حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 347
´گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں`
«. . . عن جابر بن عبد الله انه قال: نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة . . .»
”. . . سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ”ہم نے حدیبیہ والے سال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات آدمیوں کے طرف سے اونٹ اور سات آدمیوں کی طرف سے گائے (بطور قربانی) ذبح کی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 347]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 1318/350، من حديث ما لك به وصرح ابوالزبير بالسماع عند احمد 378/3 ح 15043]
تفقه
➊ گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں اور دوسری حدیث کی رو سے اونٹ کی قربانی میں دس افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ ديكهئے: [سنن الترمذي: 1501، وسند حسن، سنن النسائي:4397، سنن ابن ماجه: 3131]
➋ حدیبیہ والا سال 6 ہجری ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 147/12]
➌ اگر قربانی کے حصہ داروں میں سے ایک شخص ذمی (غیرمسلم) ہو تو علماء کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جائز ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے۔ راجح یہی ہے کہ ذمی کو قربانی میں شریک نہ کیا جائے۔
➍ اگر قربانی کے حصہ داروں میں سے کوئی شخص بدعتی ہے جس کی بدعت بدعت مکفرہ نہیں تو قربانی جائز ہے اور بہتر یہی ہے کہ ذبح کرنے والا صحیح العقیدہ ہو اور کسی بدعتی کو قربانی میں شریک نہ کیا جائے۔
➎ ساری قربانی ایک شخص کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔
➏ اگر گائے یا اونٹ میں مثلاً چھ آدمی شریک ہوں تو ایک آدمی کو دو حصے لینے چاہیئں اور یہ نہ کیا جائے کہ ساتویں حصے کو چھ آدمیوں پر تقسیم کر دیا جائے کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
➐ اگر کسی عذر کی وجہ سے آدمی حرم نہ جا سکے تو اس کی طرف سے قربانی خارج حرم بھی جائز ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ حدود حرم میں یہ قربانی کی جائے۔
➑ سارے گھرو کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کافی ہے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 1505، وسنده حسن وقال: ”حسن صحيح“]
● سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم سارے گھر کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتے تھے۔ [الموطأ 486/2 ح 1069، وسنده صحيح، والسنن الكبريٰ للبيهقي 268/9]
● اس پر قیاس کرتے ہوئے سارے گھر کی طرف سے گائے کا ایک حصہ کافی ہے۔ «والله اعلم»
➒ حج کے علاوہ قربانی کرنا سنت ہے، واجب نہیں ہے۔ دیکھئے: [الموطأ 487/2 قال مالك: الضحية سنة وليست بواجبة ولا أحب لأحد ممن قوي على ثمنها أن يتركها]
➓ اس پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کے حکم میں ہے یعنی گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ دیکھئے کتاب [الاجماع لا بن المنذر 91]
لیکن دیگر دلائل اور احتیاط کی رو سے بہتر یہی ہے کہ اس کی قربانی نہ کی جائے۔ «والله أعلم»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 106