الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
1. باب مَا جَاءَ فِي الَّذِي يُفَسِّرُ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ
1. باب: اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرنے والے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2951
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا سويد بن عمرو الكلبي، حدثنا ابو عوانة، عن عبد الاعلى، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اتقوا الحديث عني إلا ما علمتم، فمن كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار، ومن قال في القرآن برايه فليتبوا مقعده من النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو الْكَلْبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری طرف سے کوئی بات اس وقت تک نہ بیان کرو جب تک کہ تم (اچھی طرح) جان نہ لو کیونکہ جس نے جان بوجھ کر جھوٹی بات میری طرف منسوب کی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے اور جس نے قرآن میں اپنی عقل و رائے سے کچھ کہا وہ بھی اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف) (تراجع الالبانی 158)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (235)، نقد التاج، الضعيفة (1783)، صفة الصلاة // ضعيف الجامع الصغير وزيادته (114) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2951) إسناده ضعيف / انظر الحديث السابق: 2950

   جامع الترمذي2951عبد الله بن عباساتقوا الحديث عني إلا ما علمتم من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار
   مشكوة المصابيح232عبد الله بن عباساتقوا الحديث عني إلا ما علمتم فمن كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 232  
´جھوٹی حدیث بیان کرنے پر وعید`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .»
. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری طرف سے حدیثوں کو بیان کرنے سے بچتے رہو۔ صرف ان ہی حدیثوں کو بیان کرو جن کو تم میری طرف سے سچ جانتے ہو، جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا اس کو چاہیے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور تم مجھ سے حدیث بیان کرنے میں احتیاط کرو جب تک تمہیں اس کا علم نہ ہو کا ذکر نہیں کیا۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 232]

تحقیق الحدیث:
اس کی سند ضعیف ہے۔
◄ اسے ترمذی، احمد [1؍293 ح2675، 1؍323 ح2974، 1؍327 ح3024]، ابن ابی شیبہ [المصنف 8؍573 ح26244، المسند بحواله بيان الوهم والايهام لابن القطان 5؍253 ح2459]، دارمی [1؍76 ح238]، طحاوی [شرح مشكل الآثار 1؍358 ح392]، طبرانی [المعجم الكبير 12؍35 -36 ح12393]، ابویعلیٰ الموصلی [المسند 4؍228 ح2338، 5؍11۔ ح2721]، بغوی [شرح السنه 1؍ 257 ح117، وقال: هذا حديث حسن] اور قاضی محمد بن سلامہ القضاعی [مسند الشهاب 1؍327 ح554] نے «ابوعوانه الوضاح بن عبدالله اليشكري عن عبدالاعليٰ بن عامر الثعلبي عن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنه» کی سند سے روایت کیا ہے۔
◄ اسے امام ترمذی اور بغوی نے حسن کہا، لیکن یہ سند عبدالاعلیٰ بن عامر کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اس (عبدالاعلیٰ) کے بارے میں ہیثمی نے کہا:
«والأكثر عليٰ تضعيفه»
اور اکثر اس کی تضعیف پر ہیں۔ [مجمع الزوائد 1؍147]
یعنی اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے اور جسے جمہور محدثین ضعیف قرار دیں وہ ضعیف ہی ہوتا ہے۔
◄ عبدالاعلیٰ الثعلبی کے بارے میں حافظ ذہبی نے فرمایا:
«لين ضعفه أحمد»
وہ کمزور ہے، اسے احمد (بن حنبل) نے ضعیف قرار دیا۔ [الكاشف 2؍ 130]
◄ امام أحمد نے فرمایا:
«عبد الأعليٰ الثعلبي ضعيف الحديث عبدالاعليٰ الثعلبي»
ضعیف الحدیث ہے۔ [كتاب العلل ومعرفة الرجال 1؍394 فقره: 787]
◄ بطور تنبیہ عرض ہے کہ عبدالوہاب بن ابی عصمہ العکبری (توثیق نامعلوم): «ثنا أحمد بن حميد عن أحمد بن حنبل» کی سند سے عبدالاعلیٰ مذکور کے بارے میں مروی ہے کہ «منكر الحديث عن سعيد بن جبير» یعنی سعید بن جبیر سے وہ منکر حدیثیں بیان کرتا تھا۔ [الكامل لابن عدي 5؍1953]
↰ اس کی سند ابن ابی عصمہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔

تنبیہ نمبر ①
حافظ ابن القطان الفاسی نے روایت مذکورہ کو مسند ابن ابی شیبہ سے عبدالاعلیٰ کی سند کے ساتھ تقل کر کے کہا:
«فالحديث صحيح من هذا الطريق»
پس اس سند سے حدیث صحیح ہے۔ [بيان الوهم والايهام 5؍253]
یہ عجیب وہم ہے، کیونکہ خود ابن القطان نے ایک روایت کو عبدالاعلیٰ الثعلبی کی وجہ سے «لا يصح» یعنی غیر صحیح قرار دیا اور محدثین کرام سے عبدالاعلیٰ مذکور پر جرح نقل کر رکھی ہے۔ دیکھئے: [بيان الوهم والايهام 4؍211 ح1702]

تنبیہ نمبر ②
ابن جریر طبری نے کہا:
«حدثنا ابن حميد قال: حدثنا جرير عن ليث عن بكر عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال: من تكلم فى القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار»
ہمیں (محمد) بن حمید (الرازی) نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں جریر (بن عبدالحمید) نے حدیث بیان کی، انہوں نے لیث (بن ابی سلیم) سے، اس نے بکر (؟) سے، اس نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (موقوفاً) بیان کیا: جس نے قرآن میں اپنی رائے کے ساتھ کلام کیا تو وہ اپنا ٹھکانا آگ میں تلاش کرے۔ [تفسير طبري ج1 ص27]
◄ اس روایت کی سند تین وجہ سے ضعیف ہے:
➊ محمد بن حمید الرازی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف اور مجروح ہے۔
➋ لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ دیکھئے: [البدر المنير لابن الملقن 7؍227 خلاصة البدر المنير 78] اور [زوائد ابن ماجه للبوصيري: 208]
➌ بکر کے تعین میں نظر ہے۔
◄ حسین سلیم اسد (ایک عربی محقق) نے (محمد) ابن حمید (الرازی) کو عبد بن حمید (!) لیث کو لیث بن سعد (!) اور بکر کو بکر بن سوادہ (!) قرار دے کر لکھا ہے:
«وهذا إسناد صحيح»
اور یہ سند صحیح ہے۔ [مسند ابي يعليٰ كا حاشيه 9؍228۔ 229 ح2338]
↰ یہ عجیب وہم ہے اور ضعیف راویوں کی اس سند کو صحیح کہنا تو بلکل غلط ہے۔

فائدہ:
«من كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار»
والی حدیث صحیح بخاری [110] اور صحیح مسلم [3] میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ثابت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے متواتر ہے۔ نیز دیکھئے: [اضواء المصابيح: حديث 233]، [سنن ترمذي 2257]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 232   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.