الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
10. باب وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ
10. باب: سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3104
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن انس، ان حذيفة قدم على عثمان بن عفان وكان يغازي اهل الشام في فتح ارمينية واذربيجان مع اهل العراق، فراى حذيفة اختلافهم في القرآن، فقال لعثمان بن عفان: يا امير المؤمنين، ادرك هذه الامة قبل ان يختلفوا في الكتاب كما اختلفت اليهود والنصارى، فارسل إلى حفصة ان ارسلي إلينا بالصحف ننسخها في المصاحف، ثم نردها إليك، فارسلت حفصة إلى عثمان بالصحف، فارسل عثمان إلى زيد بن ثابت، وسعيد بن العاص، وعبد الرحمن بن الحارث بن هشام، وعبد الله بن الزبير، ان انسخوا الصحف في المصاحف، وقال للرهط القرشيين الثلاثة، ما اختلفتم انتم وزيد بن ثابت فاكتبوه بلسان قريش فإنما نزل بلسانهم، حتى نسخوا الصحف في المصاحف بعث عثمان إلى كل افق بمصحف من تلك المصاحف التي نسخوا، قال الزهري: وحدثني خارجة بن زيد بن ثابت، ان زيد بن ثابت، قال: فقدت آية من سورة الاحزاب، كنت اسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر سورة الاحزاب آية 23 فالتمستها فوجدتها مع خزيمة بن ثابت، او ابي خزيمة فالحقتها في سورتها، قال الزهري: فاختلفوا يومئذ في التابوت والتابوه، فقال القرشيون: التابوت، وقال زيد: التابوه، فرفع اختلافهم إلى عثمان، فقال: اكتبوه التابوت فإنه نزل بلسان قريش، قال الزهري: فاخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة: ان عبد الله بن مسعود كره لزيد بن ثابت نسخ المصاحف، وقال: يا معشر المسلمين اعزل عن نسخ كتابة المصحف ويتولاها رجل، والله لقد اسلمت وإنه لفي صلب رجل كافر، يريد زيد بن ثابت، ولذلك قال عبد الله بن مسعود: يا اهل العراق اكتموا المصاحف التي عندكم وغلوها، فإن الله يقول ومن يغلل يات بما غل يوم القيامة سورة آل عمران آية 161 فالقوا الله بالمصاحف، قال الزهري: فبلغني ان ذلك كرهه من مقالة ابن مسعود رجال من افاضل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم"، قال: هذا حديث حسن صحيح، وهو حديث الزهري لا نعرفه إلا من حديثه.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ حُذَيْفَةَ قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّامِ فِي فَتْحِ أَرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَرَأَى حُذَيْفَةُ اخْتِلَافَهُمْ فِي الْقُرْآنِ، فَقَالَ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَدْرِكْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ كَمَا اخْتَلَفَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَأَرْسَلَ إِلَى حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ، ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ، فَأَرْسَلَتْ حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ بِالصُّحُفِ، فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَسَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنِ انْسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ، مَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ، حَتَّى نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ بَعَثَ عُثْمَانُ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِنْ تِلْكَ الْمَصَاحِفِ الَّتِي نَسَخُوا، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَحَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، قَالَ: فَقَدْتُ آيَةً مِنْ سُورَةِ الْأَحْزَابِ، كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ سورة الأحزاب آية 23 فَالْتَمَسْتُهَا فَوَجَدْتُهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ فَأَلْحَقْتُهَا فِي سُورَتِهَا، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَاخْتَلَفُوا يَوْمَئِذٍ فِي التَّابُوتِ وَالتَّابُوهِ، فَقَالَ الْقُرَشِيُّونَ: التَّابُوتُ، وَقَالَ زَيْدٌ: التَّابُوهُ، فَرُفِعَ اخْتِلَافُهُمْ إِلَى عُثْمَانَ، فَقَالَ: اكْتُبُوهُ التَّابُوتُ فَإِنَّهُ نَزَلَ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَرِهَ لِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَسْخَ الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ أُعْزَلُ عَنْ نَسْخِ كِتَابَةِ الْمُصْحَفِ وَيَتَوَلَّاهَا رَجُلٌ، وَاللَّهِ لَقَدْ أَسْلَمْتُ وَإِنَّهُ لَفِي صُلْبِ رَجُلٍ كَافِرٍ، يُرِيدُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَلِذَلِكَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ اكْتُمُوا الْمَصَاحِفَ الَّتِي عِنْدَكُمْ وَغُلُّوهَا، فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سورة آل عمران آية 161 فَالْقُوا اللَّهَ بِالْمَصَاحِفِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَبَلَغَنِي أَنَّ ذَلِكَ كَرِهَهُ مِنْ مَقَالَةِ ابْنِ مَسْعُودٍ رِجَالٌ مِنْ أَفَاضِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن الیمان عثمان رضی الله عنہما کے پاس آئے، ان دنوں آپ شام والوں کے ساتھ آرمینیہ کی فتح میں اور عراق والوں کے ساتھ آذر بائیجان کی فتح میں مشغول تھے، حذیفہ رضی الله عنہ نے قرآن کی قرأت میں لوگوں کا اختلاف دیکھ کر عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے کہا: امیر المؤمنین! اس امت کو سنبھالئے اس سے پہلے کہ یہ کتاب (قرآن مجید) کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہو جائے (اور آپس میں لڑنے لگے) جیسا کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں (تورات و انجیل اور زبور) کے بارے میں مختلف ہو گئے۔ تو عثمان رضی الله عنہ نے حفصہ رضی الله عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ (ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے تیار کرائے ہوئے) صحیفے ہمارے پاس بھیج دیں ہم انہیں مصاحف میں لکھا کر آپ کے پاس واپس بھیج دیں گے، چنانچہ ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے پاس یہ صحیفے بھیج دیے۔ پھر عثمان نے زید بن ثابت اور سعید بن العاص اور عبدالرحمٰن بن الحارث بن ہشام اور عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم کے پاس ان صحیفوں کو اس حکم کے ساتھ بھیجا کہ یہ لوگ ان کو مصاحف میں نقل کر دیں۔ اور تینوں قریشی صحابہ سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی الله عنہ میں اختلاف ہو جائے تو قریش کی زبان (و لہجہ) میں لکھو کیونکہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے صحیفے مصحف میں نقل کر لیے تو عثمان نے ان تیار مصاحف کو (مملکت اسلامیہ کے حدود اربعہ میں) ہر جانب ایک ایک مصحف بھیج دیا۔ زہری کہتے ہیں مجھ سے خارجہ بن زید نے بیان کیا کہ زید بن ثابت نے کہا کہ میں سورۃ الاحزاب کی ایک آیت جسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہوئے سنتا تھا اور مجھے یاد نہیں رہ گئی تھی اور وہ آیت یہ ہے «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر» ۱؎ تو میں نے اسے ڈھونڈا، بہت تلاش کے بعد میں اسے خزیمہ بن ثابت کے پاس پایا ۲؎ خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہ کہا یا ابوخزیمہ کہا۔ (راوی کو شک ہو گیا) تو میں نے اسے اس کی سورۃ میں شامل کر دیا۔ زہری کہتے ہیں: لوگ اس وقت (لفظ) «تابوهاور» تابوت میں مختلف ہو گئے، قریشیوں نے کہا «التابوت» اور زید نے «التابوه» کہا۔ ان کا اختلاف عثمان رضی الله عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: «التابوت» لکھو کیونکہ یہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ زہری کہتے ہیں: مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بتایا ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے زید بن ثابت رضی الله عنہما کے مصاحف لکھنے کو ناپسند کیا اور کہا: اے گروہ مسلمانان! میں مصاحف کے لکھنے سے روک دیا گیا، اور اس کام کا والی و کارگزار وہ شخص ہو گیا جو قسم اللہ کی جس وقت میں ایمان لایا وہ شخص ایک کافر شخص کی پیٹھ میں تھا (یعنی پیدا نہ ہوا تھا) یہ کہہ کر انہوں نے زید بن ثابت کو مراد لیا ۳؎ اور اسی وجہ سے عبداللہ بن مسعود نے کہا: عراق والو! جو مصاحف تمہارے پاس ہیں انہیں چھپا لو، اور سنبھال کر رکھو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو کوئی چیز چھپا رکھے گا قیامت کے دن اسے لے کر حاضر ہو گا تو تم قیامت میں اپنے مصاحف ساتھ میں لے کر اللہ سے ملاقات کرنا ۴؎ زہری کہتے ہیں: مجھے یہ اطلاع و خبر بھی ملی کہ کبار صحابہ نے ابن مسعود رضی الله عنہ کی یہ بات ناپسند فرمائی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور یہ زہری کی حدیث ہے، اور ہم اسے صرف انہیں کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/لمناقب 3 (3506)، وفضائل القرآن 2 (4984)، و3 (4987) (تحفة الأشراف: 9783) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مومنوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقع کے) منتظر ہیں (الأحزاب: ۲۳)۔
۲؎: صرف اسی مناسبت سے مؤلف نے اس روایت کو اس باب میں ذکر کیا ہے، ورنہ یہ آیت سورۃ التوبہ کی نہیں ہے جس کی تفسیر کا باب ہے۔
۳؎: عثمان رضی الله عنہ نے اس کام پر جو زید بن ثابت رضی الله عنہ کو لگایا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ابوبکر رضی الله عنہ کے وقت میں زید بن ثابت ہی نے قرآن کو ایک جگہ جمع کرنے کا کام انجام دیا تھا، نیز اس وقت ابن مسعود رضی الله عنہ مدینہ سے دور کوفہ میں تھے، اور معاملہ جلدی کا تھا، عفی اللہ عنہ وعنہم۔
۴؎: ایسا ہوا تھا کہ جب عثمان رضی الله عنہ کا لکھوایا ہوا نسخہ کوفہ پہنچا تو ابن مسعود رضی الله عنہ کے تلامذہ نے ان سے کہا کہ اب آپ اپنا نسخہ ضائع کر دیجئیے، اس پر انہوں نے کہا کہ تمہارے پاس میرا جو نسخہ ہے اسے چھپا کر رکھ دو، اس کو قیامت کے دن لا کر ظاہر کرنا، یہ بڑی شرف کی بات ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3104  
´سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن الیمان عثمان رضی الله عنہما کے پاس آئے، ان دنوں آپ شام والوں کے ساتھ آرمینیہ کی فتح میں اور عراق والوں کے ساتھ آذر بائیجان کی فتح میں مشغول تھے، حذیفہ رضی الله عنہ نے قرآن کی قرأت میں لوگوں کا اختلاف دیکھ کر عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے کہا: امیر المؤمنین! اس امت کو سنبھالئے اس سے پہلے کہ یہ کتاب (قرآن مجید) کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہو جائے (اور آپس میں لڑنے لگے) جیسا کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں (تورات و انجیل اور زبور) کے بارے میں مختلف ہو گئے۔ تو عثمان رضی الله عنہ نے حفصہ رضی الله عنہا کے پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3104]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مومنوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا،
بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقع کے) منتظر ہیں (الأحزاب: 23)

2؎:
صرف اسی مناسبت سے مؤلف نے اس روایت کو اس باب میں ذکرکیا ہے،
ورنہ یہ آیت سورہ توبہ کی نہیں ہے جس کی تفسیرکا باب ہے۔

3؎:
عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کام پر جو زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کو لگایا تھا تواس کی وجہ یہ تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت میں زیدبن ثابت ہی نے قرآن کو ایک جگہ جمع کرنے کا کام انجام دیا تھا،
نیز اس وقت ابن مسعود رضی اللہ عنہ مدینہ سے دورکوفہ میں تھے،
اورمعاملہ جلدی کا تھا،
عفی اللہ عنہ وعنہم۔

4؎:
ایسا ہوا تھا کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کا لکھویا ہوا نسخہ کوفہ پہنچا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تلامذہ نے ان سے کہا کہ اب آپ اپنا نسخہ ضائع کر دیجئے،
اس پر انہوں نے کہا کہ تمہارے پاس میرا جو نسخہ ہے اسے چھپا کررکھ دو،
اس کو قیامت کے دن لا کر ظاہرکرنا،
یہ بڑی شرف کی بات ہوگی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3104   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.