صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
78. بَابُ حَجَّةُ الْوَدَاعِ:
78. باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
(78) Chapter. Hajjat-ul-Wada.
حدیث نمبر: 4400
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد، حدثنا سريج بن النعمان، حدثنا فليح، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" اقبل النبي صلى الله عليه وسلم عام الفتح وهو مردف اسامة على القصواء ومعه بلال وعثمان بن طلحة حتى اناخ عند البيت، ثم قال لعثمان:" ائتنا بالمفتاح"، فجاءه بالمفتاح، ففتح له الباب، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم واسامة، وبلال، وعثمان، ثم اغلقوا عليهم الباب، فمكث نهارا طويلا، ثم خرج وابتدر الناس الدخول، فسبقتهم فوجدت بلالا قائما من وراء الباب، فقلت له: اين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: صلى بين ذينك العمودين المقدمين، وكان البيت على ستة اعمدة سطرين صلى بين العمودين من السطر المقدم، وجعل باب البيت خلف ظهره، واستقبل بوجهه الذي يستقبلك حين تلج البيت بينه وبين الجدار، قال: ونسيت ان اساله كم صلى وعند المكان الذي صلى فيه مرمرة حمراء".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ عَلَى الْقَصْوَاءِ وَمَعَهُ بِلَالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ حَتَّى أَنَاخَ عِنْدَ الْبَيْتِ، ثُمَّ قَالَ لِعُثْمَانَ:" ائْتِنَا بِالْمِفْتَاحِ"، فَجَاءَهُ بِالْمِفْتَاحِ، فَفَتَحَ لَهُ الْبَابَ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُسَامَةُ، وَبِلَالٌ، وَعُثْمَانُ، ثُمَّ أَغْلَقُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ، فَمَكَثَ نَهَارًا طَوِيلًا، ثُمَّ خَرَجَ وَابْتَدَرَ النَّاسُ الدُّخُولَ، فَسَبَقْتُهُمْ فَوَجَدْتُ بِلَالًا قَائِمًا مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ، فَقُلْتُ لَهُ: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: صَلَّى بَيْنَ ذَيْنِكَ الْعَمُودَيْنِ الْمُقَدَّمَيْنِ، وَكَانَ الْبَيْتُ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ سَطْرَيْنِ صَلَّى بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ مِنَ السَّطْرِ الْمُقَدَّمِ، وَجَعَلَ بَابَ الْبَيْتِ خَلْفَ ظَهْرِهِ، وَاسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ الَّذِي يَسْتَقْبِلُكَ حِينَ تَلِجُ الْبَيْتَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِدَارِ، قَالَ: وَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى وَعِنْدَ الْمَكَانِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ مَرْمَرَةٌ حَمْرَاءُ".
مجھ سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے سریج بن نعمان نے بیان کیا، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قصواء اونٹنی پر پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما بھی تھے آپ نے کعبہ کے پاس اپنی اونٹنی بٹھا دی اور عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کعبہ کی کنجی لاؤ، وہ کنجی لائے اور دروازہ کھولا۔ آپ اندر داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسامہ، بلال اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی اندر گئے، پھر دروازہ اندر سے بند کر لیا اور دیر تک اندر (نماز اور دعاؤں میں مشغول) رہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو لوگ اندر جانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے اور میں سب سے آگے بڑھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے۔ دو قطاروں میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے کی قطار کے دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی۔ کعبہ کا دروازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ کی طرف تھا اور چہرہ مبارک اس طرف تھا، جدھر دروازے سے اندر جاتے ہوئے چہرہ کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے اور دیوار کے درمیان (تین ہاتھ کا فاصلہ تھا)۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یہ پوچھنا میں بھول گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعت نماز پڑھی تھی۔ جس جگہ آپ نے نماز پڑھی تھی وہاں سرخ سنگ مرمر بچھا ہوا تھا۔

Narrated (Abdullah) bin `Umar: The Prophet arrived (at Mecca) in the year of the Conquest (of Mecca) while Usama was riding behind him on (his she-camel)'. Al-Qaswa.' Bilal and `Uthman bin Talha were accompanying him. When he made his she-camel kneel down near the Ka`ba, he said to `Uthman, "Get us the key (of the Ka`ba). He brought the key to him and opened the gate (of the Ka`ba), for him. The Prophet, Usama, Bilal and `Uthman (bin Talha) entered the Ka`ba and then closed the gate behind them (from inside). The Prophet stayed there for a long period and then came out. The people rushed to get in, but I went in before them and found Bilal standing behind the gate, and I said to him, "Where did the Prophet pray?" He said, "He prayed between those two front pillars." The Ka`ba was built on six pillars, arranged in two rows, and he prayed between the two pillars of the front row leaving the gate of the Ka`ba at his back and facing (in prayer) the wall which faces one when one enters the Ka`ba. Between him and that wall (was the distance of about three cubits). But I forgot to ask Bilal about the number of rak`at the Prophet had prayed. There was a red piece of marble at the place where he (i.e. the Prophet) had offered the prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 683




تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4400  
´حجۃ الوداع کا بیان`
«. . . عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ عَلَى الْقَصْوَاءِ وَمَعَهُ بِلَالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ حَتَّى أَنَاخَ عِنْدَ الْبَيْتِ، ثُمَّ قَالَ لِعُثْمَانَ:" ائْتِنَا بِالْمِفْتَاحِ"، فَجَاءَهُ بِالْمِفْتَاحِ، فَفَتَحَ لَهُ الْبَابَ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُسَامَةُ، وَبِلَالٌ، وَعُثْمَانُ، ثُمَّ أَغْلَقُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ، فَمَكَثَ نَهَارًا طَوِيلًا، ثُمَّ خَرَجَ وَابْتَدَرَ النَّاسُ الدُّخُولَ، فَسَبَقْتُهُمْ فَوَجَدْتُ بِلَالًا قَائِمًا مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ، فَقُلْتُ لَهُ: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: صَلَّى بَيْنَ ذَيْنِكَ الْعَمُودَيْنِ الْمُقَدَّمَيْنِ، وَكَانَ الْبَيْتُ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ سَطْرَيْنِ صَلَّى بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ مِنَ السَّطْرِ الْمُقَدَّمِ، وَجَعَلَ بَابَ الْبَيْتِ خَلْفَ ظَهْرِهِ، وَاسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ الَّذِي يَسْتَقْبِلُكَ حِينَ تَلِجُ الْبَيْتَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِدَارِ، قَالَ: وَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى وَعِنْدَ الْمَكَانِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ مَرْمَرَةٌ حَمْرَاءُي . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قصواء اونٹنی پر پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما بھی تھے آپ نے کعبہ کے پاس اپنی اونٹنی بٹھا دی اور عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کعبہ کی کنجی لاؤ، وہ کنجی لائے اور دروازہ کھولا۔ آپ اندر داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسامہ، بلال اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی اندر گئے، پھر دروازہ اندر سے بند کر لیا اور دیر تک اندر (نماز اور دعاؤں میں مشغول) رہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو لوگ اندر جانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے اور میں سب سے آگے بڑھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے۔ دو قطاروں میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے کی قطار کے دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی۔ کعبہ کا دروازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ کی طرف تھا اور چہرہ مبارک اس طرف تھا، جدھر دروازے سے اندر جاتے ہوئے چہرہ کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے اور دیوار کے درمیان (تین ہاتھ کا فاصلہ تھا)۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یہ پوچھنا میں بھول گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعت نماز پڑھی تھی۔ جس جگہ آپ نے نماز پڑھی تھی وہاں سرخ سنگ مرمر بچھا ہوا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4400]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4400 کا باب: «بَابُ حَجَّةُ الْوَدَاعِ:»
ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت انتہائی مشکل ہے، اس کا اعتراف کرتے ہوئے،
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قد اشتكل دخول هذا الحديث فى باب حجة الوداع، لأن فيه التصريح بأن القصة كانت عام الفتح وعام الفتح كان سنة ثمان و حجة الوداع كانت سنة عشر»
باب حجۃ الوداع میں اس حدیث کا داخل ہونا مناسبت کے اعتبار سے انتہائی مشکل ہے، کیونکہ فتح مکہ کا واقعہ سنہ ۸ ہجری کا ہے اور حجۃ الوداع کا واقعہ سنہ ۱۰ ہجری کا ہے۔ (لہٰذا ان کی آپس میں مناسبت نہیں ہے)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے واضح طور پر اقرار کر لیا کہ ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت بہت مشکل ہے۔

محمد داؤد راز رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس حدیث کی مناسبت باب سے معلوم نہیں ہوتی، فتح مکہ ۸ ہجری میں ہوا اور حجۃ الوداع 10 ہجری میں وقوع میں آیا، شاید یہی فرق بتلانا مقصود ہو کہ حجۃ الوداع مکہ کے بعد وقوع میں آیا ہے۔
محمد داود راز رحمہ اللہ نے مناسبت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ حجۃ الوداع فتح مکہ کے بعد وقوع پذیر ہوا۔

جہاں تک مناسبت کا تعلق ہے، یہ حقیر اور ناکارہ بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ترجمہ طالب اور حدیث کے ذریعے کسی اور مخفی چیز کی طرف بھی اشارہ فرما رہے ہیں جس پر غور و فکر کرنا انتہائی ضروری ہے۔

پہلی مناسبت یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر خاص بیت اللہ کے قصد کے لیے نہ تھا، بلکہ اس موقع پر آپ کا جو سفر تھا وہ جہاد اور غزوہ کے ارادے کا تھا، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس دن آپ کا سفر اور مقصد صرف بیت اللہ ہی کا تھا۔

دوسری مناسبت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ضعیف اور ناکارہ بندے کو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی فتوحات اور لوگوں کا جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا فتح مکہ کے بعد ہی تھا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے واضح اشارہ فرمایا کہ:
«إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ * وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ٭ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا.» [110-النصر:3 - 1]
یہ سورۃ مبارکہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی جس میں جوق در جوق لوگوں کے اسلام میں داخل ہونے کی پیشن گوئی ہے اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ نزول کے اعتبار سے یہ آخری سورۃ ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بھی اشارہ ہے، اس سورۃ کا تعلق فتح مکہ کے واقعہ کے ساتھ ہے اور جو حجۃ الوداع کے خطبہ کا واقعہ ہے اس خطبہ کے آغاز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ:
«ايها الناس اسمعوا قولي، فاني لا أدري لا ألقاكم بعد عامي هذا .» [تاريخ ابن هشام: 603/2]
اے لوگو! میری بات غور سے سنو، پس مجھے نہیں معلوم کہ میں اس سال کے بعد آپ سے ملوں گا کہ نہیں۔
یعنی خطبہ حجۃ الوداع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کی خبر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سنا دی، اب ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت پر غور کیجئے کہ تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے جس میں فتح مکہ کا ذکر ہے، اس دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہ قرآن نازل کر کے صرف آپ علیہ السلام کی وفات کا اشارہ فرمایا گیا مگر حجۃ الوداع جو کہ باب ہے اس میں مکمل طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کی خبر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دے دی، لہٰذا یہ بھی دقیق مناسبت کا پہلو موجود ہے، اب اگر غور کیا جائے تو ایک اور بھی ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت بنتی ہے وہ یہ کہ فتح مکہ کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ النصر نازل ہوئی جو کہ نزول کے اعتبار سے آخری سورت ہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ حجۃ الوداع سے فارغ ہوئے تو آپ پر سورہ مائدہ کی آیت نازل ہوئی:
«الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.» [5-المائدة:3]
اس آیت میں دین کو مکمل کرنے کی بشارت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی گئی۔ لہٰذا سورۃ النصر جو فتح مکہ کے روز نازل ہوئی اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا اشارہ تھا اور سورہ المائدہ میں دین مکمل کرنے کا حکم موجود ہے، لہٰذا یہاں پر یہ مناسبت بھی موجود ہے کہ دین کا تعلق اور اس کی تکمیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ وابستہ ہے، آپ کے بعد نہ ہی دین میں کسی امر پر زیادتی ہو گی اور نہ ہی کمی۔۔۔۔۔
فتح مکہ کی حدیث کے الفاظ پر غور کریں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو بیت اللہ کا دروازہ بند کر دیا، جو کہ اس بات کی طرف دقیق اشارہ ہے کہ اب دین کے احکامات کے نزول اور نزول وحی کا سلسلہ عنقریب بند ہونے والا ہے، لہٰذا ایسا ہی ہوا کہ صرف دو سال بعد یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 56