26. باب: احصار کے وقت احرام کھولنے کا جواز، قران کا جواز اور قارن کے لئے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کا جواز۔
Chapter: It is permissible to exit Ihram if one is prevented from completing Hajj; It is permissible to perform Qiran and the pilgrim performing Qiran should perform just one Tawaf and one Sa'i
وحدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما خرج في الفتنة معتمرا، وقال: إن صددت عن البيت صنعنا كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج فاهل بعمرة، وسار حتى إذا ظهر على البيداء التفت إلى اصحابه، فقال: " ما امرهما إلا واحد: اشهدكم اني قد اوجبت الحج مع العمرة "، فخرج حتى إذا جاء البيت طاف به سبعا، وبين الصفا والمروة سبعا، لم يزد عليه، وراى انه مجزئ عنه واهدى.وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا خَرَجَ فِي الْفِتْنَةِ مُعْتَمِرًا، وَقَالَ: إِنْ صُدِدْتُ عَنِ الْبَيْتِ صَنَعْنَا كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ فَأَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَسَارَ حَتَّى إِذَا ظَهَرَ عَلَى الْبَيْدَاءِ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: " مَا أَمْرُهُمَا إِلَّا وَاحِدٌ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ الْحَجَّ مَعَ الْعُمْرَةِ "، فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا جَاءَ الْبَيْتَ طَافَ بِهِ سَبْعًا، وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعًا، لَمْ يَزِدْ عَلَيْهِ، وَرَأَى أَنَّهُ مُجْزِئٌ عَنْهُ وَأَهْدَى.
یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: میں نے امام مالک کے سامنے (حدیث کی) قراءت کی، انھوں نے نافع سے روایت کی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فتنے کے ایام میں عمرے کے لیے نکلے اور کہا: اگر مجھے بیت اللہ جا نے سے روک دیا گیا تو ہم ویسے ہی کریں گے جیسے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کیا تھا۔وہ (مدینہ سے) نکلے اور (میقات سے) عمرے کا تلبیہ پکا را، اور چل پرے جب مقا م بیداء (کی بلندی) پر نمودار ہو ئے تو اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: "دونوں (حج وعمرہ) کا معاملہ ایک ہی جیسا ہے۔میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کے ساتھ حج کی نیت بھی کر لی ہے۔پھر آپ نکل پڑے حتی کہ بیت اللہ پہنچے تو اس کے (گرد) سات چکر لگا ئے۔ اور صفامروہ کے مابین بھی سات چکر پو رے کیے، ان پر کوئی اضافہ نہیں کیا۔ان کی را ئے تھی کہ یہی (ایک طواف اور ایک سعی) ان کی طرف سے کا فی ہے اور (بعدازاں) انھوں نے (حج قران ہو نے کی بنا پر) قربانی کی۔
نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتنہ کے دور میں عمرہ کرنے کے لیے نکلے، اور فرمایا: اگر مجھے بیت اللہ پہنچنے سے روک دیا گیا، تو ہم اس طرح کریں گے، جیسا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کیا تھا، وہ (مدینہ) سے نکلے اور (میقات سے) عمرہ کا احرام باندھا اور چل دئیے، جب مقام بیداء پر پہنچے، اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، حج اور عمرہ کا معاملہ یکساں ہے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج کی بھی نیت کر لی ہے، پھر چل پڑے، جب بیت اللہ پہنچے تو اس کے سات چکر لگائے اور صفا اور مروہ کے درمیان بھی سات چکر لگائے، اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا، ان کی رائے میں ان کے لیے یہی کافی تھا، اور انہوں نے قربانی کی۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2989
1
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ احصار کے بارے میں اختلاف ہے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے نزدیک جو چیز بھی بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے، دشمن ہو یا مرض و زخم یا کسی قسم کا خوف وخطرہ وہ احصار ہے اور احناف کا موقف بھی یہی ہے، لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، کے نزدیک احصار کا تعلق صرف دشمن سے ہے اس کے سوا کسی صورت میں احرام کھولنا جائز نہیں ہے ہر صورت میں جب موقعہ ملے گا۔ بیت اللہ کا طواف کر کے احرام کھولے گا۔ 2۔ فتنہ سے مراد جیسا کہ اگلی حدیث میں آرہا ہے، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حجاج بن یوسف کے درمیان جنگ ہونے کا خطرہ ہے جس کا تعلق 72ھ سے ہے۔ 3۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج قران کیا تھا اور اس کے لیے صرف ایک سعی کی تھی جو طواف قدوم کے ساتھ کر لی تھی بعد میں طواف افاضہ کے ساتھ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کی تھی اور حج قران کے لیے قربانی دی تھی جس پر امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے سوا تمام آئمہ کا اتفاق ہے، امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قربانی صرف متمتع پر لازم ہے قارن پر قربانی نہیں ہے۔