الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل
The Book on As-Shw
197. باب مَا جَاءَ فِي الْكَلاَمِ بَعْدَ رَكْعَتَىِ الْفَجْرِ
197. باب: فجر کی دونوں رکعتوں کے بعد گفتگو کے جائز ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 418
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن عيسى المروزي، حدثنا عبد الله بن إدريس، قال: سمعت مالك بن انس، عن ابي النضر، عن ابي سلمة، عن عائشة، قالت: " كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى ركعتي الفجر، فإن كانت له إلي حاجة كلمني وإلا خرج إلى الصلاة " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد كره بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم الكلام بعد طلوع الفجر حتى يصلي صلاة الفجر، إلا ما كان من ذكر الله او مما لا بد منه، وهو قول احمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَال: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَإِنْ كَانَتْ لَهُ إِلَيَّ حَاجَةٌ كَلَّمَنِي وَإِلَّا خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْكَلَامَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ حَتَّى يُصَلِّيَ صَلَاةَ الْفَجْرِ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ أَوْ مِمَّا لَا بُدَّ مِنْهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعتیں پڑھ چکتے اور اگر آپ کو مجھ سے کوئی کام ہوتا تو (اس بارے میں) مجھ سے گفتگو فرما لیتے، ورنہ نماز کے لیے نکل جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے فجر کے طلوع ہونے بعد سے لے کر فجر پڑھنے تک گفتگو کرنا مکروہ قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ وہ گفتگو ذکر الٰہی سے متعلق ہو یا بہت ضروری ہو، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التہجد 24 (1161)، و25 (1162)، صحیح مسلم/المسافرین 17 (773)، سنن ابی داود/ الصلاة 293 (1262، 1263)، (کلہم بذکر الاضطجاع علی الشق الأیمن)، (تحفة الأشراف: 17711) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فعل کے بعد اب کسی کے قول اور رائے کی کیا ضرورت؟ ہاں ابن مسعود رضی الله عنہ نے جو لوگوں کو بات کرتے دیکھ کر منع کیا تھا؟ تو یہ لایعنی گفتگو کا معاملہ ہو گا، بہرحال اجتماعی طور پر لایعنی بات چیت ایسے وقت خاص طور پر، نیز کسی بھی وقت مناسب نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1147 و 1148)

   صحيح البخاري1168عائشة بنت عبد اللهيصلي ركعتين فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع
   جامع الترمذي418عائشة بنت عبد اللهإذا صلى ركعتي الفجر فإن كانت له إلي حاجة كلمني وإلا خرج إلى الصلاة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 418  
´فجر کی دونوں رکعتوں کے بعد گفتگو کے جائز ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعتیں پڑھ چکتے اور اگر آپ کو مجھ سے کوئی کام ہوتا تو (اس بارے میں) مجھ سے گفتگو فرما لیتے، ورنہ نماز کے لیے نکل جاتے۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 418]
اردو حاشہ:
1؎:
رسول اکرم ﷺ کے فعل کے بعد اب کسی کے قول اور رائے کی کیا ضرورت؟ ہاں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو لوگوں کو بات کرتے دیکھ کر منع کیا تھا؟ تو یہ لا یعنی گفتگو کا معاملہ ہو گا،
بہر حال اجتماعی طور پر لا یعنی بات چیت ایسے وقت خاص طور پر،
نیز کسی بھی وقت مناسب نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 418   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.