122. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایک مہینے کی راہ سے اللہ نے میرا رعب (کافروں کے دلوں میں) ڈال کر میری مدد کی ہے۔
(122) Chapter. The Statement of the prophet (p.b.u.h): I have been made victorious for a distance of one month journey with terror (cast in the hearts of the enemy).
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله ان ابن عباس رضي الله عنهما، اخبره ان ابا سفيان، اخبره:" ان هرقل ارسل إليه وهم بإيلياء، ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما فرغ من قراءة الكتاب كثر عنده الصخب، فارتفعت الاصوات واخرجنا، فقلت: لاصحابي حين اخرجنا لقد امر امر ابن ابي كبشة إنه يخافه ملك بني الاصفر".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، أَخْبَرَهُ:" أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ، فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ: لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ نے، انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک جب شاہ روم ہرقل کو ملا تو) اس نے اپنا آدمی انہیں تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت ایلیاء میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آخر (طویل گفتگو کے بعد) اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگوایا۔ جب وہ پڑھا جا چکا تو اس کے دربار میں ہنگامہ برپا ہو گیا (چاروں طرف سے) آواز بلند ہونے لگی۔ اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ جب ہم باہر کر دئیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کا معاملہ تو اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: Abu Sufyan said, "Heraclius sent for me when I was in 'llya' (i.e. Jerusalem). Then he asked for the letter of Allah's Apostle and when he had finished its reading there was a great hue and cry around him and the voices grew louder and we were asked to quit the place. When we were turned out, I said to my companions, 'The cause of Ibn Abi Kabsha has become conspicuous as the King of Bani Al- Asfar is afraid of him.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 221
بينا أنا بالشأم إذ جيء بكتاب من النبي إلى هرقل قال وكان دحية الكلبي جاء به فدفعه إلى عظيم بصرى فدفعه عظيم بصرى إلى هرقل قال فقال هرقل هل ها هنا أحد من قوم هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقالوا نعم قال فدعيت في نفر من قريش فدخلنا على هرقل فأجلسنا بين يديه فقا
هرقل أرسل إليه وهم بإيلياء ثم دعا بكتاب رسول الله فلما فرغ من قراءة الكتاب كثر عنده الصخب فارتفعت الأصوات وأخرجنا فقلت لأصحابي حين أخرجنا لقد أمر أمر ابن أبي كبشة إنه يخافه ملك بني الأصفر
بينا أنا بالشأم إذ جيء بكتاب من رسول الله إلى هرقل يعني عظيم الروم قال وكان دحية الكلبي جاء به فدفعه إلى عظيم بصرى فدفعه عظيم بصرى إلى هرقل فقال هرقل هل هاهنا أحد من قوم هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي قالوا نعم قال فدعيت في نفر من قريش فدخلنا على هرقل فأجلسن
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2978
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایک مہینے کی راہ سے اللہ نے میرا رعب (کافروں کے دلوں میں) ڈال کر میری مدد کی ہے` «. . . أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، أَخْبَرَهُ:" أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ، فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ: لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ . . .» ”. . . ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک جب شاہ روم ہرقل کو ملا تو) اس نے اپنا آدمی انہیں تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت ایلیاء میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آخر (طویل گفتگو کے بعد) اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگوایا۔ جب وہ پڑھا جا چکا تو اس کے دربار میں ہنگامہ برپا ہو گیا (چاروں طرف سے) آواز بلند ہونے لگی۔ اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ جب ہم باہر کر دئیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کا معاملہ تو اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2978] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2978 کا باب: «بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ»:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہوگی کہ لفظی مطابقت کے لحاظ سے ابوسفیان رحمہ اللہ کا فرمان: «إنه يخافه ملك بني الأصفر» کہ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرتے ہیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «موضع الترجمة من خبر أبى سفيان قوله: ”يخافه ملك بني الأصفر“.»[المستواري، ص: 167]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «والغرض منه هنا قوله: ”إنه يخاف ملك بني الأصفر“.»[فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یعنی ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرنا، یہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو ہے، مزید اگر غور کیا جائے تو یہ لوگ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک دیا گیا تھا وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوسوں دور تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «لانه كان بين المدينة و بين المكان الذى كان قيصر ينزل فيه مدة شهر أو نحوه.»[فتح الباري، ج 6، ص: 159] ”یقینا مدینے اور وہ جگہ جہاں قیصر ہے دونوں میں ایک ماہ یا کچھ لگ بھگ کی مسافت ہے۔“
علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
شام اور حجاز کے درمیان ایک ماہ یا اس سے زائد مسافت ہے۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 236]
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مطابقة حديث أبى سفيان للترجمة قوله انه ليخافه ملك بني الأصفر صفود كان بالشام، و بين الشام و الحجاز مسيرة شهر.»[مناسبات تراجم البخاري، ص: 88] ”ابوسفیان رحمہ اللہ کی حدیث میں ترجمۃ الباب سے مطابقت یہ ہے کہ ابوسفیان رحمہ اللہ نے فرمایا: «انه ليخافه ملك بني الأصفر» اور وہ شام میں تھے، شام اور حجاز کے درمیان ایک مہینے کی مسافت ہے۔“
فائدہ:
ہم یہاں پر عرب کا نقشہ واضح کر رہے ہیں، نقشہ کو دیکھ کر آپ مسافت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2978
2978. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے انھیں حضرت ابوسفیان ؓ نے بتایا کہ (شاہ روم) ہرقل جب بیت المقدس میں تھا تو اس نے انھیں پیغام بھیجا۔ پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا مکتوب گرامی منگوایا۔ جب اسے پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے پڑھنے پر بہت شور و غل ہوا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ پھر ہمیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابوکبشہ کا معاملہ تو بہت زور پکڑگیا ہے کہ رومیوں کا بادشاہ اس سے ڈر رہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2978]
حدیث حاشیہ: شام کا ملک جہاں اس وقت ہرقل تھا مدینہ سے ایک مہینہ کی راہ پر ہے‘ تو باب کا مطلب نکل آیا کہ آنحضرتﷺ کا رعب ایک مہینے کی راہ سے ہرقل پر پڑا۔ آپ کے بے شمار معجزات میں سے یہ بھی آپ کا اہم معجزہ تھا۔ آپ کے دشمن جو آپ سے صدہا میلوں کے فاصلے پر رہتے تھے وہ وہاں سے ہی بیٹھے ہوئے آپ کے رعب سے مرعوب رہا کرتے تھے۔ (ﷺ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2978
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2978
2978. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے انھیں حضرت ابوسفیان ؓ نے بتایا کہ (شاہ روم) ہرقل جب بیت المقدس میں تھا تو اس نے انھیں پیغام بھیجا۔ پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا مکتوب گرامی منگوایا۔ جب اسے پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے پڑھنے پر بہت شور و غل ہوا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ پھر ہمیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابوکبشہ کا معاملہ تو بہت زور پکڑگیا ہے کہ رومیوں کا بادشاہ اس سے ڈر رہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2978]
حدیث حاشیہ: مدینہ طیبہ اور شام جہاں شاہ روم قیصر رہتا تھا کے درمیان ایک ماہ کی مسافت تھی۔ اسی طرح جب اس نے تبوک کے باڈر پر اپنی فوجیں جمع کیں اور رسول اللہ ﷺ کو علم ہوا تو آپ مدینہ طیبہ سے بھاری نفری لے کر اس کے مقابلے کے لیے نکلے۔ مدینہ طیبہ سے تبوک ایک ماہ کی مسافت پر تھا قیصر پر اس قدر رعب پڑا کہ اسے بھاگنے میں عافیت نظر آئی۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ گیا۔ رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا کہ سینکڑوں میل دور بھی دشمن آپ سے مرعوب رہتا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2978