الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لین دین کے مسائل
14. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ إِلاَّ فِي الْعَرَايَا:
14. باب: تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا حرام ہے مگر عریہ میں درست ہے۔
حدیث نمبر: 3894
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن عبد الله بن نمير ، قالا: حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، ان عبد الله ، اخبره: ان النبي صلى الله عليه وسلم: " نهى عن المزابنة بيع ثمر النخل بالتمر كيلا، وبيع العنب بالزبيب كيلا، وبيع الزرع بالحنطة كيلا ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ ، أَخْبَرَهُ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنِ الْمُزَابَنَةِ بَيْعِ ثَمَرِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ كَيْلًا، وَبَيْعِ الْعِنَبِ بِالزَّبِيبِ كَيْلًا، وَبَيْعِ الزَّرْعِ بِالْحِنْطَةِ كَيْلًا ".
محمد بن بشیر نے کہا: ہمیں عبیداللہ نے نافع سے حدیث بیان کی کہ حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ عنہ) نے انہیں خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا، اور مزابنہ یہ ہے کہ کھجور کے تازہ پھل کو خشک کھجور کی ماپی ہوئی مقدار کے عوض بیچا جائے اور انگور کو منقیٰ کی ماپی ہوئی مقدار کے عوض بیچا جائے اور (خوشیوں میں) گندم کی کھیتی کو ماپی ہوئی مقدار کے عوض بیچا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا ہے، کھجوروں کے پھل کو خشک کھجور کے ناپ سے بیچنا، انگوروں کو منقہ کے ناپ سے بیچنا، گندم کی کھیتی کو گندم کے ناپ سے بیچنا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1542

   صحيح البخاري2345عبد الله بن عمرالأرض تكرى
   صحيح البخاري2205عبد الله بن عمرالمزابنة أن يبيع ثمر حائطه إن كان نخلا بتمر كيلا إن كان كرما أن يبيعه بزبيب كيلا كان زرعا أن يبيعه بكيل طعام
   صحيح البخاري2185عبد الله بن عمرالمزابنة اشتراء الثمر بالتمر كيلا بيع الكرم بالزبيب كيلا
   صحيح البخاري2171عبد الله بن عمرالمزابنة بيع الثمر بالتمر كيلا بيع الزبيب بالكرم كيلا
   صحيح مسلم3896عبد الله بن عمرعن المزابنة بيع ثمر النخل بالتمر كيلا بيع الزبيب بالعنب كيلا عن كل ثمر بخرصه
   صحيح مسلم3893عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة
   صحيح مسلم3894عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة بيع ثمر النخل بالتمر كيلا بيع العنب بالزبيب كيلا بيع الزرع بالحنطة كيلا
   صحيح مسلم3897عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة المزابنة أن يباع ما في رءوس النخل بتمر بكيل مسمى إن زاد فلي وإن نقص فعلي
   صحيح مسلم3899عبد الله بن عمرعن المزابنة أن يبيع ثمر حائطه إن كانت نخلا بتمر كيلا إن كان كرما أن يبيعه بزبيب كيلا إن كان زرعا أن يبيعه بكيل طعام نهى عن ذلك كله
   سنن أبي داود3361عبد الله بن عمربيع الثمر بالتمر كيلا عن بيع العنب بالزبيب كيلا عن بيع الزرع بالحنطة كيلا
   سنن النسائى الصغرى4553عبد الله بن عمرالمزابنة أن يبيع ثمر حائطه إن كان نخلا بتمر كيلا إن كان كرما أن يبيعه بزبيب كيلا كان زرعا أن يبيعه بكيل طعام نهى عن ذلك كله
   سنن النسائى الصغرى4538عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة المزابنة بيع الثمر بالتمر كيلا وبيع الكرم بالزبيب كيلا
   سنن النسائى الصغرى4537عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة المزابنة أن يباع ما في رءوس النخل بتمر بكيل مسمى إن زاد لي وإن نقص فعلي
   سنن النسائى الصغرى3963عبد الله بن عمركانت المزارع تكرى على عهد رسول الله
   سنن ابن ماجه2265عبد الله بن عمرعن المزابنة أن يبيع الرجل تمر حائطه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم494عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة، والمزابنة: بيع الثمر بالتمر كيلا، وبيع الكرم بالزبيب كيلا
   بلوغ المرام709عبد الله بن عمرنهى رسول الله عن المزابنة
   مسندالحميدي409عبد الله بن عمرأن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 494  
´مزابنہ اور محاقلہ کا بیان`
«. . . 236- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة، والمزابنة: بيع الثمر بالتمر كيلا، وبيع الكرم بالزبيب كيلا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع کیا ہے (اور مزابنہ یہ ہے کہ) درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے اور درخت پر لگے ہوئے انگوروں کو خشک انگوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 494]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2171، و مسلم 1542/72، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ دیکھئے حدیث سابق: 158
➋ دین اسلام میں پوری انسانیت کے لئے فلاح ہی فلاح ہے۔
➌ سد ذرائع کے طور پر اس ذریعے کو بند کر دینا چاہئے جس سے فساد اور شر پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 236   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2265  
´بیع مزابنہ (یعنی درخت کے اوپر کچے پھل کو سوکھے پھل کے بدلے بیچنے) اور بیع محاقلہ (یعنی غلہ کے بدلے زمین دینے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا، مزابنہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کی کھجور کو جو درختوں پر ہو خشک کھجور کے بدلے ناپ کر بیچے، یا انگور کو جو بیل پر ہو کشمش کے بدلے ناپ کر بیچے، اور اگر کھیتی ہو تو کھیت میں کھڑی فصل سوکھے ہوئے اناج کے بدلے ناپ کر بیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے منع کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2265]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیع مزابنہ ممنوع ہے۔

(2)
بیع مزابنہ کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی کھجور کے باغ کا پھل خریدے اور اس کے عوض مقررہ مقدار میں کھجوریں ادا کرے۔
یا مثلاً یوں کہے:
اس کھیت میں جوفصل تیار ہورہی ہے وہ سب میں پچاس من گندم کے عوض خریدتا ہوں۔
یہ درست نہیں کیونکہ یہ معلوم نہیں کھیت سے جو گندم حاصل ہو گی وہ پچاس من سے کم ہو گی یا زیادہ۔
کھیت کی فصل کےبارے میں اس قسم کا معاہدہ محاقلہ کہلاتا ہے جبکہ باغ کے پھل کےبارے میں یہی معاملہ مزابنہ کہلاتا ہے۔

(3)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مزابنہ میں اس صورت کو بھی شامل کیا ہے کہ کسی بغیر ماپی تولی چیز کےبارے میں کہا جائے کہ اس کی مقدار یہ ہے، مثلاً گندم کا یہ ڈھیر دس من کا ہے۔
یا اس برتن میں میرے اندازے کے مطابق پچاس لٹر تیل ہے۔
یا میں کہتا ہوں کہ مالٹوں کی اس ڈھیری میں دو سو مالٹے ہیں، اگر مقدار کم ہوئی تو اپنے پاس سے پوری کروں گا، اور اگر زیادہ ہوئی تو جتنی زیادہ ہوئی وہ میری ہو گی۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ یہ صورت بیع نہیں بلکہ دھوکے اور قمار (جوئے)
پر مبنی ایک معاملہ ہے۔ (مؤطأ امام مالك، البیوع، باب ماجاء في المزابنة والمحاقلة: 2/ 161)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2265   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3361  
´مزابنہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی ہوئی کھجور کا اندازہ کر کے سوکھی کھجور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح انگور کا (جو بیلوں پر ہو) اندازہ کر کے اسے سوکھے انگور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے اور غیر پکی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے گیہوں کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے (کیونکہ اس میں کمی و بیشی کا احتمال ہے)۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3361]
فوائد ومسائل:

درخت یا بیل پر لگے تازہ پھل کو جس کی مقدار متعین نہیں ہوسکتی۔
اس نوع کے خشک پھل سے بیچنا کہ خشک کی مقدار معلوم ومعین ہو یا گندم وغیرہ کے کھیت کو خشک گندم کے عوض بیچنا (مزابنہ) کہلاتا ہے۔


ایک جنس کا باہمی تبادلہ کرتے ہوئے تازہ اور خشک یا عمدہ اور روی کا فرق نہیں کیا جا سکتا۔
دونوں کا نقد اور برابر برابر تبادلہ کیا جائے۔
پھرعلیحدہ علیحدہ نقدی کے عوض بیچا جائے۔
البتہ عرایا جائز ہے۔
جیسے کہ ذکر آرہا ہے۔


اس میں ایک پہلو قدر کے غیر معلوم ہونے کا بھی ہے۔
کیونکہ درخت پر لگی کھجور کا حتمی وزن یا یا کیل ممکن نہیں۔


تازہ کھجور خشک ہونے کے باوجود کم ہو جاتی ہے۔
اور اس کی خشک کھجور کے عوض بیع کی ممانعت صراحت کے ساتھ آچکی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3361   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.