الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Tribulations
13. بَابُ : الْعُزْلَةِ
13. باب: (فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3979
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد , حدثنا الوليد بن مسلم , حدثني عبد الرحمن بن يزيد بن جابر , حدثني بسر بن عبيد الله , حدثني ابو إدريس الخولاني , انه سمع حذيفة بن اليمان , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يكون دعاة على ابواب جهنم , من اجابهم إليها قذفوه فيها" , قلت: يا رسول الله , صفهم لنا , قال:" هم قوم من جلدتنا , يتكلمون بالسنتنا" , قلت: فما تامرني إن ادركني ذلك؟ قال:" فالزم جماعة المسلمين وإمامهم , فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام , فاعتزل تلك الفرق كلها , ولو ان تعض باصل شجرة حتى يدركك الموت , وانت كذلك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ , حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ , حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ , أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَكُونُ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ , مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , صِفْهُمْ لَنَا , قَالَ:" هُمْ قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا , يَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا" , قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ:" فَالْزَمْ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ , فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ , فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا , وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ , وَأَنْتَ كَذَلِكَ".
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کے بلاوے پر ادھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے، میں نے عرض کیا: اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو، اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فرقوں سے علیحدگی اختیار کرو، اگرچہ تمہیں کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے حتیٰ کہ تمہیں اسی حالت میں موت آ جائے ا؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 25 (3606)، صحیح مسلم/الإمارة 13 (1827)، (تحفة الأشراف: 3362) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے یعنی جنگل میں جا کر عزلت اور گوشہ نشینی اختیار کرنا اور مرنے تک ایک درخت کی جڑ چوسنے پر قناعت کرنا، اور ان سب فرقوں سے الگ رہنا ایسے فتنہ کے زمانے میں جب نہ تو کوئی مسلمانوں کا امام ہو نہ جماعت ہو بہتر اور باعث نجات ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري3606حذيفة بن حسيلهل بعد هذا الخير من شر قال نعم قلت وهل بعد ذلك الشر من خير قال نعم فيه دخن قلت وما دخنه قال قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر دعاة إلى أبواب جهنم
   صحيح البخاري7084حذيفة بن حسيلهل بعد هذا الخير من شر قال نعم هل بعد ذلك الشر من خير قال نعم وفيه دخن قلت وما دخنه قال قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر فهل بعد ذلك الخير من شر قال نعم دعاة على أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها صفهم لنا قال هم من جلدتنا ويتكلمون بألسنتنا قلت فما
   صحيح مسلم4785حذيفة بن حسيلهل من وراء هذا الخير شر قال نعم هل وراء ذلك الشر خير قال نعم هل وراء ذلك الخير شر قال نعم كيف قال يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهداي ولا يستنون بسنتي وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان إنس كيف أصنع يا رسول الله إن أدركت ذلك قال تسمع وتطيع للأمير و
   صحيح مسلم4784حذيفة بن حسيلهل بعد هذا الخير شر قال نعم فقلت هل بعد ذلك الشر من خير قال نعم فيه دخن
   سنن أبي داود4244حذيفة بن حسيلأيكون بعده شر كما كان قبله قال نعم السيف إن كان لله خليفة في الأرض فضرب ظهرك وأخذ مالك فأطعه وإلا فمت وأنت عاض بجذل شجرة يخرج الدجال معه نهر ونار فمن وقع في ناره وجب أجره وحط وزره ومن وقع في نهره وجب وزره وحط أجره قيام الساعة
   سنن ابن ماجه3979حذيفة بن حسيلدعاة على أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها صفهم لنا قال هم قوم من جلدتنا يتكلمون بألسنتنا قلت فما تأمرني إن أدركني ذلك قال فالزم جماعة المسلمين وإمامهم فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام فاعتزل تلك الفرق كلها ولو أن تعض بأصل شجرة حتى يدركك الموت وأنت كذ
   سنن ابن ماجه3981حذيفة بن حسيلتكون فتن على أبوابها دعاة إلى النار فأن تموت وأنت عاض على جذل شجرة خير لك من أن تتبع أحدا منهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3979  
´(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کے بلاوے پر ادھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے، میں نے عرض کیا: اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو، اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3979]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبیﷺ کے بعد ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہتے ہیں جو باطل کی طرف دعوت دینے والے تھے اور عام لوگ ان کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر ان کی بات مان لیتے تھے۔

(2)
خارجی معتزلہ شیعہ اور جہیمیہ وغیرہ فرقے صحابہ وتابعین کے دور میں پیدا ہوئے۔
صحابہ و تابعین نے ان کی تردید کی اور ان کے شبہات کا ازالہ کیا۔

(3)
اختلافات کے اس دور میں صحیح راستہ وہی تھا جس پر صحابہ کرام اور تابعین قائم تھے۔
بعد میں پيدا ہونے والے اختلافات میں بھی صحابہ وتابعین کا طرز عمل ہی قابل اتباع ہے۔

(4)
جماعت المسلمین سے مراد وہ مسلمان ہیں جو ان فرقوں سے الگ ہیں مثلاً:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک فرقہ ان کی محبت میں غلو کا شکار ہوا جیسے:
کیسانیہ اور دوسرے شیعہ فرقے۔
ایک فرقہ ان کی مخالفت میں حد سے بڑھ گیا مثلاً:
خارجی اور ناصبی۔
عام مسلمانوں ان دونوں سے الگ رہے انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوخلیفہ راشد تسلیم کیا لیکن انھیں معصوم نہیں مانا ان کے لیے الله کے نور میں سے نور ہونے کا عقیدہ نہیں رکھا۔
یہی عام مسلمانوں جماعت المسلمین (مسلمانوں کی جماعت)
ہیں۔
علاوہ ازیں خروج و بغاوت کے زمانے میں خلیفہ وقت کے ساتھ رہنا بھی اسی کے مفہوم میں شامل ہے۔

(5)
مسلمانوں کے امام سے مراد وہ حکمران اور خلیفہ ہے جو اسلامی شریعت کی روشنی میں ان کے معاملات کا انتظام کرتا اور دوسرے فرائض انجام دیتا ہے مثلاً:
اسلامی سلطنت کی سر زمین کی حفاظت دشمن ملکوں کے خلاف جہاد زکاۃ وغیرہ کی وصولی اور تقسیم بیت المال کا دوسرا انتظام مجرموں کی گرفتاری اور سزا، مسلمانوں کے جھگڑوں میں فیصلے کرنا اور اس مقصد کے لیے قاضی او جج مقرر کرنا وغیرہ۔

(6)
بعض لوگوں نے مسلمانوں کی جماعت کا مصداق ایک خودساختہ جماعت کو قراردینے کی کوشش کی ہےحالانکہ جماعۃ المسلمین کا لفظ اسم علم کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔
ورنہ نہ اِمَامَهم (ان کے امام)
کے بجائےاِمَامَها (اس جماعت کا امام)
فرمایا جاتا۔
جو امام مسلمانوں کا دفاع نہیں کرسکتا اور ان پر اسلامی شریعت نافذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس کے ساتھ پیوستگی کا حکم ناقابل فہم ہے۔

(7)
فتنوں کے زمانے میں کسی پارٹی کے ساتھ مل کر دوسرے مسلمانوں کے جان ومال کو نقصان پہنچانا جائز نہیں البتہ خلیفۃ المسلمین کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف جنگ کرنا اسلامی سلطنت کے دفاع اور قوت کے لیے ضروری ہے۔

(8)
دور حاضر میں مختلف مذہبی تنظیمیں صرف تعاون علي البر کی بنیاد پر قائم ہیں۔
ان کے ساتھ وابستگی یا عدم وابستگی کا تعلق اسلام کے بنیادی احکام سے نہیں۔
ان میں سی کسی ایک جماعت یا بیک وقت متعدد جماعتوں سے تعاون درست ہے جب تک وہ کوئی غلط کام نہ کریں۔
جو کام غلط ہو اس میں تعاون جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3979   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4244  
´فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان۔`
سبیع بن خالد کہتے ہیں کہ تستر فتح کئے جانے کے وقت میں کوفہ آیا، وہاں سے میں خچر لا رہا تھا، میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ چند درمیانہ قد و قامت کے لوگ ہیں، اور ایک اور شخص بیٹھا ہے جسے دیکھ کر ہی تم پہچان لیتے کہ یہ اہل حجاز میں کا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو لوگ میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے، اور کہنے لگے: کیا تم انہیں نہیں جانتے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حذیفہ نے کہا: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھتے تھے، اور میں آپ سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا، تو ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4244]
فوائد ومسائل:
1) اللہ عزوجل کی عجیب حکمت ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں مختلف میلانات پیدا فرما دیتا ہے جس میں ان کے لیئے خیر اور برکت ہوتی ہے۔
عام صحابہ خیر کے متعلق سوال کرتے تھے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ شر کے متعلق دریافت کرتے تھے اس سے ان کے علاوہ اُمت کو بھی بہت فائدہ ہو ا۔

2) رسول اللہﷺ حالات کے مطابق ہر ایک کواسکے مناسبِ حال جواب ارشاد فرماتے تھے۔

3) جس شخص کو جس چیز کی رغبت ہو تی ہے وہ اس میں دوسروں سے فائق ہو جاتا ہے۔
چناچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول ا للہ ﷺ کے رازدان اور آیندہ کے بہت سے امور سے آگاہ تھے۔

4) فتنے میں تحفظ کے لیئے تلوار کا استعمال اسی صورت میں ہوگا جب خلیفۃ المسلمین یا مومن مخلص قائد جہاد کرے گا۔
اس صورت میں اہلِ ایمان پر لازم ہو گا کہ اسکا ساتھ دیں۔

5) اگر زمین میں مسلمان خلیفہ نہ ہو تو اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کے لیئے جنگل میں اکیلے پڑے رہنا اور فتنہ پردازوں سے الگ رہنا واجب ہو گا خواہ کسی قدر مشقت آئے۔

6) دجال کی ظاہری آسائشیں درحقیقت ہلاکت ہون گی اور ظاہری ہلاکت آفرینیاں اہلِ ایمان کے لیئے باعثِ نجات ہونگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4244   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.