الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
12. باب فِي الصُّلْحِ
12. باب: صلح کا بیان۔
Chapter: Regarding reconciliation.
حدیث نمبر: 3594
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود المهري، اخبرنا ابن وهب، اخبرني سليمان بن بلال. ح وحدثنا احمد بن عبد الواحد الدمشقي، حدثنا مروان يعني ابن محمد، حدثنا سليمان بن بلال، او عبد العزيز بن محمد شك الشيخ، عن كثير بن زيد، عن الوليد بن رباح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الصلح جائز بين المسلمين"، زاد احمد إلا صلحا احل حراما، او حرم حلالا وزاد سليمان بن داود، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المسلمون على شروطهم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، أَوْ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ شَكَّ الشَّيْخُ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ"، زَادَ أَحْمَدُ إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا، أَوْ حَرَّمَ حَلَالًا وَزَادَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے درمیان مصالحت جائز ہے۔ احمد بن عبدالواحد نے اتنا اضافہ کیا ہے: سوائے اس صلح کے جو کسی حرام شے کو حلال یا کسی حلال شے کو حرام کر دے۔ اور سلیمان بن داود نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان اپنی شرطوں پر قائم رہیں گے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 14806)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/366) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: لیکن ایسی شرط سے بچیں جو شریعت میں ناجائز ہے، اور جس سے آئندہ خرابی واقع ہو گی۔

Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: Conciliation between Muslims is permissible. The narrator Ahmad added in his version: "except the conciliation which makes lawful unlawful and unlawful lawful. " Sulayman ibn Dawud added: The Messenger of Allah ﷺ said: Muslims are on (i. e. stick to) their conditions.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3587


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (5246، 2923)
رواه النسائي (3181 وسنده صحيح)

   سنن أبي داود3594عبد الرحمن بن صخرالصلح جائز بين المسلمين
   بلوغ المرام735عبد الرحمن بن صخر الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحا حرم حلالا أو أحل حراما والمسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 735  
´صلح کا بیان`
سیدنا عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے مگر ایسی صلح جائز اور درست نہیں جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر دے۔ مسلمان اپنی شرائط پر قائم ہیں (ان کی تمام شرائط ٹھیک ہیں) مگر بجز اس شرط کے جس سے کوئی حلال چیز حرام ہو جائے یا حرام چیز حلال ہو جائے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور صحیح کہا ہے اور دوسرے محدثین نے ان پر انکار کیا ہے کیونکہ اس کا ایک راوی کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف ضعیف ہے۔ ایسا محسوس و معلوم ہوتا ہے کہ ترمذی نے کثرت طرق کی وجہ سے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 735»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الأحكام، باب ما ذكر عن رسول الله صلي الله عليه وسلم في الصلح بين الناس، حديث:1352، وسنده ضعيف جدًا ولكن له شواهد كثيرة عند أبي داود وابن حبان وغيرهما.* حديث أبي هريرة أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1199، وأبوداود، القضاء، حديث:3594، «وسنده حسن»
تشریح:
1. اس حدیث میں مسلمانوں کا ذکر اس وجہ سے ہے کہ شریعت اسلامی کے احکام کے مخاطب اور مکلف مسلمان ہی ہیں‘ ورنہ جہاں تک صلح کا تعلق ہے تو وہ اہل کتاب کے دونوں گروہوں یہود و نصاریٰ کے ساتھ بھی جائز ہے اور مشرکین اور دہریہ لوگوں کے ساتھ بھی۔
2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اہل کتاب سے بھی صلح کی ہے۔
میثاق مدینہ میں یہود مدینہ کے ساتھ صلح ثابت ہے‘ نصارٰیٔ نجران کے ساتھ صلح ثابت ہے اور صلح حدیبیہ میں آپ نے مشرکین مکہ سے صلح کی۔
3. صلح کے لیے ضابطہ اور قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ صلح شریعت اسلامیہ کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو جس سے کوئی حرام چیز حلال ہو جائے یا حلال چیز حرام ہو جائے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عمرو بن عوف بن زید بن ملحہ المزنی (مزنی کے میم پر ضمہ اور زا پر فتحہ)۔
ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔
یہ کثیر بن عبد اللہ کے جد امجد ہیں۔
قدیم الاسلام تھے۔
بدر میں حاضر ہوئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حرم مدینہ کا عامل مقرر کیا۔
اللہ کے ڈر سے بہت زیادہ رونے والے تھے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں فوت ہوئے۔
«کثیر بن عبداللہ» امام شافعی اور امام ابوداود رحمہما اللہ اس کی بابت فرماتے ہیں: یہ بہت بڑا جھوٹا اور کذّاب رکن ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے اسے منکر الحدیث کہا ہے اور کہا ہے کہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ ثقہ نہیں۔
ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس نے اپنے باپ اور دادا کی سند سے ایک موضوع نسخہ روایت کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 735   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.