الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
7. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَنْعَامِ
7. باب: سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3067
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عيسى بن يونس، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: لما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم سورة الانعام آية 82 شق ذلك على المسلمين، فقالوا: يا رسول الله، واينا لا يظلم نفسه؟ قال: " ليس ذلك إنما هو الشرك، الم تسمعوا ما قال لقمان لابنه: يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم سورة لقمان آية 13 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ؟ قَالَ: " لَيْسَ ذَلِكَ إِنَّمَا هُوَ الشِّرْكُ، أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم» جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی (الأنعام ۸۲)، نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ بات گراں گزری، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں کون ایسا ہے جس سے اپنی ذات کے حق میں ظلم و زیادتی نہ ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: (تم غلط سمجھے) ایسی بات نہیں ہے، اس ظلم سے مراد صرف شرک ہے، کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کیا نصیحت کی تھی؟ انہوں نے کہا تھا: «يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم» اے میرے بیٹے! شرک نہ کر، شرک بہت بڑا گناہ ہے (لقمان: ۱۳)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 23 (32)، وأحادیث الأنبیاء 8 (3360)، و41 (3428، 3429)، تفسیر الإنعام ولقمان 1 (4776)، والمرتدین 1 (6918)، و9 (6937)، صحیح مسلم/الإیمان 56 (124) (تحفة الأشراف: 9420) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري3360عبد الله بن مسعودلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم قلنا أينا لا يظلم نفسه قال ليس كما تقولون ولم يلبسوا إيمانهم بظلم بشرك أولم تسمعوا إلى قول لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاري6918عبد الله بن مسعودلما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب النبي وقالوا أينا لم يلبس إيمانه بظلم قال رسول الله إنه ليس بذاك ألا تسمعون إلى قول لقمان إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاري4776عبد الله بن مسعودلما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب رسول الله وقالوا أينا لم يلبس إيمانه بظلم قال رسول الله إنه ليس بذاك ألا تسمع إلى قول لقمان لابنه إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاري3428عبد الله بن مسعودلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم قال أصحاب النبي أينا لم يلبس إيمانه بظلم فنزلت لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاري6937عبد الله بن مسعودلما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب النبي وقالوا أينا لم يظلم نفسه قال رسول الله ليس كما تظنون إنما هو كما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاري3429عبد الله بن مسعودلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على المسلمين قالوا أينا لا يظلم نفسه قال ليس ذلك إنما هو الشرك ألم تسمعوا ما قال لقمان لابنه وهو يعظه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح مسلم327عبد الله بن مسعودلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب رسول الله وقالوا أينا لا يظلم نفسه قال رسول الله ليس هو كما تظنون إنما هو كما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   جامع الترمذي3067عبد الله بن مسعودلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على المسلمين قالوا وأينا لا يظلم نفسه قال ليس ذلك إنما هو الشرك ألم تسمعوا ما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6937  
´تاویل کرنے والوں کے بارے میں بیان`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82، شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا: أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ كَمَا تَظُنُّونَ، إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13 . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏» وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا تو صحابہ کو یہ معاملہ بہت مشکل نظر آیا اور انہوں نے کہا ہم میں کون ہو گا جو ظلم نہ کرتا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا مطلب لقمان علیہ السلام کے اس ارشاد میں ہے جو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا تھا «يا بنى لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم‏» کہ اے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بلاشبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: 6937]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6937 کا باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُتَأَوِّلِينَ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں کس طرح مناسبت قائم ہو گی؟ کیوں کہ حدیث میں بظاہر کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی، جو باب کے بیان کردہ مفہوم کے مطابق ہو۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و وجه دخول فى الترجمة من جهة أنه صلى الله عليه وسلم لم يؤاخذ الصحابة بحملهم الظلم فى الآية على عمومة حتي يتناول كل معصية قولهم سار يسور إذا ارتفع ذكره . . . . . .» [فتح الباري لابن حجر: 261/13]
ترجمۃ الباب میں اس حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت مبارکہ میں مذکور ظلم کو اس کے عموم پر محمول کرنے کی وجہ سے کہ ہر معصیت متناول ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مواخذہ نہ فرمایا، بلکہ انہیں معذور جانا، کیوں کہ ظاہر میں یہی تاویل تھی، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اس مراد کی وضاحت فرمائی جس سے اشکال دور ہو گیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لفظ ظلم کی تاویل فرمائی جو کہ عمومیت پر قائم تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس تاویل و عذر کو قبول فرما لیا اور ان پر کسی قسم کا مواخذہ یا نکیر نہیں فرمائی۔ اب گفتگو کا خلاصہ اور باب سے حدیث کی مناسبت اس طرح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کی تاویل شرک کے ساتھ فرمائی جبکہ ظلم کا عمومی اور ظاہری معنی تو گناہ کے ہیں جس میں ہر شخص داخل ہے اور تاویل (جیسا کے باب میں مذکور ہے) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، لہٰذا اسی کی تاویل یقینی طور پر قبول ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مطابقت باب سے حدیث کی اس طرح سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا جب انہوں نے ظلم کی تاویل مطلق گناہ سے کی بلکہ اس کی جگہ انہیں دوسرا صحیح معنی بتایا۔ پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 260   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3067  
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم» جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی (الأنعام ۸۲)، نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ بات گراں گزری، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں کون ایسا ہے جس سے اپنی ذات کے حق میں ظلم و زیادتی نہ ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: (تم غلط سمجھے) ایسی بات نہیں ہے، اس ظلم سے مراد صرف شرک ہے، کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کیا نصیحت کی تھی؟ انہوں نے کہا تھا: «يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم» اے میرے بیٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3067]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی۔
(الأنعام: 82)

2؎:
اے میرے بیٹے! شرک نہ کر۔
شرک بہت بڑا گناہ ہے (لقمان: 13)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3067   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.