الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
126. باب الْجُنُبِ يَتَيَمَّمُ
126. باب: جنبی تیمم کر سکتا ہے۔
Chapter: The Sexually Impure Person Performing Tayammum.
حدیث نمبر: 333
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، اخبرنا حماد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن رجل من بني عامر، قال: دخلت في الإسلام فاهمني ديني، فاتيت ابا ذر، فقال ابو ذر:" إني اجتويت المدينة، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بذود وبغنم، فقال لي: اشرب من البانها، قال حماد: واشك في ابوالها، هذا قول حماد، فقال ابو ذر: فكنت اعزب عن الماء، ومعي اهلي فتصيبني الجنابة فاصلي بغير طهور، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بنصف النهار وهو في رهط من اصحابه وهو في ظل المسجد، فقال ابو ذر: فقلت: نعم هلكت يا رسول الله، قال: وما اهلكك؟ قلت: إني كنت اعزب عن الماء ومعي اهلي فتصيبني الجنابة فاصلي بغير طهور، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء فجاءت به جارية سوداء بعس يتخضخض ما هو بملآن فتسترت إلى بعيري فاغتسلت ثم جئت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ابا ذر إن الصعيد الطيب طهور، وإن لم تجد الماء إلى عشر سنين، فإذا وجدت الماء فامسه جلدك"، قال ابو داود: رواه حماد بن زيد، عن ايوب، لم يذكر ابوالها. قال ابو داود: هذا ليس بصحيح، وليس في ابوالها إلا حديث انس، تفرد به اهل البصرة.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، قَالَ: دَخَلْتُ فِي الْإِسْلَامِ فَأَهَمَّنِي دِينِي، فَأَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ:" إِنِّي اجْتَوَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَبِغَنَمٍ، فَقَالَ لِي: اشْرَبْ مِنْ أَلْبَانِهَا، قَالَ حَمَّادٌ: وَأَشُكُّ فِي أَبْوَالِهَا، هَذَا قَوْلُ حَمَّادٍ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَكُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ، وَمَعِي أَهْلِي فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأُصَلِّي بِغَيْرِ طَهُورٍ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنِصْفِ النَّهَارِ وَهُوَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِهِ وَهُوَ فِي ظِلِّ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَقُلْتُ: نَعَمْ هَلَكْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: وَمَا أَهْلَكَكَ؟ قُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ وَمَعِي أَهْلِي فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأُصَلِّي بِغَيْرِ طُهُورٍ، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ فَجَاءَتْ بِهِ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ بِعُسٍّ يَتَخَضْخَضُ مَا هُوَ بِمَلْآنَ فَتَسَتَّرْتُ إِلَى بَعِيرِي فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورٌ، وَإِنْ لَمْ تَجِدِ الْمَاءَ إِلَى عَشْرِ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّهُ جِلْدَكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، لَمْ يَذْكُرْ أَبْوَالَهَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا لَيْسَ بِصَحِيحٍ، وَلَيْسَ فِي أَبْوَالِهَا إِلَّا حَدِيثُ أَنَسٍ، تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ الْبَصْرَةِ.
قبیلہ بنی عامر کے ایک آدمی کہتے ہیں کہ میں اسلام میں داخل ہوا تو مجھے اپنا دین سیکھنے کی فکر لاحق ہوئی لہٰذا میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے کہا: مجھے مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ اونٹ اور بکریاں دینے کا حکم دیا اور مجھ سے فرمایا: تم ان کا دودھ پیو، (حماد کا بیان ہے کہ مجھے شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیشاب بھی پینے کے لیے کہا یا نہیں، یہ حماد کا قول ہے)، پھر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پانی سے (اکثر) دور رہا کرتا تھا اور میرے ساتھ میری بیوی بھی تھی، مجھے جنابت لاحق ہوتی تو میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لیتا تھا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوپہر کے وقت آیا، آپ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد کے سائے میں (بیٹھے) تھے، آپ نے فرمایا: ابوذر؟، میں نے کہا: جی، اللہ کے رسول! میں تو ہلاک و برباد ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس چیز نے تمہیں ہلاک و برباد کیا؟، میں نے کہا: میں پانی سے دور رہا کرتا تھا اور میرے ساتھ میری بیوی تھی، مجھے جنابت لاحق ہوتی تو میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لیتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے پانی لانے کا حکم دیا، چنانچہ ایک کالی لونڈی بڑے برتن میں پانی لے کر آئی جو برتن میں ہل رہا تھا، برتن بھرا ہوا نہیں تھا، پھر میں نے اپنے اونٹ کی آڑ کی اور غسل کیا، پھر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! پاک مٹی پاک کرنے والی ہے، اگرچہ تم دس سال تک پانی نہ پاؤ، لیکن جب تمہیں پانی مل جائے تو اسے اپنی کھال پر بہاؤ (غسل کرو)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن زید نے ایوب سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے پیشاب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ صحیح نہیں ہے اور پیشاب کا ذکر صرف انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، جس میں اہل بصرہ منفرد ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12008) (صحیح)» ‏‏‏‏ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں ایک راوی ”رجل من بنی عامر“ مبہم راوی ہیں اور یہ وہی ”عمرو بن بجدان“ ہیں)

A man from Banu Amir said: I embraced Islam and my (ignorance of the) religion made me anxious (to learn the essentials). I came to Abu Dharr. Abu Dharr said: The climate of Madina did not suit me. The Messenger of Allah ﷺ ordered me to have a few camels and goats. He said to me: Drink their milk. (The narrator Hammad said): I doubt whether he (the Prophet) said: "their urine. " Abu Dharr said: I was away from the watering place and I had my family with me. I would have sexual defilement and pray without purification. I came to the Messenger of Allah ﷺ at noon. He was resting in the shade of the mosque along with a group of Companions. He (the Prophet) said: Abu Dharr. I said: Yes, I am ruined, Messenger of Allah. He said: What ruined you ? I said: I was away from the watering place and I had family with me. I used to be sexually defiled and pray without purification. He commanded (to bring) water for me. Then a black slave-girl brought a vessel of water that was shaking as the vessel was not full. I concealed myself behind a camel and took bath and them came (to the Prophet). The Messenger of Allah ﷺ said: Abu Dharr, clean earth is a means of ablution, even if you do not find water for ten years. When you find water, you should make it touch your skin. Abu Dawud said: This is transmitted by Hammad bin Zaid from Ayyub. This version does not mention the words "their urine. " This is not correct. The words "their urine" occur only in the version reported by Anas and transmitted only by the people of Basrah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 333


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
رجل من بني عامر ھو عمرو بن بجدان (التقريب: 8522) وھو صحيح الحديث وثقه العجلي المعتدل وابن خزيمة وابن حبان والحاكم والذھبي فحديثه لا ينزل عن درجة الحسن

   سنن النسائى الصغرى323جندب بن عبد اللهالصعيد الطيب وضوء المسلم وإن لم يجد الماء عشر سنين
   جامع الترمذي124جندب بن عبد اللهالصعيد الطيب طهور المسلم وإن لم يجد الماء عشر سنين
   سنن أبي داود333جندب بن عبد اللهالصعيد الطيب طهور وإن لم تجد الماء إلى عشر سنين
   سنن أبي داود332جندب بن عبد اللهالصعيد الطيب وضوء المسلم ولو إلى عشر سنين
   بلوغ المرام112جندب بن عبد اللهالصعيد وضوء المسلم وإن لم يجد الماء عشر سنين. فإذا وجد الماء فليتق الله وليمسه بشرته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 112  
´تیمّم کے لیے وقت و مدت کا تعین`
«. . . قال رسول الله: ‏‏‏‏الصعيد وضوء المسلم وإن لم يجد الماء عشر سنين. فإذا وجد الماء فليتق الله وليمسه بشرته . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مٹی مومن مسلمان کا وضو ہے خواہ دس برس تک اسے پانی نہ ملے۔ مگر جب پانی دستیاب ہو جائے تو پھر اللہ سے ڈرنا چاہیئے اور اسے اپنے جسم پر پانی پہنچانا چاہیئے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 112]

لغوی تشریح:
«اَلصَّعِيدُ» پاکیزہ مٹی کو کہتے ہیں۔
«وَإِنْ لَّمْ يَجِدْ» اس میں إن وصلیہ ہے جس کے معنی ہیں: اگرچہ اس کی جزا ہمیشہ محذوف ہوتی ہے جس پر اس کا ماقبل دلالت کر رہا ہوتا ہے۔
«عَشْرَ سِنِينَ» دس برس۔ اس سے مراد مبالغہ ہے، وقت ومدت کا تعین مقصود نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جتنی مدت تک پانی دستیاب نہ ہو اس وقت تک تیمّم کی اجازت ہے۔
«فَلْيَتَّقِ اللهَ» اللہ سے ڈرنا چاہیے کا مفہوم یہ ہے کہ طہارت و وضو میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہونے پائے اور صرف مٹی پر انحصار نہ کرے۔
«وَلْيُمِسَّهُ» «إِمْسَاس» سے ماخوذ ہے، یعنی پانی پہنچائے۔
«بَشَرَتَهُ» با اور شین دونوں پر فتحہ ہے۔ مراد جسم کی کھال ہے۔
«صَوَّبَ» «تَصْوِيب» سے ماخوذ ہے اور معنی یہ ہوئے کہ اس حدیث کا مرسل ہونا درست اور صحیح ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث یہ فائدہ دے رہی ہے کہ تیمّم کے لیے وقت و مدت کا تعین نہیں اور جب پانی کی دستیابی کی صورت میں عذر باقی نہ رہے تو پھر پانی کا استعمال واجب ہے۔
➋ اس حدیث میں تیمّم کو وضو قرار دیا گیا ہے تو گویا تیمّم وضو کا قائم مقام اور بدل ہے۔ جب یہ پانی کا بدل ہے تو پھر دونوں کے احکام بھی ایک جیسے ہوں گے، یعنی ایک وضو سے جتنی نمازیں پڑھ سکتا ہے تیمم سے بھی اتنی پڑھی جا سکتی ہیں۔
➌ بعض لوگ اس حدیث کی رو سے تیمم سے رفع حدث کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک صرف نماز مباح ہوتی ہے، جب نماز سے فارغ ہو گا تو پھر پہلے کی طرح بےوضو یا جنبی شمار ہو گا۔ پہلا مسلک احناف کا ہے، ان کے نزدیک ایک تیمّم سے جب تک تیمّم قائم رہے کئی فرائض ادا ہو سکتے ہیں۔ سعد بن مسیّب، حسن بصری، زہری اور سفیان ثوری رحمہم اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ مگر امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ تیمّم سے طہارت کاملہ حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس سے جو طہارت حاصل ہوتی ہے اس کی حیثیت معذور کی اس طہارت کی طرح ہے جو محض ضرورت کے لیے ایک محدود مدت تک حاصل ہوتی ہے اور اس سے صرف ایک ہی فرض (جس کے لیے تیمّم کیا گیا ہو) ادا ہو سکتا ہے۔
➍ ترمذی میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث، جس کا حوالہ دیا گیا ہے، اس طرح ہے: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو جب مدینہ منورہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اونٹوں میں رہنے کا حکم فرمایا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اونٹوں میں رہنا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد ابوزر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ابوذر تو تباہ ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا کہ جنابت لاحق ہو جاتی ہے اور میرے پاس پانی نہیں ہوتا (کیا کروں؟) ارشاد ہوا: جسے پانی نہ ملے اس کے لیے مٹی پاک کرنے کا ذریعہ ہے اگرچہ دس سال تک یہی حال رہے۔ ترمذی کی روایت میں اختصار ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے: [سنن أبى داود، الطهارة، باب الجنب يتيمم، حديث: 332، 333]

راویٔ حدیث: (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ) را پر تشدید ہے۔ نام ان کا جندب بن جنادہ تھا۔ جنادہ میں جیم پر ضمہ ہے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جو زاہد اور دنیا سے بےرغبت تھے۔ مکہ میں ابتدائے اسلام ہی میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ پھر اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے۔ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش ہوئے۔ مقام ربذہ میں رہائش رکھی، اور وہیں پر 32 ہجری میں وفات پائی۔ بہت متقی، پرہیزگار اور اللہ پر توکل کرنے والے تھے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 112   
  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 332  
´جنبی تیمم کر سکتا ہے`
«. . . فَقَالَ: الصَّعِيدُ الطَّيِّبُ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ وَلَوْ إِلَى عَشْرِ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّهُ جِلْدَكَ فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو (کے پانی کے حکم میں) ہے، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے، جب تم پانی پا جاؤ تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو، اس لیے کہ یہ بہتر ہے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 332]

فقہ الحدیث
➊ پاک مٹی پانی کے قائم مقام ہے جب پانی نہ ملے تو اس سے تیمم کر لینا چاہئیے۔
➋ جس طرح ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اسی طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم سے کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اور جو ناقض وضو ہیں وہی ناقض تیمم بھی ہیں۔
«عشر سنين» سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر لمبی مدت تک پانی نہ ملے تو اس اثنا میں تیمم ہی سے نماز ادا کی جائیں گی۔
➍ پانی کی موجودگی میں بغیر کسی عذر کے تیمم سے نماز نہیں پڑھنی چاہئیے کیونکہ اصل حکم پانی سے وضو کر کے نماز ادا کرنے کا ہے۔
➎ امام نسائی رحمہ اللہ نے دیگر محدثین کے برعکس اس حدیث کو قدرے مختصر بیان کیا ہے جو قطعاً مضر نہیں۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 133، حدیث\صفحہ نمبر: 5   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 323  
´ایک ہی تیمم سے کئی نمازیں پڑھنے کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے، اگرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 323]
323۔ اردو حاشیہ:
➊ طیب کا لفظ دلیل ہے کہ جس مٹی سے تیمم مقصود ہے، وہ پاک ہونی چاہیے۔
➋ تیمم بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو کا ہم مرتبہ ہے، لہٰذا جب تک تیمم قائم ہے اور پانئ نہیں ملتا، اس کے ساتھ کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اور یہ حدیث اس کی دلیل ہے جب کہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ تیمم مجبوری کی طہارت ہے۔ مجبوری والی چیز ضرورت کے بعد ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا جب نماز پڑھی گئی تو مجبوری ختم ہو گئی، لہٰذا تیمم بھی ختم۔ نئی نماز کے وقت دوبارہ پانی تلاش کیا جائے گا، نہ ملے تو پھر تیمم کیا جائے گا۔ لیکن ایک نماز پڑھنے کے بعد تیمم کے ختم ہونے کی کوئی صریح صحیح دلیل موجود نہیں، صرف عقلی باتیں ہیں، جب شریعت نے مجبوری کے باعث رخصت دی ہے اور کوئی حد بندی بھی نہیں کی تو ہم کون ہو سکتے ہیں کہ فقہی موشگافیوں اور قیاس آرائیوں کی بنا پر اس عظیم رخصت کو کالعدم قرار دیں۔ ہاں! اس بات سے تو انکار نہیں کہ دوسری نماز کے وقت پانی کے عدم وجود کے تحقق کے بعد ہی نماز پڑھی جائے گی یا قطعی ذرائع سے یہ معلوم ہو چکا ہو کہ پانی دستیاب نہیں ہے اور نہ اس کا حصول ممکن ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 323   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 332  
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پاک مٹی مسلمان کے لیے وضو (کے پانی کے حکم میں) ہے، اگرچہ دس برس تک پانی نہ پائے، جب تم پانی پا جاؤ تو اس کو اپنے بدن پر بہا لو، اس لیے کہ یہ بہتر ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/ باب الْجُنُبِ يَتَيَمَّمُ/ ح: 332]
(جمہور، اہلحدیث، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ) نبیذ کے ساتھ وضو کرنا جائز نہیں۔ [بداية المجتهد 66/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ نبیذ پانی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے صرف مطلق پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور پانی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں نبیذ نہیں بلکہ مٹی سے تیمم کا حکم دیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ:
«فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا» [4-النساء:43]، [5-المائدة:6]
اور حدیث میں ہے کہ
مٹی مومن کا وضو ہے خواہ دس سال تک اسے پانی میسر نہ آئے مگر جب پانی دستیاب ہو جائے تو پھر اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اپنے جسم پر پانی پہنچانا چاہیے۔ [صحيح: ابوداود 332]
   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 138   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 124  
´پانی نہ پانے پر جنبی تیمم کر لے۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے گرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے، پھر جب وہ پانی پا لے تو اسے اپنی کھال (یعنی جسم) پر بہائے، یہی اس کے لیے بہتر ہے۔‏‏‏‏ محمود (محمود بن غیلان) نے اپنی روایت میں یوں کہا ہے: پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 124]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عمرو بن بجدان،
مجہول ہیں،
لیکن بزار وغیرہ کی روایت کردہ ابو ہریرہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے،
ملاحظہ ہو:
صحیح سنن أبی داود 357،
والإرواء 153)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 124   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.