الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
41. باب مَنَاقِبِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضى الله عنه
41. باب: اسامہ بن زید رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3819
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن، حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، قال: حدثنا عمر بن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابيه، قال: اخبرني اسامة بن زيد، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاء علي , والعباس يستاذنان، فقالا: يا اسامة استاذن لنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله علي , والعباس يستاذنان، فقال: " اتدري ما جاء بهما؟ " , قلت: لا ادري، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لكني ادري " , فاذن لهما، فدخلا فقالا: يا رسول الله جئناك نسالك اي اهلك احب إليك؟ قال: " فاطمة بنت محمد "، فقالا: ما جئناك نسالك عن اهلك، قال: " احب اهلي إلي من قد انعم الله عليه , وانعمت عليه اسامة بن زيد "، قالا: ثم من؟ قال: " ثم علي بن ابي طالب "، قال العباس: يا رسول الله جعلت عمك آخرهم، قال: لان عليا قد سبقك بالهجرة ". قال ابو عيسى: هذا حسن وكان شعبة يضعف عمر بن ابي سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ عَلِيٌّ , وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ، فَقَالَا: يَا أُسَامَةُ اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِيٌّ , وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ، فَقَالَ: " أَتَدْرِي مَا جَاءَ بِهِمَا؟ " , قُلْتُ: لَا أَدْرِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَكِنِّي أَدْرِي " , فَأَذِنَ لَهُمَا، فَدَخَلَا فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ أَيُّ أَهْلِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: " فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ "، فَقَالَا: مَا جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ أَهْلِكَ، قَالَ: " أَحَبُّ أَهْلِي إِلَيَّ مَنْ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , وَأَنْعَمْتُ عَلَيْهِ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ "، قَالَا: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: " ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ "، قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ جَعَلْتَ عَمَّكَ آخِرَهُمْ، قَالَ: لِأَنَّ عَلِيًّا قَدْ سَبَقَكَ بِالْهِجْرَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ وَكَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ عُمَرَ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ.
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں علی اور عباس رضی الله عنہما دونوں اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے، انہوں نے کہا: اسامہ! ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگو، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علی اور عباس دونوں اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیوں آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تو معلوم ہے، پھر آپ نے انہیں اجازت دے دی وہ اندر آئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آپ سے پوچھیں کہ آپ کے اہل میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: فاطمہ بنت محمد، تو وہ دونوں بولے: ہم آپ کی اولاد کے متعلق نہیں پوچھتے ہیں، آپ نے فرمایا: میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے انعام کیا ہے، اور وہ اسامہ بن زید ہیں، وہ دونوں بولے: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: پھر علی بن ابی طالب ہیں، عباس بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے چچا کو پیچھے کر دیا، آپ نے فرمایا: علی نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- شعبہ: عمر بن ابی سلمہ کو ضعیف قرار دیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 123) (ضعیف) (سند میں عمر بن ابی سلمہ روایت حدیث میں غلطیاں کر جاتے تھے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6168) // ضعيف الجامع الصغير (168) باختصار //

   جامع الترمذي3819أسامة بن زيدأحب أهلي إلي من قد أنعم الله عليه وأنعمت عليه أسامة بن زيد قالا ثم من قال ثم علي بن أبي طالب قال العباس جعلت عمك آخرهم قال لأن عليا قد سبقك بالهجرة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3819  
´اسامہ بن زید رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں علی اور عباس رضی الله عنہما دونوں اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے، انہوں نے کہا: اسامہ! ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگو، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علی اور عباس دونوں اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیوں آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تو معلوم ہے، پھر آپ نے انہیں اجازت دے دی وہ اندر آئے اور عرض۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3819]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عمر بن ابی سلمہ روایت حدیث میں غلطیاں کر جاتے تھے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3819   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.