الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
Funerals (Kitab Al-Janaiz)
67. باب فِي الْمَيِّتِ يُدْخَلُ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيْهِ
67. باب: میت کو کیسے (کس طرف سے) قبر میں اتارا جائے؟
Chapter: How The Deceased Should Be Placed Into His Grave.
حدیث نمبر: 3211
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا ابي، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، قال:" اوصى الحارث ان يصلي عليه عبد الله بن يزيد، فصلى عليه، ثم ادخله القبر من قبل رجلي القبر، وقال: هذا من السنة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ:" أَوْصَى الْحَارِثُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أَدْخَلَهُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيِ الْقَبْرِ، وَقَالَ: هَذَا مِنَ السُّنَّةِ".
ابواسحاق کہتے ہیں کہ حارث نے وصیت کی کہ ان کی نماز (نماز جنازہ) عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ پڑھائیں، تو انہوں نے ان کی نماز پڑھائی اور انہیں قبر میں پاؤں کی طرف سے داخل کیا اور کہا: یہ مسنون طریقہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9675) (صحیح)» ‏‏‏‏

Abu Ishaq said: Al-Harith left his will that Abdullah ibn Yazid should offer his funeral prayer; so he prayed over him. He then put him in the grave from the side of his legs and said: This is a Sunnah (model practice of the Prophet).
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3205


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن أبي داود3211عبد الله بن يزيدأدخله القبر من قبل رجلي القبر وقال هذا من السنة
   بلوغ المرام465عبد الله بن يزيدادخل الميت من قبل رجلي القبر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 465  
´میت کو قبر میں پاؤں کی جانب سے اتارنا`
ابواسحٰق رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے میت کو اس کے پاؤں کی طرف سے قبر میں اتارا اور کہا کہ سنت طریقہ یہی ہے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 465]
لغوی تشریح:
«مَنْ قِبَلِ رَجْلَيِ الْقَبْرِ» ] یعنی اس جانب سے جہاں میت کے پاؤں ہوتے ہیں۔ یہ حال کا اطلاق محل پر ہے، یعنی حال بول کر محل مراد لیا ہے۔

فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ میت کو قبر میں پاؤں کی جانب سے اتارنا چاہیے۔ اہل حجاز میں اسی پر عمل تھا اور اسی کو امام شافعی رحمہ الله اور امام احمد رحمہ الله نے اختیار کیا ہے اور یہی افضل ہے کیونکہ کوئی صحیح روایت اس کے برعکس ثابت نہیں۔

راوی حدیث:
[حضرت ابواسحاق رحمہ الله ] عمرو بن عبداللہ سبیعی ہمدانی کوفی مشہور تابعی ہیں۔ آپ سے بکثرت روایات مروی ہیں مگر تدلیس کرتے تھے۔ آخر عمر میں ذہنی توازن بگڑ گیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابھی دو سال باقی تھے کہ ان کی پیدائش ہوئی۔ ۱۲۹ ہجری میں فوت ہوئے۔
[حضرت عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ ] خطمی انصاری۔ قبیلہ اوس سے تھے۔ جس وقت صلح حدیبیہ میں حاضر ہوئے اس وقت ان کی عمر سترہ برس تھی۔ جنگ جمل و صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ کوفہ میں آئے۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے عہد میں کوفہ کے والی تھے۔ اسی دور میں کوفہ کے مقام پر فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 465   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3211  
´میت کو کیسے (کس طرف سے) قبر میں اتارا جائے؟`
ابواسحاق کہتے ہیں کہ حارث نے وصیت کی کہ ان کی نماز (نماز جنازہ) عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ پڑھائیں، تو انہوں نے ان کی نماز پڑھائی اور انہیں قبر میں پاؤں کی طرف سے داخل کیا اور کہا: یہ مسنون طریقہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3211]
فوائد ومسائل:
صحابی کا کسی عمل کو سنت کہنے سے رسول اللہ ﷺ کی سنت مراد ہوتی ہے اور اسے اصطلاحا مرفوع حکمی کہتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3211   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.