الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
حدیث نمبر: 4342
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن يحيي وهو ابن سعيد ، عن بشير بن يسار ، عن سهل بن ابي حثمة ، قال يحيى: وحسبت، قال: وعن رافع بن خديج انهما ، قالا: " خرج عبد الله بن سهل بن زيد، ومحيصة بن مسعود بن زيد، حتى إذا كانا بخيبر تفرقا في بعض ما هنالك، ثم إذا محيصة يجد عبد الله بن سهل قتيلا فدفنه، ثم اقبل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم هو وحويصة بن مسعود، وعبد الرحمن بن سهل وكان اصغر القوم، فذهب عبد الرحمن ليتكلم قبل صاحبيه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كبر الكبر في السن، فصمت فتكلم صاحباه وتكلم معهما، فذكروا لرسول الله صلى الله عليه وسلم مقتل عبد الله بن سهل، فقال لهم: اتحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم او قاتلكم، قالوا: وكيف نحلف ولم نشهد؟، قال: فتبرئكم يهود بخمسين يمينا، قالوا: وكيف نقبل ايمان قوم كفار؟، فلما راى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطى عقله ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَحْيَي وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ ، قَالَ يَحْيَى: وَحَسِبْتُ، قَالَ: وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُمَا ، قَالَا: " خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ، حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَالِكَ، ثُمَّ إِذَا مُحَيِّصَةُ يَجِدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلًا فَدَفَنَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَبِّرِ الْكُبْرَ فِي السِّنِّ، فَصَمَتَ فَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ وَتَكَلَّمَ مَعَهُمَا، فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ لَهُمْ: أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُّونَ صَاحِبَكُمْ أَوْ قَاتِلَكُمْ، قَالُوا: وَكَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ؟، قَالَ: فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا، قَالُوا: وَكَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؟، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَى عَقْلَهُ ".
لیث نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے بشیر بن یسار سے اور انہوں نے حضرت سہل بن ابی حثمہ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کی، ان دونوں نے کہا: عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید (مدینہ سے) نکلے یہاں تک کہ جب خیبر میں پہنچے تو وہاں کسی جگہ الگ الگ ہو گئے، پھر (یہ ہوتا ہے کہ) اچانک محیصہ، عبداللہ بن سہل کو مقتول پاتے ہیں۔ انہوں نے اسے دفن کیا، پھر وہ خود، حویصہ بن مسعود اور (مقتول کا حقیقی بھائی) عبدالرحمان بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہ (عبدالرحمان) سب سے کم عمر تھا، چنانچہ عبدالرحمان اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے بات کرنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "بڑے کو اس کا مقام دو، " یعنی عمر میں بڑے کو، تو وہ خاموش ہو گیا، اس کے دونوں ساتھیوں نے بات کی اور ان کے ساتھ اس نے بھی بات کی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبداللہ بن سہل کے قتل کی بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: "کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے، پھر اپنے ساتھی (کے بدلے خون بہا)۔۔ یا (فرمایا:) بدلے میں اپنے قاتل (سے دیت یا قصاص لینے)۔۔ کے حقدار بنو گے؟" انہوں نے جواب دیا: ہم قسمیں کیسے کھائیں جبکہ ہم نے دیکھا نہیں؟ آپ نے فرمایا: "تو یہود پچاس قسمیں کھا کر تمہیں (ان کے خلاف تمہارے مطالبے کے حق سے) الگ کر دیں گے انہوں نے کہا: ہم کافر لوگوں کی قسمیں کیونکر قبول کریں؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صورت حال دیکھی آپ نے (اپنی طرف سے) اس کی دیت ادا کی
حضرت سہل بن ابی حثمہ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سھل ابن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید مدینہ سے نکلے اور خیبر پر پہنچ کر الگ الگ ہو گئے، پھر بعد میں محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول حالت میں پایا، اور اسے دفن کر دیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ تعالی عنہما کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور (مقتول کا بھائی عبدالرحمٰن) تینوں میں سے چھوٹا تھا۔ تو عبدالرحمٰن نے اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے کلام کرنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: بڑے کو موقعہ دو۔ یعنی عمر میں جو بڑا ہے، تو وہ خاموش ہو گیا، اور اس کے ساتھیوں نے گفتگو کی اور اس نے بھی گفتگو میں حصہ لیا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عبداللہ بن سہل کے مقتل (قتل گاہ) کا ذکر کیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: کیا تم پچاس قسمیں اٹھاتے ہوئے اپنے ساتھی کے قتل کو ثابت کرتے ہوئے قصاص یا دیت کے حقدار بنتے ہو؟ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے قاتل کا تعین کرتے ہوئے۔ انہوں نے کہا، ہم کیسے قسمیں اٹھا سکتے ہیں، جبکہ ہم وہاں موجود نہ تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہود پچاس قسمیں اٹھا کر تمہارے سامنے اپنی براءت کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا، ہم کافر لوگوں کی قسمیں کیسے تسلیم کر سکتے ہیں؟ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صورت حال دیکھی، تو آپ نے اس کی دیت ادا کر دی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1669

   صحيح البخاري6142تستحقون قتيلكم بأيمان خمسين منكم قالوا يا رسول الله أمر لم نره قال فتبرئكم يهود في أيمان خمسين منهم قالوا يا رسول الله قوم كفار فوداهم رسول الله من قبله قال سهل فأدركت ناقة من تلك الإبل فدخلت مربدا لهم فركضتني برجلها
   صحيح مسلم4342تحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم أو قاتلكم قالوا وكيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطى عقله
   صحيح مسلم4343يقسم خمسون منكم على رجل منهم فيدفع برمته قالوا أمر لم نشهده كيف نحلف قال فتبرئكم يهود بأيمان خمسين منهم
   جامع الترمذي1422تحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم قالوا وكيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطى عقله
   سنن أبي داود4520يقسم خمسون منكم على رجل منهم فيدفع برمته قالوا أمر لم نشهده كيف نحلف قال فتبرئكم يهود بأيمان خمسين منهم قالوا يا رسول الله قوم كفار قال فوداه رسول الله من قبله
   سنن النسائى الصغرى4717يقسم خمسون منكم فقالوا يا رسول الله أمر لم نشهده كيف نحلف قال فتبرئكم يهود بأيمان خمسين منهم قالوا يا رسول الله قوم كفار فوداه رسول الله من قبله
   سنن النسائى الصغرى4716تحلفون خمسين يمينا وتستحقون صاحبكم أو قاتلكم قالوا كيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطاه عقله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1422  
´قسامہ کا بیان۔`
سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی الله عنہما کہیں جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے، جب وہ خیبر پہنچے تو الگ الگ راستوں پر ہو گئے، پھر محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا، کسی نے ان کو قتل کر دیا تھا، آپ نے انہیں دفنا دیا، پھر وہ (یعنی راوی حدیث) حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن بن سہل ان میں سب سے چھوٹے تھے، وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے (اس معاملہ میں آپ سے) گفتگو کرنا چاہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1422]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
بیت المال سے یا اپنے پاس سے ادا کر دی۔
 
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1422   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4520  
´قسامہ کا بیان۔`
سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل دونوں خیبر کی طرف چلے اور کھجور کے درختوں میں (چلتے چلتے) دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے، پھر عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے، تو ان لوگوں نے یہودیوں پر تہمت لگائی، ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن سہل اور ان کے چچازاد بھائی حویصہ اور محیصہ اکٹھا ہوئے اور وہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن بن سہل جو ان میں سب سے چھوٹے تھے اپنے بھائی کے معاملے میں بولنے چلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑوں کا لحاظ کرو (اور انہیں گفتگو کا موقع دو) یا یوں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4520]
فوائد ومسائل:
قسامہ قسم سے ماخوذ ہے اور تکرار کے ساتھ قسمیں اٹھانے کے معنی میں ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب کہیں کوئی قتل ہو جائے اور اس قاتل کا علم نہ ہو اور نہ کوئی گواہی موجود ہو، مگر مقتول کے وارث کسی شخص یا اشخاص پر قتل کا دعوی رکھتے ہوں اور اس کے کچھ قرائن بھی موجود ہوں، مثلا ان لوگوں کے مابین دشمنی ہو یا ان کے علاقے میں قتل ہواہو یا کسی کے پاس سے مقتول کا سامان ملے یا اس قسم کی دیگر علامات موجود ہوں تو مدعی لوگ پہلے پچاس قسمیں کھائیں فلاں شخص یا افراد ہمارے آدمی کے قاتل ہیں۔
اس طرح ان کا دعوی ثابت ہو گا، اگر مدعی لوگ قسمیں نہ کھائیں تو مدعاعلیہ پچاس قسمیں کھا کر برمی ہو جائیں گے۔
اگر معاملہ واضح نہ ہو سکے تو بیت المال سے اس مقتول کی دیت ادا کی جائےگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4520   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4342  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قسامة،
بقول قاضی عیاض،
حدیث قسامہ،
شریعت کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے،
اور احکام کے ضابطوں میں سے ایک قاعدہ ہے،
اور بندوں کے مصالح کے ارکان میں سے ایک رکن ہے،
جسے تمام ائمہ،
صحابہ و تابعین،
اور فقہائے امصار نے قبول کیا ہے،
ائمہ اربعہ میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا،
ہاں بعض تابعین جیسے حکم بن عتیبہ،
ابو قلابہ،
سالم بن عبداللہ،
سلیمان بن یسار اور قتادہ سے قسامہ کا انکار منقول ہے،
حضرت عمر بن عبدالعزیز اور امام بخاری کی طرف سے بھی قاضی عیاض نے اس میلان کی تصریح کی ہے،
جبکہ امام بخاری کا باب القسامہ قائم کرنا اور اس میں عمر بن عبدالعزیز کا واقعہ بیان کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ قسامہ کے منکر نہیں تھے،
بلکہ قسامہ میں دیت لینے میں بقول حافظ ابن حجر،
امام شافعی،
کے ہمنوا تھے۔
(فتح الباری،
ج 12،
ص 297)

اور قسمیں لینے میں احناف کے ہمنوا تھے،
کہ قسمیں مدعی علیہم سے لی جائیں گی۔
(ج 12،
ص 298)

بقول مولانا زکریا،
احناف کے ہمنوا تھے،
کیونکہ احناف کے نزدیک قسامہ کی صورت میں،
قسمیں مدعی علیہ کو پڑیں گی،
اور اسے ہر صورت میں دیت ادا کرنا ہو گی،
قسامہ کے سلسلہ میں ائمہ میں،
اس کی تفصیلات میں بہت اختلافات ہیں،
اس لیے ہم صرف خلاصہ پیش کرتے ہیں:
(الف)
شوافع کے نزدیک،
اگر مقتول کسی فرد یا افراد کی مملوکہ زمین میں ملتا ہے،
کسی جنگل اور بیابان میں نہیں،
لیکن اس کے قاتل کا پتہ نہیں چلتا،
لیکن مقتول کے ورثاء کسی محلہ یا بستی کے کسی فرد معین یا معین افراد پر کسی ایسے قرینہ ثبوت (دشمنی و عناد)
کی بناء پر،
جس پر اعتماد و یقین کرنے کا امکان ہو،
شبہ کا اظہار کریں،
تو پھر قاضی ورثائے مقتول کی بات تسلیم کر کے مدعی یعنی اولیائے مقتول سے پچاس قسمیں لے گا،
جس میں وہ قاتل کا تعین کریں گے،
اور قتل کی نوعیت کو عمد ہے یا شبہ عمد یا خطا اس کی بھی وضاحت کریں گے،
اور اس کے مطابق مدعی علیہ سے قصاص یا دیت وصول کریں گے،
اور اگر اولیائے مقتول قسم اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوں،
تو پھر مدعی علیہم قسم اٹھائیں گے اور بری الذمہ ہو جائیں گے،
اگر اولیائے مقتول کے پاس ثبوت یعنی قرینہ قتل نہ ہو یعنی باہمی دشمنی عناد وغیرہ نہ ہو،
تو پھر مدعی کو بینہ پیش کرنا ہو گی یا مدعی علیہم سے قسمیں لی جائیں گی،
کہ میں نے یا ہم نے قتل نہیں کیا،
اور نہ مجھے یا ہمیں قاتل کا علم ہے،
اس طرح وہ بری الذمہ ہو جائیں گے،
اگر مدعی علیہم قسمیں نہ اٹھائیں،
تو پھر اولیائے مقتول قسمیں اٹھا کر دیت کے حقدار ہوں گے،
وگرنہ نہیں،
مالکیہ اور حنابلہ کا موقف بھی شوافع والا ہے،
لیکن بعض تفصیلات میں فرق ہے،
مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک قرینہ کی صورت میں مدعی علیہم پچاس قسمیں ہر صورت میں اٹھائیں گے،
جب اولیائے مقتول قسم نہ اٹھائیں،
اگر قرینہ نہ ہو تو مدعی علیہم ایک ہی قسم اٹھائے گا،
اگر مدعی علیہ قسم نہ اٹھائیں تو شوافع کے نزدیک اولیائے مقتول کو دوبارہ قسم اٹھانے کے لیے آمادہ کریں گے،
مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایسا نہیں ہو گا،
مالکیہ کے نزدیک ایسی صورت میں مدعی علیہ کو قید کیا جائے گا،
حتی کہ وہ قسم اٹھائے،
یا اقرار کرے یا پھر قید ہی میں مر جائے،
اور حنابلہ کے نزدیک ایک روایت کے مطابق دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی،
اور دوسری روایت کی رو سے جسے ابن قدامہ نے ترجیح دی ہے،
دیت مدعی علیہ پر ہو گی۔
(ب)
ائمہ حجاز اور ائمہ احناف میں فرق۔
۔
۔
(1)
ائمہ احناف کے نزدیک پہلے قسمیں اٹھانے کا حکم مدعی علیہم کو دیا جائے گا،
اور ائمہ حجاز کے نزدیک اگر بینہ نہ ہو تو پھر قسمیں اٹھانے کا حکم پہلے اولیائے مقتول پر پیش کیا جائے گا،
اگر وہ انکار کریں،
تو پھر مدعی علیہ کو قسمیں اٹھانے کے لیے کہا جائے گا۔
(2)
ائمہ حجاز کے نزدیک دعویٰ قتل ایک معین فرد یا معین افراد کے خلاف ہو گا،
بلا تعین دعویٰ مسموع نہیں ہو گا اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک بلا تعین کسی اہل محلہ کے خلاف دعویٰ ہو سکتا ہے۔
(3)
حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک مدعی علیہم کے ذمہ،
صرف دیت ہے،
جو احناف کے نزدیک ہر صورت میں مدعی علیہ کے ذمہ ہے،
جبکہ شوافع کے نزدیک بعض صورتوں میں وہ بری الذمہ ہوں گے،
اور مالکیہ کے نزدیک قرینہ کی صورت میں،
جب قتل عمد ہو،
تو مدعی علیہ کے ذمہ قصاص ہو گا،
اور بقول علامہ عبدالقادر عودہ شہید،
قسامہ کو انسانی جان کی حفاظت و صیانت کے لیے مقرر کیا گیا ہے،
کیونکہ شریعت اسلامیہ کی شدید خواہش ہے کہ انسان کا خون رائیگاں نہ جائے اور قتل کرنے والا بعض دفعہ ایسی جگہ کا انتخاب کرتا ہے جہاں کوئی اسے دیکھ نہ سکے،
اور اس کے خلاف کوئی شہادت قائم نہ ہو سکے،
اس لیے اسلامی شریعت نے انسان کی جان کی اہمیت و حفاظت کی خاطر قسامت کا قانون مقرر کیا،
اگر حدود و قصاص والی تمام شروط کا استیفا ضروری ٹھہرایا جائے،
تو بکثرت قاتل سزا سے بچ جائیں گے،
اور لوگوں کے خون و جان محفوظ نہیں رہے گے،
لیکن اس مسئلہ کی تفصیلات میں چونکہ علمائے امت میں بہت اختلافات ہیں،
اس لیے روح شریعت اور مقاصد شریعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے،
ائمہ کے اقوال کی روشنی میں،
نصوص شریعت کو سامنے رکھتے ہوئے،
موجودہ ظروف و احوال کے مطابق،
لوگوں کے خون و جان کی حفاظت کی خاطر،
مناسب قانون سازی کی جا سکتی ہے۔
(قسامہ کی تفصیلات کے لیے دیکھئے،
المغنی،
ج 12،
ص 188 تا 205،
باب القسامہ،
تکملہ،
ج 2 ص 275 تا 289،
القسامہ فی الفقہ الاسلامی محمد شمس مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4342   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.