الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
84. بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ:
84. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
(84) Chapter. The sickness of the Prophet and his death.
حدیث نمبر: 4441
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الصلت بن محمد، حدثنا ابو عوانة، عن هلال الوزان، عن عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي لم يقم منه:" لعن الله اليهود اتخذوا قبور انبيائهم مساجد"، قالت عائشة: لولا ذلك لابرز قبره خشي ان يتخذ مسجدا.(مرفوع) حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ هِلَالٍ الْوَزَّانِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي لَمْ يَقُمْ مِنْهُ:" لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ"، قَالَتْ عَائِشَةُ: لَوْلَا ذَلِكَ لَأُبْرِزَ قَبْرُهُ خَشِيَ أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا.
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا، ان سے ہلال بن ابی حمید وزان نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو اپنی رحمت سے دور کر دیا کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی کھلی رکھی جاتی لیکن آپ کو یہ خطرہ تھا کہ کہیں آپ کی قبر کو بھی سجدہ نہ کیا جانے لگے۔

Narrated `Urwa bin Az-Zubair: `Aisha said, "The Prophet said during his fatal illness, "Allah cursed the Jews for they took the graves of their prophets as places for worship." `Aisha added, "Had it not been for that (statement of the Prophet ) his grave would have been made conspicuous. But he was afraid that it might be taken as a place for worship."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 725


   صحيح البخاري4441عائشة بنت عبد اللهلعن الله اليهود اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد
   صحيح البخاري1330عائشة بنت عبد اللهلعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مسجدا
   صحيح البخاري1390عائشة بنت عبد اللهلعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد
   صحيح مسلم1184عائشة بنت عبد اللهلعن الله اليهود و النصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد
   سنن النسائى الصغرى2048عائشة بنت عبد اللهلعن الله قوما اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت قبل الحديث 1330  
´قبروں پر مسجد بنانا مکروہ ہے`
«وَلَمَّا مَاتَ الْحَسَنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ الله عَنْهُمْ ضَرَبَتِ امْرَأَتُهُ الْقُبَّةَ عَلَى قَبْرِهِ سَنَةً , ثُمَّ رُفِعَتْ فَسَمِعُوا صَائِحًا , يَقُولُ: أَلَا هَلْ وَجَدُوا مَا فَقَدُوا؟ فَأَجَابَهُ الْآخَرُ بَلْ يَئِسُوا فَانْقَلَبُوا.»
اور جب حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم فوت ہوئے تو ان کی بیوی (فاطمہ بنت حسین) نے ایک سال تک قبر پر خیمہ لگائے رکھا۔ آخر خیمہ اٹھایا گیا تو لوگوں نے ایک آواز سنی کیا ان لوگوں نے جن کو کھویا تھا ‘ ان کو پایا؟ دوسرے نے جواب دیا نہیں بلکہ ناامید ہو کر لوٹ گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: Q1330]

فقہ الحدیث
منکرین حدیث اس پر اعتراض کرتے ہیں:
پس دیکھئے کہ اس حدیث سے مسجد پر قبر بنانے کی کراہیت، جس کا باب میں دعویٰ کیا گیا ہے، مطلق ثابت نہیں ہوتی۔
{أقول:} اللہ اکبر! کس قدر دھوکہ دہی سے کام لیا گیا ہے؟ دعویٰ تو یہ کیا کہ باب اور حدیث میں مطابقت نہیں، اور پیش کیا باب اور ترجمہ باب!

اے جناب! حسن بن حسین کی وفات کا واقعہ کیا حدیث ہے؟ کیا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو «حدثنا» کے بعد ذکر کیا ہے؟
ہرگز نہیں، بلکہ حدیث تو اس کے بعد خود علیحدہ ہے کہ «لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور انبيائهم مسجدا» جس سے قبروں پر مسجد بنانے کی ممانعت صاف عیاں ہے، وفات حسن کا واقعہ تو ترجمہ باب میں ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ وہ حدیث ہے، جسے آپ نے حدیث کر کے لکھا ہے، جس سے آپ کی حدیث دانی کا راز طشت ازبام ہو گیا۔

افسوس کہ جس کو حدیث کی تعریف معلوم نہ ہو اور یہ تمیز نہ کر سکے کہ حدیث کون سی ہے؟ وہ بھی اس میدان میں قدم مارنے کو آمادہ ہو؟ ہاں اگر یہ سوال کرتے کہ اس باب اور ترجمہ باب میں مطابقت نہیں ہے، تو کسی قدر قابل التفات ہوتا، اور ہم جواب دیتے کہ اس کے نیچے صاف لکھا ہے: یعنی وہ قبر پر قبہ نصب کر کے جب ایک سال تک مقیم رہی۔‏‏‏‏

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومناسبة هذا الأثر لحديث الباب أن المقيم فى الفسطاط لا يخلو من الصلاة هناك، فيلزم اتخاذ المسجد عند القبر، وقد يكون القبر فى جهة القبلة، فتزداد الكراهة.»

نیز فرماتے ہیں:
«وإنما ذكره البخاري لموافقته للأدلة الشرعية، لا لأنه دليل برأسه.» [فتح الباري 200/3]
تو پنج وقتی نماز کے لیے خاص مصلٰی کے طور پر ضرور کوئی جگہ مقرر کی ہو گی، اور اس میں نماز ادا کرتی ہو گی، یہ نماز اس کی اس میں ناجائز ہوئی۔
افسوس کہ جس کتاب سے آپ اعتراض کرتے ہیں، اسی کے نیچے مطابقت بتلا دی گئی ہے۔
   دفاع صحیح بخاری، حدیث\صفحہ نمبر: 103   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4441  
4441. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے اپنی اس بیماری میں فرمایا جس سے دوبارہ نہ اٹھ سکے: اللہ تعالٰی یہود پر لعنت کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا تو آپ کی قبر کو برسر عام ظاہر کر دیا جاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4441]
حدیث حاشیہ:
غالبا آپ کی اس مبارک دعا کی برکت تھی کہ قبر مبارک کو اب بالکل مسقف کر کے بند کردیا گیا ہے۔
یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ آج ساری دنیا میں صرف ایک ہی سچے آخری رسول اللہ ﷺ کی قبر محفوظ ہے اور وہ بھی اس حالت میں کہ وہاں کوئی کسی بھی قسم کی پوجا پاٹ نہیں۔
(ﷺ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4441   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4441  
4441. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے اپنی اس بیماری میں فرمایا جس سے دوبارہ نہ اٹھ سکے: اللہ تعالٰی یہود پر لعنت کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا تو آپ کی قبر کو برسر عام ظاہر کر دیا جاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4441]
حدیث حاشیہ:
قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کی دوصورتیں ہیں۔
۔
قبروں کو براہ راست سجدہ کیا جائے۔
۔
نماز پڑھتے وقت قبر کو اپنے اور قبلے کے درمیان کیا جائے۔
یہودی لوگ یہ دونوں صورتیں اختیار کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔
اسی اندیشے کی برکت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر کو چھت کے زریعے سے بند کردیا گیا ہے۔
یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ آج تمام کائنات میں صرف ایک ہی سچے آخری رسول اللہ ﷺ کی قبر محفوظ ہے اور وہ بھی اس حالت میں کہ وہاں کسی بھی قسم کی پوجا پاٹ نہیں کی جاتی۔
والله المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4441   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.