الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تیمم کے احکام و مسائل
The Book of Tayammum (Rubbing Hands and Feet with Dust)
7. بَابُ إِذَا خَافَ الْجُنُبُ عَلَى نَفْسِهِ الْمَرَضَ أَوِ الْمَوْتَ أَوْ خَافَ الْعَطَشَ، تَيَمَّمَ:
7. باب: جب جنبی کو (غسل کی وجہ سے) مرض بڑھ جانے کا یا موت ہونے کا یا (پانی کے کم ہونے کی وجہ سے) پیاس کا ڈر ہو تو تیمم کر لے۔
(7) Chapter. A Junub can perform Tayammum if he is afraid of disease, death or thirst.
حدیث نمبر: 346
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا الاعمش، قال: سمعت شقيق بن سلمة، قال:" كنت عند عبد الله، وابي موسى، فقال له ابو موسى: ارايت يا ابا عبد الرحمن، إذا اجنب فلم يجد ماء كيف يصنع؟ فقال عبد الله: لا يصلي حتى يجد الماء، فقال ابو موسى: فكيف تصنع بقول عمار، حين قال له النبي صلى الله عليه وسلم: كان يكفيك، قال: الم تر عمر لم يقنع بذلك، فقال ابو موسى: فدعنا من قول عمار كيف تصنع بهذه الآية، فما درى عبد الله ما يقول، فقال: إنا لو رخصنا لهم في هذا لاوشك إذا برد على احدهم الماء ان يدعه ويتيمم، فقلت لشقيق: فإنما كره عبد الله لهذا، قال: نعم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ، قَالَ:" كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: أَرَأَيْتَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِذَا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدْ مَاءً كَيْفَ يَصْنَعُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَا يُصَلِّي حَتَّى يَجِدَ الْمَاءَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِقَوْلِ عَمَّارٍ، حِينَ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يَكْفِيكَ، قَالَ: أَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَدَعْنَا مِنْ قَوْلِ عَمَّارٍ كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَذِهِ الْآيَةِ، فَمَا دَرَى عَبْدُ اللَّهِ مَا يَقُولُ، فَقَالَ: إِنَّا لَوْ رَخَّصْنَا لَهُمْ فِي هَذَا لَأَوْشَكَ إِذَا بَرَدَ عَلَى أَحَدِهِمُ الْمَاءُ أَنْ يَدَعَهُ وَيَتَيَمَّمَ، فَقُلْتُ لِشَقِيقٍ: فَإِنَّمَا كَرِهَ عَبْدُ اللَّهِ لِهَذَا، قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہ کہا ہم سے میرے والد حفص بن غیاث نے، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) اور ابوموسیٰ اشعری کی خدمت میں تھا، ابوموسیٰ نے پوچھا کہ ابوعبدالرحمٰن! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ اسے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ جب تک اسے پانی نہ مل جائے۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ پھر عمار کی اس روایت کا کیا ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا کہ تمہیں صرف (ہاتھ اور منہ کا تیمم) کافی تھا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تم عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھتے کہ وہ عمار کی اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر ابوموسیٰ نے کہا کہ اچھا عمار کی بات کو چھوڑو لیکن اس آیت کا کیا جواب دو گے (جس میں جنابت میں تیمم کرنے کی واضح اجازت موجود ہے) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ صرف یہ کہا کہ اگر ہم اس کی بھی لوگوں کو اجازت دے دیں تو ان کا حال یہ ہو جائے گا کہ اگر کسی کو پانی ٹھنڈا معلوم ہوا تو اسے چھوڑ دیا کرے گا۔ اور تیمم کر لیا کرے گا۔ (اعمش کہتے ہیں کہ) میں نے شقیق سے کہا کہ گویا عبداللہ نے اس وجہ سے یہ صورت ناپسند کی تھی۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔

Narrated Shaqiq bin Salama: I was with `Abdullah and Abu Musa; the latter asked the former, "O Abu `Abdur-Rahman! What is your opinion if somebody becomes Junub and no water is available?" `Abdullah replied, "Do not pray till water is found." Abu Musa said, "What do you say about the statement of `Ammar (who was ordered by the Prophet to perform Tayammum). The Prophet said to him: "Perform Tayammum and that would be sufficient." `Abdullah replied, "Don't you see that `Umar was not satisfied by `Ammar's statement?" Abu- Musa said, "All right, leave `Ammar's statement, but what will you say about this verse (of Tayammum)?" `Abdullah kept quiet and then said, "If we allowed it, then they would probably perform Tayammum even if water was available, if one of them found it (water) cold." The narrator added, "I said to Shaqiq, "Then did `Abdullah dislike to perform Tayammum because of this?" He replied, "Yes."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 7, Number 342


   صحيح البخاري347عبد الله بن قيسيكفيك أن تصنع هكذا فضرب بكفه ضربة على الأرض ثم نفضها ثم مسح بها ظهر كفه بشماله أو ظهر شماله بكفه ثم مسح بهما وجهه
   صحيح البخاري346عبد الله بن قيسيكفيك قال ألم تر عمر لم يقنع بذلك فقال أبو موسى فدعنا من قول عمار كيف تصنع بهذه
   سنن أبي داود321عبد الله بن قيسيكفيك أن تصنع هكذا فضرب بيده على الأرض فنفضها ثم ضرب بشماله على يمينه وبيمينه على شماله على الكفين ثم مسح وجهه
   سنن النسائى الصغرى321عبد الله بن قيسيكفيك أن تقول هكذا وضرب بيديه على الأرض ضربة فمسح كفيه ثم نفضهما ثم ضرب بشماله على يمينه وبيمينه على شماله على كفيه ووجهه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 321  
´تیمم کا بیان۔`
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! (یہ عبداللہ بن مسعود کی کنیت ہے) اس مسئلے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص جنبی ہو جائے اور ایک مہینے تک پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کرتا رہے؟ عبداللہ بن مسعود نے کہا: تیمم نہ کرے، اگرچہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ سورۃ المائدہ کی اس آیت: «فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا» پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا: اگر تیمم کی رخصت دی جائے تو قریب ہے کہ جب پانی ٹھنڈا ہو تو لوگ مٹی سے تیمم کرنے لگیں۔ اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ نے اسی وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے عمار رضی اللہ عنہ کی بات (جو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہی) نہیں سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا تو میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہیں ملا تو میں مٹی (زمین) پر لوٹا جیسے جانور لوٹتا ہے، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں تو بس اس طرح کر لینا کافی تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اسے جھاڑا، پھر اپنے بائیں سے اپنی دائیں ہتھیلی پر اور دائیں سے بائیں ہتھیلی پر مارا، پھر اپنے چہرے کا مسح کیا، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ، عمار رضی اللہ عنہ کی اس بات سے مطمئن نہیں ہوئے؟!۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 321]
321۔ اردو حاشیہ:
➊ کوئی بھی مسلمان دینی امور میں کسی فاضل علم کے ملنے تک اجتہاد کر سکتا ہے، پھر اس سے اپنے عمل کی توثیق وتصحیح کرا لے جیسے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے کیا۔
➋ تمیّم کی صحیح تر روایات میں زمین پر ایک ہی دفعہ ہاتھ مارنا ہے اور پھر ہاتھوں اور چہرے کا مسح کرنا ہے۔ اور یہ عمل پانی ملنے تک حدث اصغر اور حدث اکبر (جنابت یا حیض سے طہارت) دونوں کے لیے کافی ہے۔
➌ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ تھے مگر انہیں نسیان ہو گیا اور یاد نہیں رہا اور بعض اوقات ایسے ہو جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 321   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 321  
´جنبی کے تیمم کا بیان۔`
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، تو ابوموسیٰ نے کہا: ۱؎ آپ نے عمار رضی اللہ عنہ کی بات جو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہی نہیں سنی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ضرورت سے بھیجا، تو میں جنبی ہو گیا، اور مجھے پانی نہیں ملا، تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے بس اس طرح کر لینا ہی کافی تھا، اور آپ نے اپنا دونوں ہاتھ زمین پر ایک بار مارا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کا مسح کیا، پھر انہیں جھاڑا، پھر آپ نے اپنی بائیں (ہتھیلی) سے اپنی داہنی (ہتھیلی) پر اور داہنی ہتھیلی سے اپنی بائیں (ہتھیلی) پر مارا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں اور اپنے چہرے کا مسح کیا، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ عمار رضی اللہ عنہ کی بات سے مطمئن نہیں ہوئے؟۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 321]
321۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما جنبی کے لیے تیمم کو کافی نہیں سمجھتے تھے جب کہ حضرت عمار اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تیمم کو غسل کی جگہ بھی کافی سمجھتے تھے۔ اس تناظر میں مندرجہ بالا مکالمہ ہوا۔
➋ اگرچہ اس روایت میں ذکر نہیں، مگر اس سے قبل تمام روایات میں یہ صراحت ہے کہ جنابت والا واقعہ حضرت عمر اور عمار رضی اللہ عنہما دونوں کو پیش آیا تھا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ یاد نہ آسکا، اس لیے انہیں اطمینان نہ ہوا اور وہ اپنے موقف پر قائم رہے مگر جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی جلالت کے پیش نظر اس واقعے کی روایت سے دست بردار ہونے کی پیش کش کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ پسند نہ فرمایا بلکہ فرمایا: تم اپنی ذمے داری پر بیان کرو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد یہ اختلاف ختم ہو گیا۔ اب امت مسلمہ کا متفقہ موقف ہے کہ جنبی کو پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم ہی کافی ہے۔
➌ امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ روایت متعدد دفعہ بیان کی ہے جس میں الفاظ کا معمولی فرق ہے۔ کہیں اختصار بھی ہے۔ تمام روایتیوں کو ملانے سے واقعے کی جو صورت بنتی ہے اور جس کی تفصیل اس روایت میں بھی ہے، وہی اصل ہے۔ ہر کثرت طرق والی روایت سے استدلال کا یہی درست طریقہ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 321   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 346  
346. حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھا جب حضرت ابوموسیٰ نے حضرت ابن مسعود سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! آپ کی کیا رائے ہے، اگر کسی کو جنابت لاحق ہو جائے اور اسے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: جب تک پانی نہ ملے وہ نماز نہ پڑھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: آپ حضرت عمار ؓ کے اس قول کی کیا تاویل کریں گے جب نبی ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: تمہیں (چہرے اور ہاتھوں کا مسح) کافی تھا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عمر ؓ کو حضرت عمار ؓ کی اس روایت سے اطمینان نہیں ہوا تھا؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے فرمایا: حضرت عمار ؓ کی روایت کو جانے دیجیے۔ قرآن مجید میں جو آیت تیمم ہے اس کا کیا جواب ہے؟ اس پر حضرت ابن مسعود ؓ لاجواب ہو گئے، فرمانے لگے: اگر ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:346]
حدیث حاشیہ:
قرآنی آیت:
﴿أولامستم النساء﴾ (المائدة: 6)
سے صاف طور پر جنبی کے لیے تیمم کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ یہاں لمس سے جماع مراد ہے۔
عبداللہ بن مسعود ؓ یہ آیت سن کر کوئی جواب نہ دے سکے۔
ہاں ایک مصلحت کا ذکر فرمایا۔
مسندابن ابی شیبہ میں ہے کہ بعد میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنے اس خیال سے رجوع فرمالیاتھا اور امام نووی ؒ نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے بھی اپنے قول سے رجوع فرمالیاتھا۔
امام نووی ؓ فرماتے ہیں کہ اس پر تمام امت کا اجماع ہے کہ جنبی اور حائضہ اور نفاس والی سب کے لیے تیمم درست ہے، جب وہ پانی نہ پائیں یا بیمارہوں کہ پانی کے استعمال سے بیماری بڑھنے کا خطرہ ہو یا وہ حالات سفر میں ہوں اور پانی نہ پائیں توتیمم کریں۔
حضر ت عمرؓ کو یہ عمار ؓ والا واقعہ یاد نہیں رہاتھا۔
حالانکہ وہ سفرمیں عمار کے ساتھ تھے۔
مگر ان کو شک رہا۔
مگرعمار کا بیان درست تھا، اس لیے ان کی روایت پر سارے علماء نے فتویٰ دیا کہ جنبی کے لیے تیمم جائز ہے۔
حضرت عمرؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کے خیالوں کو چھوڑدیاگیا۔
جب صحیح حدیث کے خلاف ایسے جلیل القدر صحابہ کرام کا قول چھوڑا جا سکتا ہے توامام یا مجتہد کا قول خلاف حدیث کیوں کر قابل تسلیم ہوگا۔
اسی لیے ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے خود فرمادیاکہ ''إذا صح الحدیث فهومذهبي'' صحیح حدیث ہی میرا مذہب ہے۔
پس میرا جو قول صحیح حدیث کے خلاف پاؤ اسے چھوڑدینا اور حدیث صحیح پر عمل کرنا۔
رحمه اللہ تعالیٰ، آمین!
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 346   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:346  
346. حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھا جب حضرت ابوموسیٰ نے حضرت ابن مسعود سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! آپ کی کیا رائے ہے، اگر کسی کو جنابت لاحق ہو جائے اور اسے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: جب تک پانی نہ ملے وہ نماز نہ پڑھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: آپ حضرت عمار ؓ کے اس قول کی کیا تاویل کریں گے جب نبی ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: تمہیں (چہرے اور ہاتھوں کا مسح) کافی تھا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عمر ؓ کو حضرت عمار ؓ کی اس روایت سے اطمینان نہیں ہوا تھا؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے فرمایا: حضرت عمار ؓ کی روایت کو جانے دیجیے۔ قرآن مجید میں جو آیت تیمم ہے اس کا کیا جواب ہے؟ اس پر حضرت ابن مسعود ؓ لاجواب ہو گئے، فرمانے لگے: اگر ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:346]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو اور غسل کی جگہ تیمم کیا جا سکتا ہے اسی طرح اگر پانی صرف اتنا ہے جس سے پیاس بجھائی جا سکے تو ایسے حالات میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے اور اگر پانی زیادہ ہے جو وضو یا غسل کے لیے کافی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے استعمال سے کسی بیماری یا موت کا اندیشہ ہو تو بھی تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس سلسلے میں آپ نے دو روایات پیش کی ہیں، پہلی روایات مختصر بھی ہے اور اس میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی ہے امام بخاری ؒ نے دوسری روایت اس لیے بیان فرمادی تاکہ معلوم ہو جائے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے درمیان مناظرے کی اصل صورت کیا تھی؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ جنبی کو تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
اس پر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے پہلے تو حضرت عمار اور حضرت عمر ؓ کا قصہ پیش کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے مناظرا نہ اصول کے مطابق اس کا جواب دیا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت عمار ؓ کو کہا تھا کہ تم اس معاملے میں اللہ سے ڈرو۔
مطلب یہ تھا کہ آپ جس واقعے کو بطور استدلال پیش کررہتے ہیں اس کا تو خود صاحب واقعہ منکر ہے، ایسے حالات میں وہ دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بعد حضرت ابو موسیٰ ؓ نے آیت تیمم بطور دلیل پیش کی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کا جواب نہ دے سکے، بلکہ اصل مصلحت سے پردہ اٹھانے پر مجبور ہو گئے کہ میرا انکار مصلحت شرعیہ کی وجہ سے ہے کہ اس جواز کی آڑ میں ہر شخص ذرا سی سردی میں بھی تیمم کرنے لگے گا جو شریعت کا منشا نہیں۔
اس مصلحت کے پیش نظر میں یہ فتوی نہیں دینا چاہتا۔
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے جنبی کے تیمم کے متعلق اپنے اس فتوی سے رجوع فرمالیا تھا، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے، لیکن اس کی سند میں انقطاع ہے۔
(فتح الباري: 593/1)

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بطور دلیل جو آیت تیمم پیش فرمائی تھی اس میں ﴿ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ﴾ کے الفاظ ہیں اگر اس سے مراد جماع نہ ہوتا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بطور جواب کہہ سکتے تھے کہ تم جس آیت کو بطور استدلال پیش کررہے ہو۔
اس میں لمس سے مراد جماع نہیں بلکہ لمس بالید مراد ہے، یعنی یہاں تو جنابت کا قصہ ہی نہیں، بلکہ حدث اصغر کی بات ہو رہی ہے، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایسا نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی اس آیت کریمہ میں لمس سے مراد لمس بالید نہیں بلکہ جماع ہے۔
(إعلام الحدیث للخطابي: 345/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 346   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.