الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان
Prescribed Punishments (Kitab Al-Hudud)
10. باب فِي الاِمْتِحَانِ بِالضَّرْبِ
10. باب: جرم کی تفتیش میں مجرم کو مارنا پیٹنا کیسا ہے؟
Chapter: Testing by means of beating.
حدیث نمبر: 4382
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن نجدة، حدثنا بقية، حدثنا صفوان، حدثنا ازهر بن عبد الله الحرازي" ان قوما من الكلاعيين سرق لهم متاع، فاتهموا اناسا من الحاكة، فاتوا النعمان بن بشير صاحب النبي صلى الله عليه وسلم، فحبسهم اياما ثم خلى سبيلهم فاتوا النعمان، فقالوا: خليت سبيلهم بغير ضرب ولا امتحان، فقال النعمان: ما شئتم إن شئتم ان اضربهم فإن خرج متاعكم فذاك وإلا اخذت من ظهوركم مثل ما اخذت من ظهورهم، فقالوا: هذا حكمك، فقال: هذا حكم الله وحكم رسوله صلى الله عليه وسلم"، قال ابو داود: إنما ارهبهم بهذا القول اي لا يجب الضرب إلا بعد الاعتراف.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَرَازِيُّ" أَنَّ قَوْمًا مِنْ الْكَلَاعِيِّينَ سُرِقَ لَهُمْ مَتَاعٌ، فَاتَّهَمُوا أُنَاسًا مِنَ الْحَاكَةِ، فَأَتَوْا النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ صَاحِبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَبَسَهُمْ أَيَّامًا ثُمَّ خَلَّى سَبِيلَهُمْ فَأَتَوْا النُّعْمَانَ، فَقَالُوا: خَلَّيْتَ سَبِيلَهُمْ بِغَيْرِ ضَرْبٍ وَلَا امْتِحَانٍ، فَقَالَ النُّعْمَانُ: مَا شِئْتُمْ إِنْ شِئْتُمْ أَنْ أَضْرِبَهُمْ فَإِنْ خَرَجَ مَتَاعُكُمْ فَذَاكَ وَإِلَّا أَخَذْتُ مِنْ ظُهُورِكُمْ مِثْلَ مَا أَخَذْتُ مِنْ ظُهُورِهِمْ، فَقَالُوا: هَذَا حُكْمُكَ، فَقَالَ: هَذَا حُكْمُ اللَّهِ وَحُكْمُ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: إِنَّمَا أَرْهَبَهُمْ بِهَذَا الْقَوْلِ أَيْ لَا يَجِبُ الضَّرْبُ إِلَّا بَعْدَ الِاعْتِرَافِ.
ازہر بن عبداللہ حرازی کا بیان ہے کہ کلاع کے کچھ لوگوں کا مال چرایا گیا تو انہوں نے کچھ کپڑا بننے والوں پر الزام لگایا اور انہیں صحابی رسول نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے پاس لے کر آئے، تو آپ نے انہیں چند دنوں تک قید میں رکھا پھر چھوڑ دیا، پھر وہ سب نعمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ نے انہیں بغیر مارے اور بغیر پوچھ تاچھ کئے چھوڑ دیا، نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں ان کی پٹائی کرتا ہوں، اگر تمہارا سامان ان کے پاس نکلا تو ٹھیک ہے ورنہ اتنا ہی تمہاری پٹائی ہو گی جتنا ان کو مارا تھا، تو انہوں نے پوچھا: یہ آپ کا فیصلہ ہے؟ نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس قول سے نعمان رضی اللہ عنہ نے ڈرا دیا، مطلب یہ ہے کہ مارنا پیٹنا اعتراف کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/قطع السارق 2 (4878)، (تحفة الأشراف: 11611) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجرم پر جب شبہ ہو تو اس کو پکڑنا صحیح ہے، مگر ناحق مار پیٹ سے اس سے اقبال جرم کرانا صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر ظلم ہے، جیسا کہ آج کل میں لوگ کرتے ہیں۔

Azhar ibn Abdullah al-Harari said: Some goods of the people of Kila' were stolen. They accused some men of the weavers (of theft). They came to an-Numan ibn Bashir, the companion of the Prophet ﷺ. He confined them for some days and then set them free. They came to an-Numan and said: You have set them free without beating and investigation. An-Numan said: What do you want? You want me to beat them. If your goods are found with them, then it is all right; otherwise, I shall take (retaliation) from your back as I have taken from their backs. They asked: Is this your decision? He said: This is the decision of Allah and His Messenger ﷺ. Abu Dawud said: By this statement he frightened them ; that is, beating is not necessary except after acknowledgement.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4369


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
نسائي (4878)
في سماع أزهر الحرازي من النعمان بن بشير نظر وھو من الطبقة الخا مسة عند ابن حجر (تقريب التهذيب:308) وقال النسائي: ”ھذا حديث منكر،لا يحتج به،أخرجته ليعرف القصاص‘‘(السنن الكبري للنسائي: 7361)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 155

   سنن أبي داود4382نعمان بن بشيرما شئتم إن شئتم أن أضربهم فإن خرج متاعكم فذاك
   سنن النسائى الصغرى4878نعمان بن بشيرإن شئتم أضربهم فإن أخرج الله متاعكم فذاك وإلا أخذت من ظهوركم مثله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4382  
´جرم کی تفتیش میں مجرم کو مارنا پیٹنا کیسا ہے؟`
ازہر بن عبداللہ حرازی کا بیان ہے کہ کلاع کے کچھ لوگوں کا مال چرایا گیا تو انہوں نے کچھ کپڑا بننے والوں پر الزام لگایا اور انہیں صحابی رسول نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے پاس لے کر آئے، تو آپ نے انہیں چند دنوں تک قید میں رکھا پھر چھوڑ دیا، پھر وہ سب نعمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ نے انہیں بغیر مارے اور بغیر پوچھ تاچھ کئے چھوڑ دیا، نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں ان کی پٹائی کرتا ہوں، اگر تمہارا سامان ان کے پاس نکلا تو ٹھیک ہے ورنہ اتنا ہی تمہاری پٹائی ہو گی جتنا ان کو مارا تھا، تو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4382]
فوائد ومسائل:
کسی ملزم یا متہم کو تحقیق کی غرض سے مارنا پیٹنا فقہاء کے نزدیک اختلافی مسئلہ ہے۔
احناف اور شوافع اس کا انکار کرتے ہیں، ممکن ہےکہ یہ شخص حقیقتًا بری الذمہ ہوتوسزا دینا ظلم ہوگا، البتہ مالکیہ اسے جائزکہتے ہیں۔
بہرحال قاضی یا حاکم کو چاہئےکہ احوال وظروف کی روشنی میں تحقیق کرے، جیسے کہ غزوہ بدر میں صحابہ رضی اللہ عنہ نے قریش کے غلام کو مارا اور اس سے خبر اگلوانے کی کوشش کی تھی۔
(صحيح مسلم، الجهاد، باب غزوة بدر، حديث:١٧٧٩)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4382   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.