الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
53. باب وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ
53. باب: سورۃ النجم سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3276
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن مالك بن مغول، عن طلحة بن مصرف، عن مرة، عن عبد الله، قال: لما بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم سدرة المنتهى، قال: " انتهى إليها ما يعرج من الارض، وما ينزل من فوق "، قال: فاعطاه الله عندها ثلاثا لم يعطهن نبيا كان قبله، فرضت عليه الصلاة خمسا، واعطي خواتيم سورة البقرة، وغفر لامته المقحمات ما لم يشركوا بالله شيئا، قال ابن مسعود: إذ يغشى السدرة ما يغشى سورة النجم آية 16، قال: السدرة في السماء السادسة، قال سفيان: فراش من ذهب، واشار سفيان بيده فارعدها، وقال غير مالك بن مغول: إليها ينتهي علم الخلق لا علم لهم بما فوق ذلك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، قَالَ: " انْتَهَى إِلَيْهَا مَا يَعْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ، وَمَا يَنْزِلُ مِنْ فَوْقَ "، قَالَ: فَأَعْطَاهُ اللَّهُ عِنْدَهَا ثَلَاثًا لَمْ يُعْطِهِنَّ نَبِيًّا كَانَ قَبْلَهُ، فُرِضَتْ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ خَمْسًا، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لِأُمَّتِهِ الْمُقْحِمَاتُ مَا لَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى سورة النجم آية 16، قَالَ: السِّدْرَةُ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قَالَ سُفْيَانُ: فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَأَشَارَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ فَأَرْعَدَهَا، وَقَالَ غَيْرُ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ: إِلَيْهَا يَنْتَهِي عِلْمُ الْخَلْقِ لَا عِلْمَ لَهُمْ بِمَا فَوْقَ ذَلِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (معراج کی رات) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو کہا: یہی وہ آخری جگہ ہے جہاں زمین سے چیزیں اٹھ کر پہنچتی ہیں اور یہی وہ بلندی کی آخری حد ہے جہاں سے چیزیں نیچے آتی اور اترتی ہیں، یہیں اللہ نے آپ کو وہ تین چیزیں عطا فرمائیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں فرمائی تھیں، (۱) آپ پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں، (۲) سورۃ البقرہ کی «خواتیم» (آخری آیات) عطا کی گئیں، (۳) اور آپ کی امتیوں میں سے جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا، ان کے مہلک و بھیانک گناہ بھی بخش دیئے گئے، (پھر) ابن مسعود رضی الله عنہ نے آیت «إذ يغشى السدرة ما يغشى» ڈھانپ رہی تھی سدرہ کو جو چیز ڈھانپ رہی تھی (النجم: ۱۶)، پڑھ کر کہا «السدرہ» (بیری کا درخت) چھٹے آسمان پر ہے، سفیان کہتے ہیں: سونے کے پروانے ڈھانپ رہے تھے اور سفیان نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے انہیں چونکا دیا (یعنی تصور میں چونک کر ان پروانوں کے اڑنے کی کیفیت دکھائی) مالک بن مغول کے سوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہیں تک مخلوق کے علم کی پہنچ ہے اس سے اوپر کیا کچھ ہے کیا کچھ ہوتا ہے انہیں اس کا کچھ بھی علم اور کچھ بھی خبر نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 76 (173)، سنن النسائی/الصلاة 1 (452) (تحفة الأشراف: 9548)، و مسند احمد (1/387، 422) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

   سنن النسائى الصغرى452عبد الله بن مسعودلما أسري برسول الله انتهي به إلى سدرة المنتهى وهي في السماء السادسة وإليها ينتهي ما عرج به من تحتها وإليها ينتهي ما أهبط به من فوقها حتى يقبض منها قال إذ يغشى السدرة ما يغشى
   صحيح مسلم431عبد الله بن مسعودأسري برسول الله انتهي به إلى سدرة المنتهى وهي في السماء السادسة إليها ينتهي ما يعرج به من الأرض فيقبض منها وإليها ينتهي ما يهبط به من فوقها فيقبض منها قال إذ يغشى السدرة ما يغشى
   جامع الترمذي3276عبد الله بن مسعودانتهى إليها ما يعرج من الأرض وما ينزل من فوق قال فأعطاه الله عندها ثلاثا لم يعطهن نبيا كان قبله فرضت عليه الصلاة خمسا وأعطي خواتيم سورة البقرة وغفر لأمته المقحمات ما لم يشركوا بالله شيئا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 452  
´نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (معراج کی شب) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جایا گیا تو جبرائیل علیہ السلام آپ کو لے کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے، یہ چھٹے آسمان پر ہے ۱؎ جو چیزیں نیچے سے اوپر چڑھتی ہیں ۲؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، اور جو چیزیں اس کے اوپر سے اترتی ہیں ۳؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، یہاں تک کہ یہاں سے وہ لی جاتی ہیں ۴؎ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ «إذ يغشى السدرة ما يغشى» ۵؎ (جب کہ سدرۃ کو ڈھانپ لیتی تھیں وہ چیزیں جو اس پر چھا جاتی تھیں) پڑھی اور (اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے) کہا: وہ سونے کے پروانے تھے، تو (وہاں) آپ کو تین چیزیں دی گئیں: پانچ نمازیں، سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں ۶؎، اور آپ کی امت میں سے اس شخص کی کبیرہ گناہوں کی بخشش، جو اللہ کے ساتھ بغیر کچھ شرک کئے مرے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 452]
452 ۔ اردو حاشیہ:
➊ براق کا ذکر روایات معراج میں بیت المقدس تک ہی ملتا ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ بیت المقدس سے آگے آسمانوں کا سفر ایک سیڑھی نما چیز معراج کے ذریعے سے ہوا لیکن اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔ واللہ اعلم۔
➋ بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کے لیے حاضر ہونا اور آپ کا ان کی امامت کروانا آپ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے جو کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا۔ ظاہر تو یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام جسمانی طور پر حاضر تھے نہ کہ صرف روحانی طور پر جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طور پر بیت المقدس اور آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ فوت شدہ انبیاء علیہم السلام کے جسم بھی اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے۔ [سنن ابی داود، الصلاة، حدیث: 1047]
اگر انبیاء علیہم السلام صرف روحانی طور پر ہی لائے گئے ہوں تو بھی واقعہ کی اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بہرحال یہ معاملہ برزخ کا ہے جو انسان کی رسائی سے باہر ہے۔
➌عام احادیث میں سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کا ذکر ہی ملتا ہے مگر صحیحین کی ایک روایت میں ایک اور مقام پر آپ کے چڑھنے کا ذکر ہے جہاں سے آپ کو قلموں کی سرسراہٹ بھی سنائی دی۔ [صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 349، وصحیح مسلم، الایمان، حدیث: 163]
لیکن اس مقام کا کوئی نام ذکر نہیں کیا گیا۔
➍سورۃ البقرہ کی آخری آیات کا نزول بالاتفاق مدنی ہے اور واقعہ معراج مکی ہے۔ معراج میں سورۂ بقرہ کی آخری آیات دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات عطا کرنے کا وعدہ کر لیا گیا جب کہ نزول بعد میں مدینہ منورہ میں ہوا۔ واللہ أعلم۔
➎کبائر کی معافی کی دو صورتیں ہوں گی: جس کواللہ تعالیٰ چاہے گا پہلے مرحلے ہی میں اپنے فضل و کرم سے معاف فرما کر جنت میں داخل فرما دے گا کیونکہ بعض کے بلاتوبہ بھی کبائر معاف ہو جائیں گے، ورنہ جہنم میں سزا بھگت کر پھر معافی ہو گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 452   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3276  
´سورۃ النجم سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (معراج کی رات) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو کہا: یہی وہ آخری جگہ ہے جہاں زمین سے چیزیں اٹھ کر پہنچتی ہیں اور یہی وہ بلندی کی آخری حد ہے جہاں سے چیزیں نیچے آتی اور اترتی ہیں، یہیں اللہ نے آپ کو وہ تین چیزیں عطا فرمائیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں فرمائی تھیں، (۱) آپ پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں، (۲) سورۃ البقرہ کی «خواتیم» (آخری آیات) عطا کی گئیں، (۳) اور آپ کی امتیوں میں سے جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا، ان کے مہلک و بھیانک گناہ بھی بخش دیئے گئے، (پھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3276]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ڈھانپ رہی تھی سدرہ کو جو چیز ڈھانپ رہی تھی (النجم: 16)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3276   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.