الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
The Book of Musaqah
10. باب الأَمْرِ بِقَتْلِ الْكِلاَبِ وَبَيَانِ نَسْخِهِ وَبَيَانِ تَحْرِيمِ اقْتِنَائِهَا إِلاَّ لِصَيْدٍ أَوْ زَرْعٍ أَوْ مَاشِيَةٍ وَنَحْوِ ذَلِكَ.
10. باب: کتوں کے قتل کا حکم پھر اس حکم کا منسوخ ہونا اور اس امر کا بیان کہ کتے کا پالنا حرام ہے مگر شکار یا کھیتی یا جانوروں کی حفاظت کے لیے یا ایسے ہی اور کسی کام کے واسطے۔
حدیث نمبر: 4024
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وابن نمير ، قالوا: حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من اقتنى كلبا، إلا كلب صيد، او ماشية، نقص من اجره كل يوم قيراطان ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا، إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ مَاشِيَةٍ، نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ ".
زہری نے سالم سے، انہوں نے اپنے والد (حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: "جس نے شکار یا مویشیوں کے کتے کے سوا کتا رکھا اس کے اجر میں سے ہر روز دو قیراط کم ہوں گے۔"
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے مویشیوں کے کتے اور شکاری کتے کے سوا کوئی کتا رکھا، اس کے عملوں میں ہر روز دو قیراط کم ہو جائیں گے۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 1574

   صحيح البخاري5480عبد الله بن عمراقتنى كلبا ليس بكلب ماشية أو ضارية نقص كل يوم من عمله قيراطان
   صحيح البخاري5481عبد الله بن عمراقتنى كلبا إلا كلبا ضاريا لصيد أو كلب ماشية فإنه ينقص من أجره كل يوم قيراطان
   صحيح البخاري5482عبد الله بن عمراقتنى كلبا إلا كلب ماشية أو ضاريا نقص من عمله كل يوم قيراطان
   صحيح مسلم4023عبد الله بن عمرمن اقتنى كلبا إلا كلب ماشية أو ضاري نقص من عمله كل يوم قيراطان
   صحيح مسلم4025عبد الله بن عمرمن اقتنى كلبا إلا كلب ضارية أو ماشية نقص من عمله كل يوم قيراطان
   صحيح مسلم4028عبد الله بن عمرأيما أهل دار اتخذوا كلبا إلا كلب ماشية أو كلب صائد نقص من عملهم كل يوم قيراطان
   صحيح مسلم4029عبد الله بن عمرمن اتخذ كلبا إلا كلب زرع أو غنم أو صيد ينقص من أجره كل يوم قيراط
   صحيح مسلم4024عبد الله بن عمرمن اقتنى كلبا إلا كلب صيد أو ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان
   جامع الترمذي1487عبد الله بن عمرمن اقتنى كلبا ليس بضار ولا كلب ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان
   سنن النسائى الصغرى4289عبد الله بن عمرمن اقتنى كلبا نقص من أجره كل يوم قيراطان إلا ضاريا أو صاحب ماشية
   سنن النسائى الصغرى4291عبد الله بن عمرمن أمسك كلبا إلا كلبا ضاريا أو كلب ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان
   سنن النسائى الصغرى4292عبد الله بن عمرمن اقتنى كلبا إلا كلب صيد أو ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم581عبد الله بن عمرمن اقتنى كلبا ليس بكلب صيد ولا كلب ماشية نقص من اجره كل يوم قيراطان
   مسندالحميدي645عبد الله بن عمرمن اقتنى كلبا إلا كلب صيد، أو ماشية فإنه ينقص من أجره كل يوم قيراطان
   مسندالحميدي646عبد الله بن عمرمن اقتنى كلبا إلا كلب صيد، أو ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 581  
´شکار، جانوروں اور کھیتی باڑی کی حفاظت کے لئے کتا رکھنا جائز ہے`
«. . . 256- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من اقتنى كلبا ليس بكلب صيد ولا كلب ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی شکاری اور جانوروں کی حفاظت والے کتے کے علاوہ کوئی کتا پالے تو اس کے اجر و ثواب (نیکیوں) میں سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہوتی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 581]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5482، ومسلم 50/1574، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ احادیث ِ صحیحہ سے صرف تین قسم کے کتے پالنے اور رکھنے کا ثبوت ملتا ہے: شکار کے لئے، جانوروں کی حفاظت کے لئے اور کھیتی باڑی (زمین) کی حفاظت کے لئے تیسرے کتے کی دلیل کے لئے دیکھئے [صحيح بخاري 2322، صحيح مسلم 1576] اور یہی کتاب [ح 518] ان تین اقسام اور جاسوسی و تفتیش والے کتوں کے علاوہ ہر قسم کے کتے پالنا اور رکھنا حرام ہیں۔
➋ مصالح مرسلہ اور انسانوں کی خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ ایسے کتے پالنا جو چور یا گمشدہ چیز کی کھوج لگائیں، شکاری کتے کے حکم میں ہونے کی وجہ سے جائز ہیں۔
➌ ایسے اعمال سے بچنا ضروری ہے جن سے اخروی نقصان کا خدشہ ہو۔ ➍ مصلحت راجحہ کو اس کام پر ترجیح حاصل ہے جس میں نقصان زیادہ ہو۔
➎ ثقہ راوی کی زیادت مقبول ہوتی ہے۔ ➏ قیراط وزن اور پیمائش کی ایک مقدار کو کہتے ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 256   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1487  
´کتا پالنے سے ثواب میں کمی کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایسا کتا پالا یا رکھا جو سدھایا ہوا شکاری اور جانوروں کی نگرانی کرنے والا نہ ہو تو اس کے ثواب میں سے ہر دن دو قیراط کے برابر کم ہو گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1487]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
قیراط ایک وزن ہے جو اختلاف زمانہ کے ساتھ بدلتا رہا ہے،
یہ کسی چیز کا چوبیسواں حصہ ہوتا ہے،
کتا پالنے سے ثواب میں کمی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں:
ایسے گھروں میں فرشتوں کا داخل نہ ہونا،
گھروالے کی غفلت کی صورت میں برتن میں کتے کا منہ ڈالنا،
پھر پانی اور مٹی سے دھوئے بغیر اس کا استعمال کرنا،
ممانعت کے باوجود کتے کا پالنا،
گھر میں آنے والے دوسرے لوگوں کو اس سے تکلیف پہنچنا وغیرہ وغیرہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1487   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4024  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الكلب الضاري سے مراد شکار کرنے کا عادی کتا ہے،
کہتے ہیں۔
ضري الكلب:
کتا عادی بن گیا۔
فوائد ومسائل:
بغیر کسی مصلحت اور حکمت کے بلا ضرورت و فائدہ کتا رکھنا جائز نہیں ہے،
اور جو انسان جلب منفعت یا دفع مضرت کی غرض کے سوا کتا رکھتا ہے،
اس کے عملوں میں ہر روز ایک یا دو قیراط کی کمی ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4024   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.