الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لین دین کے مسائل
16. باب النَّهْيِ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَعَنِ الْمُخَابَرَةِ وَبَيْعِ الثَّمَرَةِ قَبْلَ بُدُوِّ صَلاَحِهَا وَعَنْ بَيْعِ الْمُعَاوَمَةِ وَهُوَ بَيْعُ السِّنِينَ:
16. باب: محاقلہ اور مزابنہ اور مخابرہ کی ممانعت اور پھل کی بیع قبل صلاحیت کے اور معاومہ کا منع ہونا۔
حدیث نمبر: 3914
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن حجر ، قالا: حدثنا إسماعيل وهو ابن علية ، عن ايوب ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بمثله غير انه لا يذكر بيع السنين: هي المعاومة.وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَذْكُرُ بَيْعُ السِّنِينَ: هِيَ الْمُعَاوَمَةُ.
حماد بن زید نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ایوب نے ابوزبیر اور سعید بن میناء سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ، معاومہ، مخابرہ۔۔ ان دونوں (ابوزبیر اور سعید) میں سے ایک نے کہا: کئی سالوں کے لیے بیع کرنا ہی معاومہ ہے۔ اور استثاء والی بیر سے منع فرمایا اور عرایا (کو خشک پھل کے عوض بیچنے) کی اجازت دی
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے یہی روایت حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہما کے شاگرد ابو زبیر سے بیان کرتے ہیں۔ اور اس میں معاومہ کی تشریح بیان نہیں کی گئی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1536


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3914  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
معاومہ،
عام یا سال سے ہے،
جس کا مقصد کسی پھل دار درخت یا باغ کو چند سال کے لیے فروخت کرنا،
اور اس کو منع کرنے کا سبب غرر کا احتمال ہے،
کیونکہ معلوم نہیں اگلے سال پھل آئے گا یا نہیں،
اور اگر آئے گا تو باقی رہے گا یا کسی ناگہانی آفت کا شکار ہو جائے گا،
جس سے خریدار کو نقصان پہنچے گا اور وہ قیمت کی ادائیگی میں پس و پیش کرے گا،
جس سے آپس میں نزاع اور جھگڑا پیدا ہو گا۔
ثنیا:
اس سے مراد باغ کے کسی درخت کو فروخت کرنے سے مستثنیٰ قرار دینا ہے،
اگر بائع اپنا باغ فروخت کرتا ہے،
یا کوئی اور چیز فروخت کرتا ہے اور ایک غیر متعین درخت یا چیز کا استثناء کر لیتا ہے،
مثلا کہے کہ دو درخت یا ایک درخت میرا ہو گا۔
یا کچھ چیز میری ہو گی تو یہ بالاتفاق منع ہے۔
لیکن اگر درختوں کی تعداد معلوم ہے یا چیز کی مقدار معلوم ہے پھر وہ ایک مخصوص اور معین فروخت کو مستثنیٰ کر لیتا ہے یا چیز کی معین مقدار کا استثناء کر لیتا ہے تو پھر بالاتفاق جائز ہے۔
لیکن اگر سامان کی مقدار معلوم نہیں ہے،
مثلا گندم کا ڈھیر پڑا ہے معلوم نہیں ہے کہ گندم کتنی ہے پھر اگر وہ معین مقدار کا استثناء کرتا ہے،
مثلا اس ڈھیر سے دو صاع میں رکھوں گا۔
تو پھر امام ابو حنیفہ،
شافعی اور جمہور کے نزدیک جائز نہیں ہے۔
لیکن امام مالک کے نزدیک جائز ہے۔
صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اگر بہت کم چیز کا استثناء آتا ہے،
جس میں نزاع اور جھگڑے کا خطرہ نہیں ہے،
تو جائز ہونا چاہیے،
جس طرح اس صورت میں جائز ہے،
جب یہ کہتا ہے،
اس کا آدھا حصہ میرا ہو گا یا چوتھا حصہ میرا ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3914   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.