخيرة العقبىٰ، شرح سنن النسائي للعلامة علي بن آدم إيتوبي: 226/1
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث286  
´مسواک کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لیے اٹھتے تو مسواک سے دانت و منہ صاف کرتے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 286]
اردو حاشہ:
(1)
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے اس لیے عبادت کے موقع پر ظاہری صفائی کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔
وضو کے ساتھ ساتھ ظاہری صفائی کا ایک ذریعہ مسواک بھی ہے جس کے بارے میں رسول اللہ نے بہت تاکید فرمائی ہے۔

(2)
منہ اور زبان اللہ کے ذکر کا ذریعہ ہیں لہذا اللہ کا نام لینے کے لیے ان کی صفائی کا اہتمام ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نماز کے لیے وضو کو شرط قراردیا گیا ہےجس میں منہ کی صفائی کرنے والی دو چیزیں شامل ہیں یعنی کلی اور مسواک۔

(3)
نیند کی وجہ سے منہ میں ایک بدبو پیدا ہوجاتی ہے جس کے ازالے کے لیے بیدار ہونے پر منہ کی صفائی اور مسواک کی ضرورت ہے خواہ یہ بیداری نفل نماز (تہجد)
کے لیے ہو یا فرض (فجر)
نماز کے لیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 286   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.