الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
The Book of Al-Jizya and The Stoppage of War
9. بَابُ أَمَانِ النِّسَاءِ وَجِوَارِهِنَّ:
9. باب: (مسلمان) عورتیں اگر کسی (غیرمسلم) کو امان اور پناہ دیں؟
(9) Chapter. The offering of shelter and peace to someone by women.
حدیث نمبر: 3171
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، ان ابا مرة مولى ام هانئ ابنة ابي طالب، اخبره انه سمع ام هانئ ابنة ابي طالب، تقول: ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح فوجدته يغتسل وفاطمة ابنته تستره فسلمت عليه، فقال:" من هذه؟ فقلت: انا ام هانئ بنت ابي طالب، فقال: مرحبا بام هانئ فلما فرغ من غسله قام فصلى ثمان ركعات ملتحفا في ثوب واحد، فقلت: يا رسول الله زعم ابن امي علي انه قاتل رجلا قد اجرته فلان بن هبيرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد اجرنا من اجرت يا ام هانئ، قالت ام هانئ: وذلك ضحى".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ ابْنَةِ أَبِي طَالِبٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ ابْنَةِ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" مَنْ هَذِهِ؟ فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ قَامَ فَصَلَّى ثَمَانَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ زَعَمَ ابْنُ أُمِّي عَلِيٌّ أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُهُ فُلَانُ بْنُ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ، قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ: وَذَلِكَ ضُحًى".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عمرو بن عبداللہ کے غلام ابوالنضر نے، انہیں ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام ابومرہ نے خبر دی، انہوں نے ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ بیان کرتی تھیں کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی (مکہ میں) میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے تھے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کی صاحبزادی پردہ کئے ہوئے تھیں۔ میں نے آپ کو سلام کیا، تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کون صاحبہ ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں ام ہانی بنت ابی طالب ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آؤ اچھی آئیں، ام ہانی! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل سے فارغ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر آٹھ رکعت چاشت کی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک کپڑا جسم اطہر پر لپیٹے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ماں کے بیٹے علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ ایک شخص کو جسے میں پناہ دے چکی ہوں، قتل کئے بغیر نہیں رہیں گے۔ یہ شخص ہبیرہ کا فلاں لڑکا (جعدہ) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی، اسے ہماری طرف سے بھی پناہ ہے۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ وقت چاشت کا تھا۔

Narrated Um Hani: the daughter of Abu Talib: I went to Allah's Apostle on the day of the conquest of Mecca and found him taking a bath, and his daughter Fatima was screening him. I greeted him and he asked, "Who is that?" I said, "I, Um Hani bint Abi Talib." He said, "Welcome, O Um Hani." When he had finished his bath, he stood up and offered eight rak`at while dressed in one garment. I said, "O Allah's Apostle! My brother `Ali has declared that he will kill a man to whom I have granted asylum. The man is so and-so bin Hubaira." Allah's Apostle said, "O Um Hani! We will grant asylum to the one whom you have granted asylum." (Um Hani said, "That (visit) took place in the Duha (i.e. forenoon)).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 396


   صحيح البخاري3171فاختة بنت أبي طالبأجرنا من أجرت يا أم هانئ قالت أم هانئ وذلك ضحى
   صحيح البخاري6158فاختة بنت أبي طالبأجرنا من أجرت يا أم هانئ قالت أم هانئ وذاك ضحى
   صحيح مسلم1669فاختة بنت أبي طالبأجرنا من أجرت يا أم هانئ قالت أم هانئ وذلك ضحى
   جامع الترمذي1579فاختة بنت أبي طالبأجرت رجلين من أحمائي فقال رسول الله قد أمنا من أمنت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1669  
´پردے کے مقام پر غسل کرنا`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ قُلْتُ: أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ . . .»
. . . ‏‏‏‏ ابوطالب کی بیٹی ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہاتے پایا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ایک کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ کئے ہوئے تھیں۔ پھر میں نے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون؟ میں نے عرض کیا کہ ابوطالب کی بیٹی ام ھانی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوش آمدید ام ہانی۔ . . . [صحيح مسلم/كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا/باب اسْتِحْبَابِ صَلاَةِ الضُّحَى وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ...: 1669]

تخريج الحديث:
[193۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 4 باب الصلاة فى الثوب الواحد ملتحفا به 280، مسلم 336، ترمذي 2734]
فھم الحدیث: معلوم ہوا کہ کسی پردے کے مقام پر غسل کرنا چاہئیے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ عورت کا احترام کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پناہ کو قبول فرمایا ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 193   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1579  
´غلام اور عورت کو امان دینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1579]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بعض روایات میں ہے کہ مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے،
اس حدیث اور ام ہانی کے سلسلہ میں آپﷺ کا فرمان:
قد أجرنا من أجرت يا أم هاني سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عورت بھی کسی کو پناہ دے سکتی ہے،
اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کسی مسلمان کے لیے توڑ ناجائز نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1579   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3171  
3171. حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے آپ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ آپ کو پردہ کیے ہوئے تھیں۔ میں نےآپ کو سلام عرض کیا تو آپ نے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: خوش آمدید ام ہانی! جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو اٹھے اور ایک ہی کپڑا لپیٹ کر آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں نےعرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میرا ماں جایا بھائی علی کہتا ہے کہ وہ فلاں شخص کو قتل کرے گا جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے، اور وہ فلاں، ہبیرہ کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ام ہانی ؓ! جس کو تو نے پناہ دی اس کو ہم نے بھی پناہ دے دی۔ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں کہ وہ چاشت کا وقت تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3171]
حدیث حاشیہ:
ہبیرہ ام ہانی کے خاوند تھے، جعدہ ان کے بیٹے تھے۔
یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت علی ؓ اپنے بھانجے کو کیوں مارتے، بعضوں نے کہا فلاں ابن ہبیرہ سے حارث بن ہشام محرومی مراد ہیں۔
غرض حدیث سے یہ نکلا کہ عورت کا پناہ دینا درست ہے۔
ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے۔
بعضوں نے کہا امام کو اختیار ہے۔
چاہے اس امان کو منظور کرے چاہے نہ کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3171   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3171  
3171. حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے آپ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ آپ کو پردہ کیے ہوئے تھیں۔ میں نےآپ کو سلام عرض کیا تو آپ نے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: خوش آمدید ام ہانی! جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو اٹھے اور ایک ہی کپڑا لپیٹ کر آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں نےعرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میرا ماں جایا بھائی علی کہتا ہے کہ وہ فلاں شخص کو قتل کرے گا جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے، اور وہ فلاں، ہبیرہ کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ام ہانی ؓ! جس کو تو نے پناہ دی اس کو ہم نے بھی پناہ دے دی۔ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں کہ وہ چاشت کا وقت تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3171]
حدیث حاشیہ:

حضرت ام ہانی ؓ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئیں۔
اس وقت وہ ہبیرہ کے نکاح میں تھیں جن سے ان کی اولاد پیدا ہوئی۔
ان میں سے ایک کانام ہانی تھا جس کی وجہ سے ان کی کنیت ام ہانی تجویز ہوئی۔

ابن ماحبشون کا کہنا ہے:
عورت کا امان دینا مستقل حیثیت نہیں رکھتا بلکہ وہ امام کی اجازت پر موقوف ہے جبکہ جمہور کا اس امر پر اجماع ہے کہ عورت کا امان دینا جائز اور صحیح ہے اور مستقل حیثیت رکھتاہے۔
امام بخاری ؒ نے جمہور کی تائید فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پناہ کو برقراررکھا، نیز حضرت زینب بنت رسول ﷺ نے اپنے شوہر نامدار حضرت ابوالعاص کو پناہ دی تھی۔
اس سے معلوم ہواکہ جسے عورت پناہ دے دے اسے بھی قتل کرنا حرام ہے۔
(عمدة القاری: 521/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3171   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.