الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
77. باب مَعْنَى قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى} وَهَلْ رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ لَيْلَةَ الإِسْرَاءِ:
77. باب: اس باب میں یہ بیان ہے کہ «وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى» سے کیا مراد ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ جل جلالہ کو معراج کی رات میں دیکھا تھا یا نہیں۔
Chapter: The Meaning of the Saying of Allah, The Mighty and Sublime: And indeed he saw him at a second descent (another time)"; And did the prophet (saws) see his lord on the night of the Isra?
حدیث نمبر: 439
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن داود ، عن الشعبي ، عن مسروق ، قال: كنت متكئا عند عائشة ، فقالت: يا ابا عائشة، ثلاث من تكلم بواحدة منهن، فقد اعظم على الله الفرية، قلت: ما هن؟ قالت: من زعم ان محمدا صلى الله عليه وسلم راى ربه، فقد اعظم على الله الفرية، قال: وكنت متكئا فجلست، فقلت: يا ام المؤمنين، انظريني ولا تعجليني، الم يقل الله عز وجل: ولقد رآه بالافق المبين سورة التكوير آية 23، ولقد رآه نزلة اخرى سورة النجم آية 13، فقالت: انا اول هذه الامة، سال عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " إنما هو جبريل، لم اره على صورته التي خلق عليها، غير هاتين المرتين، رايته منهبطا من السماء، سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الارض "، فقالت: اولم تسمع ان الله يقول: لا تدركه الابصار وهو يدرك الابصار وهو اللطيف الخبير سورة الانعام آية 103؟ اولم تسمع ان الله يقول: وما كان لبشر ان يكلمه الله إلا وحيا او من وراء حجاب او يرسل رسولا فيوحي بإذنه ما يشاء إنه علي حكيم سورة الشورى آية 51؟ قالت: ومن زعم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، كتم شيئا من كتاب الله، فقد اعظم على الله الفرية، والله يقول: يايها الرسول بلغ ما انزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالته سورة المائدة آية 67، قالت: ومن زعم، انه يخبر بما يكون في غد، فقد اعظم على الله الفرية، والله يقول: قل لا يعلم من في السموات والارض الغيب إلا الله سورة النمل آية 65،حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: كُنْتُ مُتَّكِئًا عِنْدَ عَائِشَةَ ، فَقَالَت: يَا أَبَا عَائِشَةَ، ثَلَاثٌ مَنْ تَكَلَّمَ بِوَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ، فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ، قُلْتُ: مَا هُنَّ؟ قَالَتْ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ، فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ، قَالَ: وَكُنْتُ مُتَّكِئًا فَجَلَسْتُ، فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْظِرِينِي وَلَا تَعْجَلِينِي، أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَقَدْ رَآهُ بِالأُفُقِ الْمُبِينِ سورة التكوير آية 23، وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى سورة النجم آية 13، فَقَالَتْ: أَنَا أَوَّلُ هَذِهِ الأُمَّةِ، سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّمَا هُوَ جِبْرِيلُ، لَمْ أَرَهُ عَلَى صُورَتِهِ الَّتِي خُلِقَ عَلَيْهَا، غَيْرَ هَاتَيْنِ الْمَرَّتَيْنِ، رَأَيْتُهُ مُنْهَبِطًا مِنَ السَّمَاءِ، سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ "، فَقَالَتْ: أَوَلَمْ تَسْمَعْ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ سورة الأنعام آية 103؟ أَوَلَمْ تَسْمَعْ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ سورة الشورى آية 51؟ قَالَتْ: وَمَنْ زَعَمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَتَمَ شَيْئًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ، وَاللَّهُ يَقُولُ: يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ سورة المائدة آية 67، قَالَتْ: وَمَنْ زَعَمَ، أَنَّهُ يُخْبِرُ بِمَا يَكُونُ فِي غَدٍ، فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَة، وَاللَّهُ يَقُولُ: قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ الْغَيْبَ إِلا اللَّهُ سورة النمل آية 65،
اسماعیل بن ابراہیم نے داود سے، انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے مسروق سے روایت کی، کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ابو عائشہ! (یہ مسروق کی کنیت ہے) تین چیزیں ہیں جس نے ان میں سے کوئی بات کہی، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا، میں نے پوچھا: وہ باتیں کون سی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےرب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ انہوں نےکہا: میں ٹیک لگائے ہوئے تھا تو (یہ بات سنتے ہی) سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور کہا: ام المومنین!مجھے (بات کرنے کا) موقع دیجیے اور جلدی نہ کیجیے، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا: بےشک انہوں نے اسے روشن کنارے پر دیکھا (اسی طرح) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک بار اترتے ہوئے دیکھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں اس امت میں سب سے پہلی ہوں جس نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےسوال کیا تو آپ نے فرمایا: وہ یقیناً جبریل رضی اللہ عنہ ہیں، میں انہیں اس شکل میں، جس میں پیدا کیے گئے، دو دفعہ کے علاوہ کبھی نہیں دیکھا: ایک دفعہ میں نے انہیں آسمان سے اترتے دیکھا، ان کے وجود کی بڑائی نے آسمان و زمین کےدرمیان کی وسعت کو بھر دیا تھا پھر ام المومنین نے فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا: آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے اور وہ باریک بین ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے اور کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور کسی بشر میں طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے ذریعے سے یا پردے کی اوٹ سے یا وہ کسی پیغام لانےوالا (فرشتے) کو بھیجے تو وہ اس کے حکم سے جو چاہے وحی کرے بلاشبہ وہ بہت بلند اوردانا ہے۔ (ام المومنین نے) فرمایا: جوشخص یہ سمجھتا ہے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے رسول! پہنچا دیجیے جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اور اگر (بالفرض) آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہ پہنچایا (فریضئہ رسالت ادا نہ کیا۔) (اور) انہوں نے فرمایا: اور جوشخص یہ کہے کہ آپ اس بات کی خبر دے دیتے ہیں کہ کل کیا ہو گا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اے نبی!) فرما دیجیے! کوئی ایک بھی جو آسمانوں اور زمین میں ہے، غیب نہیں جانتا، سوائے اللہ کے۔
مسروقؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہؓ کے پاس ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا، کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: اے ابو عائشہ! (مسروق کی کنیت ہے) تین چیزیں ہیں، جو کوئی ان میں سے کسی کا قائل ہوا اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ میں نے پوچھا: وہ باتیں کون سی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، تو اس نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں بہت بڑا جھوٹ بولا۔ مسروقؒ کہتے ہیں: میں ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا، تو سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور میں نے کہا: اے مومنوں کی ماں! مجھے بات کرنے کا موقع دیجیے! مجھ سے جلدی نہ کیجیے، کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں ہے؟ بے شک انھوں نے اسے روشن کنارے پر دیکھا۔ (تکویر: 23) ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ﴾ (نجم) اور انھوں نے اسے ایک اور بار اترتے دیکھا۔ تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا: اس امت میں سب سے پہلے میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو جبریلؑ ہیں۔ میں نے ان کو ان دو دفعہ کے علاوہ ان کی اصل صورت میں جس میں وہ پیدا کیے گئے ہیں، نہیں دیکھا۔ میں نے انھیں ایک دفعہ آسمان سے اترتے دیکھا۔ ان کی جسامت کی بڑائی نے آسمان و زمین کا درمیان بھر دیا تھا۔ پھر ام المومنین نے فرمایا: کیا تو نے اللہ کا فرمان نہیں سنا: آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ آنکھوں کا ادراک کر سکتا ہے (آنکھیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ آنکھوں کو پا سکتا ہے) اور وہ باریک بین خبردار ہے۔ (انعام: 103) اور تو نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا؟ اور کسی بشر میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ، یا پردے کی اوٹ سے یا وہ کسی رسول فرشتے کو بھیجے۔ جو اللہ کی مرضی سے جو وہ چاہے وحی کرے۔ بلا شبہ وہ بلند اور حکیم ہے۔ (شوریٰ:51) ام المومنینؓ نے فرمایا: جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا، تو اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اے رسول! تیرے رب کی طرف سے تجھ پر جو کچھ اتارا گیا ہے، پہنچا دیجیے۔ اگر (بالفرض) آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے فریضۂ رسالت ادا نہیں کیا۔ (مائدہ:67) اور انھوں نے فرمایا: اور جو شخص یہ کہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کل کو ہونے والی بات کی خبر دیتے تھے، تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فرما دیجیے! جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کے سوا وہ غیب نہیں جانتا۔ (نمل: 65)
ترقیم فوادعبدالباقی: 177

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: ﴿ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ﴾ باختصار برقم (4612) وفى، باب: سورة والنجم برقم (4855) مختصراً وفي التوحيد، باب: قول الله تعالى ﴿ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴾ و ﴿ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ و ﴿ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ ﴾ و ﴿ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ﴾ و ﴿ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ باختصار برقم (7380) وفى، باب: قول الله تعالى: ﴿ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ﴾ برقم (7531) باختصار - والترمذي في ((جامعه)) في تفسير القرآن، باب: ومن سورة الانعام وقال: حديث حسن صحيح برقم (3068) وفي، باب: ومن سورة النجم برقم (3278) انظر ((التحفه)) برقم (17613)»

   صحيح البخاري7531عائشة بنت عبد اللهمن حدثك أن النبي كتم شيئا من الوحي فلا تصدقه إن الله يقول يأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالته
   صحيح البخاري3234عائشة بنت عبد اللهمن زعم أن محمدا رأى ربه فقد أعظم لكن قد رأى جبريل في صورته وخلقه ساد ما بين الأفق
   صحيح البخاري4612عائشة بنت عبد اللهمن حدثك أن محمدا كتم شيئا مما أنزل الله عليه فقد كذب والله يقول يأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك
   صحيح البخاري7380عائشة بنت عبد اللهمن حدثك أن محمدا رأى ربه فقد كذب وهو يقول لا تدركه الأبصار
   صحيح البخاري4855عائشة بنت عبد اللهلقد قف شعري مما قلت أين أنت من ثلاث من حدثكهن فقد كذب من حدثك أن محمدا رأى ربه فقد كذب قرأت لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير ما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب وم
   صحيح مسلم439عائشة بنت عبد اللهإنما هو جبريل لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض فقالت أولم تسمع أن الله يقول لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير
   جامع الترمذي3068عائشة بنت عبد اللهإنما ذاك جبريل ما رأيته في الصورة التي خلق فيها غير هاتين المرتين رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء والأرض ومن زعم أن محمدا كتم شيئا مما أنزل الله عليه فقد أعظم الفرية على الله يقول الله يأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3234  
´شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو اس نے بڑی جھوٹی بات زبان سے نکالی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِينَ...: 3234]

تخريج الحديث:
[112۔ البخاري فى: 59 كتاب بدي الخلق: 7 باب إذا قال أحدكم آمين۔۔۔۔ 3234]

فھم الحدیث:
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شب معراج اللہ کو دیکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو نور ہے (یا نور کے پردے میں ہے) میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ [مسلم: كتاب الايمان 178]
سابق مفتی اعظم سعودیہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دینا میں بیداری کی حالت میں کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ [مجموع فتاويٰ ابن باز 27/ 118]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 112   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3068  
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: (۱) جس نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائی۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3068]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بے شک محمد نے اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (النجم: 13)

2؎:
بے شک انہوں نے اسے آسمان کے روشن کنارے پر دیکھا (التکویر: 23)

3؎:
جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو (النساء: 67)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3068   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 439  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
الْفِرْيَةَ:
جمع فَرِي من گھڑت بات،
جھوٹ۔
(2)
أَنْظِرِينِي:
انظار سے ہے،
مہلت دینا،
ڈھیل دینا،
مجھے مہلت دیجئے۔
(3)
سَادًّا:
سد سے ہے روکنا،
بند کر دینا۔
(4)
عُِظَْمُ:
عین پر پیش اور ظاء ساکن ہے یا عین پر زیر اور ظاء پر زبر ہے،
بڑائی جسامت کے اعتبار سے۔
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے "قَالَ" اس نے فرمایا اسی طرح "اللہُ یَقُوْلُ" اللہ فرماتا ہے کہنا درست ہے۔
خود قرآن مجید میں ہے ﴿وَاللَّـهُ يَقُولُ الْحَقَّ﴾ وہ حق فرماتا ہے۔
(الأحزاب: 5) (2)
غیب کا علم،
اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے،
اس کے سوا کوئی رسول،
فرشتہ،
ولی اور صالح انسان غیب نہیں جانتا،
بعض نے اس آیت کے ترجمے میں بریکٹ کےاندر لکھا ہے (بالذات یعنی اللہ تعالیٰ کے بتلائے بغیر) (شرح صحیح مسلم: 1/775)
،
سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا تو وہ غیب کہاں رہا۔
(3)
رسول اللہ ﷺ نے پورے کا پورا مکمل قرآن امت تک پہنچا دیا ہے،
کیونکہ اگر آپ اس میں کسی قسم کی کوتاہی کرتے،
تویہ فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی،
اس لیے شیعہ کا یہ دعویٰ ہے،
کہ موجودہ قرآن اصل سے کم ہے۔
یہ ایک بہتان اور افترا ہے جو ایمان کے منافی ہے۔
(4)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی طرح حضرت عائشہؓ کی رائے بھی یہی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو معراج میں اللہ کا دیدار نہیں ہوا۔
(اس مسئلہ پر بحث ہم آگے کریں گے)
۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 439   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.