الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
Funerals (Kitab Al-Janaiz)
28. باب فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ
28. باب: میت پر رونا۔
Chapter: Weeping For The Deceased.
حدیث نمبر: 3125
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن عاصم الاحول، قال: سمعت ابا عثمان، عن اسامة بن زيد: ان ابنة لرسول الله صلى الله عليه وسلم ارسلت إليه، وانا معه، وسعد، واحسب ابيا ان ابني او بنتي قد حضر، فاشهدنا، فارسل يقرئ السلام، فقال: قل" لله ما اخذ وما اعطى، وكل شيء عنده إلى اجل، فارسلت تقسم عليه، فاتاها، فوضع الصبي في حجر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونفسه تقعقع، ففاضت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له سعد: ما هذا؟ قال: إنها رحمة وضعها الله في قلوب من يشاء، وإنما يرحم الله من عباده الرحماء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ: أَنَّ ابْنَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِ، وَأَنَا مَعَهُ، وَسَعْدٌ، وَأَحْسَبُ أُبَيًّا أَنَّ ابْنِي أَوْ بِنْتِي قَدْ حُضِرَ، فَاشْهَدْنَا، فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلَامَ، فَقَالَ: قُلْ" لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ إِلَى أَجَلٍ، فَأَرْسَلَتْ تُقْسِمُ عَلَيْهِ، فَأَتَاهَا، فَوُضِعَ الصَّبِيُّ فِي حِجْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ، فَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: مَا هَذَا؟ قَالَ: إِنَّهَا رَحْمَةٌ وَضَعَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ مَنْ يَشَاءُ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ".
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو یہ پیغام دے کر بلا بھیجا کہ میرے بیٹے یا بیٹی کے موت کا وقت قریب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اس وقت میں اور سعد اور میرا خیال ہے کہ ابی بھی آپ کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواباً) سلام کہلا بھیجا، اور فرمایا: ان سے (جا کر) کہو کہ اللہ ہی کے لیے ہے جو چیز کہ وہ لے، اور اسی کی ہے جو چیز کہ وہ دے، ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ پھر زینب رضی اللہ عنہا نے دوبارہ بلا بھیجا اور قسم دے کر کہلایا کہ آپ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، بچہ آپ کی گود میں رکھا گیا، اس کی سانس تیز تیز چل رہی تھی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھیں بہ پڑیں، سعد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ رحمت ہے، اللہ جس کے دل میں چاہتا ہے اسے ڈال دیتا ہے، اور اللہ انہیں بندوں پر رحم کرتا ہے جو دوسروں کے لیے رحم دل ہوتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجنائز 32 (1284)، والمرضی 9 (5655)، والقدر 4 (6602)، والأیمان والنذور 9 (6655)، والتوحید 2 (7377)، 25 (7448)، صحیح مسلم/الجنائز 6 (923)، سنن النسائی/الکبري الجنائز 22 (1969)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 53 (1588)، (تحفة الأشراف: 98)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/204، 206، 207) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Usamah bin Zaid: A daughter of Messenger of Allah ﷺ sent him message while I and Saad were with him and I think Ubayy was also there: My son or daughter (the narrator is doubtful) is dying, so come to us. He sent her greeting, saying at the same time: Say! What Allah has been taken belongs to Him, what He has given (belongs to Him), and He has appointed time for everything. She then sent a message adjuring him (to come to her). So he came to her and the child who was on the point of death was placed in the hearts of those whom He wished. Allah shows compassion only to those of His servants who are compassionate.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3119


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1284) صحيح مسلم (923)

   صحيح البخاري7448أسامة بن زيدإنما يرحم الله من عباده الرحماء
   صحيح البخاري1284أسامة بن زيديرحم الله من عباده الرحماء
   صحيح مسلم2135أسامة بن زيديرحم الله من عباده الرحماء
   سنن أبي داود3125أسامة بن زيدإنما يرحم الله من عباده الرحماء
   سنن ابن ماجه1588أسامة بن زيدالرحمة التي جعلها الله في بني آدم وإنما يرحم الله
   المعجم الصغير للطبراني1054أسامة بن زيدمن لا يرحم لا يرحم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1588  
´میت پر رونے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیٹی کا ایک لڑکا مرنے کے قریب تھا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب میں کہلا بھیجا: جو لے لیا وہ اللہ ہی کا ہے، اور جو دے دیا وہ بھی اللہ ہی کا ہے، اور اس کے پاس ہر چیز کا ایک مقرر وقت ہے، انہیں چاہیئے کہ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں لڑکی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ بلا بھیجا، اور قسم دلائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور تشریف لائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، آپ کے ساتھ میں بھی اٹھا، آپ کے ساتھ معاذ بن جبل، ابی ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1588]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مصیبت کے وقت صبر اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے۔

(2)
انسان کو مصیبت کے وقت یہ سوچنا چاہیے۔
کہ جو کچھ اللہ نے ہم سے لیا ہے۔
وہ ہمارا نہیں تھا بلکہ اللہ ہی کا تھا لہٰذا ہم نے اللہ کی امانت واپس کی ہے۔

(3)
یہ اللہ کا احسان ہے کہ وہ اپنی امانت ایک مدت تک ہمارے پاس رہنے دیتا ہے۔
اور ہم اس سے فائدہ اُٹھاتے اور دل خوش کرتے ہیں۔
اور جب وہ اپنی امانت واپس لیتا ہے۔
تو پھر صبر کرنے پر بھی ہمیں اجر وثواب عطا فرماتا ہے۔
یہ بھی اس کا ایک احسان ہے۔

(4)
دل کا غم اور آنکھوں سے آنسو بہنا صبر کے منافی نہیں۔

(5)
کسی کو قسم دے کر کوئی مطالبہ کرنا جائز ہے۔

(6)
جس کام کے لئے قسم دی جائے اگر وہ شرعا ممنوع نہ ہو تو اسے پورا کرنا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔

(7)
غم کا موقع ہو یا خوشی کا اگر مسئلہ پوچھا جائے تو وضاحت کردینی چاہیے۔

(8)
اپنى یا کسی کی مصیبت پر غمگین ہونا نرم دلی کی علامت ہے۔
جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔

(9)
اللہ کی مخلوق پر رحمت وشفقت کرنے سے بندے کواللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔

(10)
وفات کے وقت تمام رشتے داروں کا حاضر ہونا ضروری نہیں تاہم گھر والوں کی یہ خواہش جائز ہے کہ ایسے وقت میں نیک لوگ قریب ہوں تاکہ ان کی دعا اور برکت سے جان کنی کا مرحلہ آسانی سے طے ہوجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1588   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3125  
´میت پر رونا۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو یہ پیغام دے کر بلا بھیجا کہ میرے بیٹے یا بیٹی کے موت کا وقت قریب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اس وقت میں اور سعد اور میرا خیال ہے کہ ابی بھی آپ کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواباً) سلام کہلا بھیجا، اور فرمایا: ان سے (جا کر) کہو کہ اللہ ہی کے لیے ہے جو چیز کہ وہ لے، اور اسی کی ہے جو چیز کہ وہ دے، ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔‏‏‏‏ پھر زینب رضی اللہ عنہا نے دوبارہ بلا بھیجا اور قسم دے کر کہلایا کہ آپ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ صلی ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3125]
فوائد ومسائل:

میت پر فرط غم سے آنکھوں سے آنسووں کا نکل آنا۔
ایک فطری امر ہے۔
اس لئے یہ کوئی معیوب بات نہیں۔
بلکہ یہ دل کی نرمی اور رحم دلی کی علامت ہے۔


جس شخص کا دل سخت ہو۔
ایسے موقعوں پر فطری طور پر جو غم ہوتا ہے۔
اس کا جائز بھی جائز طور پر اظہار نہ ہو تو یہ سنگ دلی ہے۔
جو ممدوح نہیں ہے۔
یہ کیفیت قابل علاج ہے۔
اور اس کا علاج ہے موت کو کثرت سے یاد کرنا۔
قبرستان کی زیارت اور یتیم کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنا۔
ان اعمال کو بجالانے سے دل کی سختی نرمی سے بدل سکتی ہے۔


کہیں قریب میں بھی کوئی پیغام لینا دینا ہو تو حسن ادب یہ ہے کہ پہلے سلام کہلایا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3125   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.