الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
Wages (Kitab Al-Ijarah)
3. باب فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ
3. باب: سینگی (پچھنا) لگانے والے کی اجرت کا بیان۔
Chapter: Regarding The Earnings Of A Cupper.
حدیث نمبر: 3422
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن ابن محيصة، عن ابيه،" انه استاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم في إجارة الحجام، فنهاه عنها، فلم يزل يساله ويستاذنه، حتى امره ان اعلفه ناضحك ورقيقك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ مُحَيِّصَةَ، عَنْ أَبِيهِ،" أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِجَارَةِ الْحَجَّامِ، فَنَهَاهُ عَنْهَا، فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُهُ وَيَسْتَأْذِنُهُ، حَتَّى أَمَرَهُ أَنْ أَعْلِفْهُ نَاضِحَكَ وَرَقِيقَكَ".
محیصہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سینگی لگا کر اجرت لینے کی اجازت مانگی تو آپ نے انہیں اس کے لینے سے منع فرمایا، وہ برابر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ نے ان سے کہہ دیا کہ اس سے اپنے اونٹ اور اپنے غلام کو چارہ کھلاؤ۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 47 (1277)، سنن ابن ماجہ/التجارات 10 (2166)، (تحفة الأشراف: 11238)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان 10 (28)، مسند احمد (5/435، 436) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Muhayyisah ibn Kab: Muhayyisah asked permission of the Messenger of Allah ﷺ regarding hire of the cupper, but he forbade him. He kept on asking his permission, and at last he said to him: Feed your watering camel with it and feed your slave with it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3415


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (2778)
أخرجه الترمذي (1277) وابن ماجه (2166) وانظر مسند الحميدي بتحقيقي (1293، 880)

   جامع الترمذي1277محيصة بن مسعوداعلفه ناضحك وأطعمه رقيقك
   سنن أبي داود3422محيصة بن مسعودأعلفه ناضحك ورقيقك
   سنن ابن ماجه2166محيصة بن مسعوداعلفه نواضحك
   مسندالحميدي902محيصة بن مسعودفنهاه عنه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2166  
´حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی کا بیان۔`
محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس سے منع فرمایا، انہوں نے اس کی ضرورت بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے پانی لانے والے اونٹوں کو اسے کھلا دو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2166]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  سینگی لگانا ایک طریقہ علاج ہے جس میں خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔
اسے پچھنے لگانا بھی کہتے ہیں۔

(2)
  سینگی لگانے کی اجرت حرام نہیں ورنہ رسول اللہﷺ حضرت ابو طیبہ ؓ کو سینگی لگانے کی اجرت نہ دیتے البتہ نبیﷺ کے منع فرمانے کی وجہ سے اسے ضرورت کے بغیر لینا جائز نہیں، تاہم ضرورت کی بنا پر اس کی اجرت دی اور لی جاسکتی ہے۔
اونٹوں کو کھلانے کا حکم دینے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجرت حرام نہیں بلکہ ضرورت کے بغیر لینا مکروہ ہے۔

(3)
  حضرت حرام بن محیصہ ؓ کا پورا نام حرام بن سعد بن محیصہ بن مسعود انصاری ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ان کی بابت بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات انہیں اپنے دادا کی طرف منسوب کر دیا جتا ہے، یعنی حرام بن سعد بن محیصہ کے بجائے حرام بن محیصہ کہہ دیا جتا ہے جبکہ ان کے والد محیصہ نہیں بلکہ سعد ہیں۔ دیکھیے: (تقريب التهذيب، ترجمة حرام بن سعد: 1173)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2166   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1277  
´پچھنا لگانے والے کی کمائی کا بیان۔`
محیصہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنا لگانے والے کی اجرت کی اجازت طلب کی، تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا ۱؎ لیکن وہ باربار آپ سے پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: اسے اپنے اونٹ کے چارہ پر خرچ کرو یا اپنے غلام کو کھلا دو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1277]
اردو حاشہ: 1؎:
یہ ممانعت اس وجہ سے تھی کہ یہ ایک گھٹیااورغیرشریفانہ عمل ہے،
جہاں تک اس کے جوازکا معاملہ ہے تو آپﷺ نے خود ابوطیبہ کو پچھنا لگانے کی اجرت دی ہے جیساکہ کہ اگلی روایت سے واضح ہے،
جمہوراسی کے قائل ہیں اورممانعت والی روایت کو نہیں تنزیہی پر محمول کرتے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ منسوخ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1277   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.