صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
18. باب بَيْعِ الطَّعَامِ مِثْلاً بِمِثْلٍ:
18. باب: برابر برابر اناج کی بیع۔
حدیث نمبر: 4087
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا عبد الاعلى ، اخبرنا داود ، عن ابي نضرة ، قال: " سالت ابن عمر، وابن عباس، عن الصرف، فلم يريا به باسا، فإني لقاعد عند ابي سعيد الخدري ، فسالته عن الصرف، فقال: ما زاد فهو ربا، فانكرت ذلك لقولهما، فقال: لا احدثك إلا ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، جاءه صاحب نخله بصاع من تمر طيب وكان تمر النبي صلى الله عليه وسلم هذا اللون، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: انى لك هذا، قال: انطلقت بصاعين فاشتريت به هذا الصاع، فإن سعر هذا في السوق كذا وسعر هذا كذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ويلك اربيت إذا اردت ذلك، فبع تمرك بسلعة ثم اشتر بسلعتك اي تمر شئت "، قال ابو سعيد: فالتمر بالتمر احق ان يكون ربا، ام الفضة بالفضة، قال: فاتيت ابن عمر بعد، فنهاني ولم آت ابن عباس، قال: فحدثني ابو الصهباء انه سال ابن عباس عنه بمكة فكرهه.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: " سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، وَابْنَ عَبَّاسٍ، عَنِ الصَّرْفِ، فَلَمْ يَرَيَا بِهِ بَأْسًا، فَإِنِّي لَقَاعِدٌ عِنْدَ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، فَسَأَلْتُهُ عَنِ الصَّرْفِ، فَقَالَ: مَا زَادَ فَهُوَ رِبًا، فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ لِقَوْلِهِمَا، فَقَالَ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَهُ صَاحِبُ نَخْلِهِ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ طَيِّبٍ وَكَانَ تَمْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا اللَّوْنَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّى لَكَ هَذَا، قَالَ: انْطَلَقْتُ بِصَاعَيْنِ فَاشْتَرَيْتُ بِهِ هَذَا الصَّاعَ، فَإِنَّ سِعْرَ هَذَا فِي السُّوقِ كَذَا وَسِعْرَ هَذَا كَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْلَكَ أَرْبَيْتَ إِذَا أَرَدْتَ ذَلِكَ، فَبِعْ تَمْرَكَ بِسِلْعَةٍ ثُمَّ اشْتَرِ بِسِلْعَتِكَ أَيَّ تَمْرٍ شِئْتَ "، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ أَحَقُّ أَنْ يَكُونَ رِبًا، أَمْ الْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، قَالَ: فَأَتَيْتُ ابْنَ عُمَرَ بَعْدُ، فَنَهَانِي وَلَمْ آتِ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَحَدَّثَنِي أَبُو الصَّهْبَاءِ أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْهُ بِمَكَّةَ فَكَرِهَهُ.
) امام مالک نے عبدالمجید بن سہیل بن عبدالرحمان بن عوف سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو خیبر کو عامل مقرر کیا، وہ آپ کے پاس جنیب (عمدہ قسم کی) کھجور لے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "کیا خیبر کی تمام کھجور اسی طرح کی ہے؟" اس نے عرض کی: واللہ! یا رسول اللہ! نہیں۔ ہم (ملی جلی کھجور کے) دو صاع کے عوض اس کا ایک صاع اور تین کے عوض دو صاع لیتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو، ملی جلی کھجور کو درہموں کے عوض بیچ دو، پھر درہموں سے جنیب (عمدہ) کھجور خرید لو۔"
ابو نضرہ رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے نقدی کے باہمی تبادلہ کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا، میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو میں نے ان سے بھی صرف (نقدی کا باہمی تبادلہ) کے بارے میں پوچھ لیا، تو انہوں نے کہا، ایک جنس کی صورت میں جو اضافہ ہے، وہ سود ہے، تو میں نے ان دونوں (ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہم) کے قول کی بناء پر اس کا انکار کیا، تو ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میں تو تمہیں وہی بات بتا رہا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم کی کھجوروں کا نگران، آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اچھی قسم کی کھجوروں کا ایک صاع لایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کھجوریں (کم تر) قسم کی تھیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تم یہ کہاں سے لائے ہو؟ اس نے جواب دیا، میں دو صاع لے کر گیا اور ان کے عوض یہ ایک صاع خرید لایا، کیونکہ ان کا بازار میں بھاؤ یہ ہے، اور ان کا نرخ یہ (یعنی اچھی کھجوروں کا نرخ زیادہ ہے اور نکمی کا کم ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر افسوس ہے، تم نے سودی معاملہ کیا ہے جب تم اچھی کھجوریں لینا چاہو، تو اپنی کھجوریں، ایک سودہ کی صورت میں فروخت کر دو، پھر اپنے سامان (قیمت) سے جونسی کھجوریں چاہو خرید لو، ابو سعید ؓ نے سوال کیا، کھجوروں کا کھجوروں سے تبادلہ پر سود زیادہ صادق آتا ہے یا چاندی کے چاندی سے تبادلہ پر؟ (یعنی اگر کھجور کی کھجور سے تبادلہ میں کمی و بیشی سود ہے تو چاندی کے چاندی سے تبادلہ میں کمی و بیشی بالاولیٰ سود ہے) ابو نضرہ کہتے ہیں، میں بعد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کو ملا، تو انہوں نے مجھے اس سے منع کر دیا، لیکن میں ابن عباس ؓ کو نہیں ملا، لیکن مجھے ابو صبہاء نے بتایا کہ میں نے اس معاملہ کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مکہ مکرمہ میں سوال کیا، تو انہوں نے اس کو ناپسند قرار دیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1594

   صحيح البخاري2303سعد بن مالكبع الجمع بالدراهم ثم ابتع بالدراهم جنيبا
   صحيح البخاري2080سعد بن مالكلا صاعين بصاع ولا درهمين بدرهم
   صحيح مسلم4087سعد بن مالكأنى لك هذا قال انطلقت بصاعين فاشتريت به هذا الصاع فإن سعر هذا في السوق كذا وسعر هذا كذا فقال رسول الله ويلك أربيت إذا أردت ذلك فبع تمرك بسلعة ثم اشتر بسلعتك أي تمر شئت
   صحيح مسلم4082سعد بن مالكأكل تمر خيبر هكذا فقال لا والله يا رسول الله إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين والصاعين بالثلاثة فقال رسول الله فلا تفعل بع الجمع بالدراهم ثم ابتع بالدراهم جنيبا
   سنن النسائى الصغرى4560سعد بن مالكلا صاعي تمر بصاع لا صاعي حنطة بصاع لا درهمين بدرهم
   سنن النسائى الصغرى4558سعد بن مالكبع تمرك واشتر من هذا حاجتك
   سنن النسائى الصغرى4559سعد بن مالكلا صاعي تمر بصاع لا صاعي حنطة بصاع لا درهما بدرهمين
   سنن ابن ماجه2256سعد بن مالكلا يصلح صاع تمر بصاعين لا درهم بدرهمين الدرهم بالدرهم الدينار بالدينار لا فضل بينهما إلا وزنا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2256  
´بیع صرف (سونے چاندی کو سونے چاندی کے بدلے نقد بیچنے) کا بیان اور نقداً کمی و بیشی کر کے نہ بیچی جانے والی چیزوں کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مختلف قسم کی مخلوط کھجوریں کھانے کو دیتے تھے، تو ہم انہیں عمدہ کھجور سے بدل لیتے تھے، اور اپنی کھجور بدلہ میں زیادہ دیتے تھے، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک صاع کھجور کو دو صاع کھجور سے اور ایک درہم کو دو درہم سے بیچنا درست نہیں، درہم کو درہم سے، اور دینار کو دینار سے، برابر برابر وزن کر کے بیچو، ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2256]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھجور کا کھجور کےساتھ تبادلہ وزن کی کمی بیشی کےساتھ جائز نہیں۔
اسی طرح اشیاء اگر ایک جنس سے ہوں تو ان کا باہمی تبادلہ وزن کی کمی بیشی کے ساتھ جائز نہیں۔

(2)
دور نبوی میں مختلف قسم کے درہم و دینار رائج تھے لیکن ہر درہم دوسرے درہم کے برابر ہی سمجھا جاتا تھا، اسی طرح ایک قسم کا دینار دوسری قسم کے دینار سے برابر ہی سمجھا جاتا تھا، اس لیے ان کے وزن کے معمولی فرق کو نظر انداز کر دیا گیا۔

(3)
روپے کے پرانے اور نئے نوٹوں کا تبادلہ یا بڑے نوٹ کا چھوٹے نوٹوں سے تبادلہ برابری کی سطح پر ہونا چاہیے۔
سو روپے کے نئے نوٹوں کے بدلے میں پرانے نوٹوں کی صورت میں ایک سو دس روپے دینا‘ یا ایک سوروپے کے نوٹ کے بدلے میں روپے روپے والے نوٹ یا سکے کم وصول کرنا جائز نہیں کیونکہ بازار میں خرید وفروخت کے لیے نئے اور پرانے نوٹ یا سکے کی قدر میں کوئی فرق نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2256   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.