الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جھگڑوں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب
The Book of Judicial Decisions
5. باب النَّهْيِ عَنْ كَثْرَةِ الْمَسَائِلِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ وَالنَّهْيِ عَنْ مَنْعٍ وَهَاتٍ وَهُوَ الاِمْتِنَاعُ مِنْ أَدَاءِ حَقٍّ لَزِمَهُ أَوْ طَلَبُ مَا لاَ يَسْتَحِقُّهُ:
5. باب: بہت پوچھنے سے اور مال کو تباہ کرنے سے ممانعت۔
حدیث نمبر: 4486
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا مروان بن معاوية الفزاري ، عن محمد بن سوقة ، اخبرنا محمد بن عبيد الله الثقفي ، عن وراد ، قال: كتب المغيرة إلى معاوية: سلام عليك اما بعد فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن الله حرم ثلاثا، ونهى عن ثلاث، حرم عقوق الوالد، وواد البنات، ولا وهات، ونهى عن ثلاث قيل، وقال، وكثرة السؤال، وإضاعة المال ".حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ وَرَّادٍ ، قَالَ: كَتَبَ الْمُغِيرَةُ إِلَى مُعَاوِيَةَ: سَلَامٌ عَلَيْكَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ ثَلَاثًا، وَنَهَى عَنْ ثَلَاثٍ، حَرَّمَ عُقُوقَ الْوَالِدِ، وَوَأْدَ الْبَنَاتِ، وَلَا وَهَاتِ، وَنَهَى عَنْ ثَلَاثٍ قِيلَ، وَقَالَ، وَكَثْرَةِ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ ".
محمد بن عبیداللہ ثفقی نے ہمیں وراد سے خبر دی، انہوں نے کہا: حضرت مغیرہ (بن شعبہ رضی اللہ عنہ) نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا: آپ پر سلامتی ہو۔ اس کے بعد! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "بلاشبہ اللہ نے تین حرام کی ہیں اور تین چیزوں سے منع فرمایا ہے: اس نے والد کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے اور نہ دو اور لاؤ (اپنے ذمے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے اور ناجائز حقوق کا مطالبہ کرنے) کو حرام کیا ہے۔ اور تین باتوں سے منع کیا ہے: قیل و قال (فضول باتوں) سے، کثرتِ سوال سے، اور مال ضائع کرنے سے
حضرت وراد سے روایت ہے کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھا، سلامت رہو، اس کے بعد واضح ہو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: اللہ تعالیٰ نے والدین کی نافرمانی، بچیوں کو زندہ دفن کرنا، دوسروں کا حق رد کرنا اور ان سے ناجائز مطالبہ کرنا حرام قرار دیا ہے اور تین چیزوں سے روکا ہے، فضول بحث و مباحثہ، بکثرت مانگنا اور مال ضائع کرنا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 593

   صحيح البخاري2408مغيرة بن شعبةالله حرم عليكم عقوق الأمهات وأد البنات منع وهات كره لكم قيل وقال كثرة السؤال إضاعة المال
   صحيح البخاري5975مغيرة بن شعبةالله حرم عليكم عقوق الأمهات منعا وهات وأد البنات كره لكم قيل وقال كثرة السؤال إضاعة المال
   صحيح البخاري1477مغيرة بن شعبةالله كره لكم ثلاثا قيل وقال إضاعة المال كثرة السؤال
   صحيح مسلم4483مغيرة بن شعبةالله حرم عليكم عقوق الأمهات وأد البنات منعا وهات كره لكم ثلاثا قيل وقال كثرة السؤال إضاعة المال
   صحيح مسلم4485مغيرة بن شعبةالله كره لكم ثلاثا قيل وقال إضاعة المال كثرة السؤال
   صحيح مسلم4486مغيرة بن شعبةالله حرم ثلاثا نهى عن ثلاث حرم عقوق الوالد وأد البنات لا وهات نهى عن ثلاث قيل وقال كثرة السؤال إضاعة المال
   بلوغ المرام1254مغيرة بن شعبةإن الله حرم عليكم عقوق الامهات وواد البنات ومنعا وهات وكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1254    
والدہ کی ایذا رسانی حرام ہے
«وعن المغيرة بن شعبة رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏إن الله حرم عليكم عقوق الامهات وواد البنات ومنعا وهات وكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال ‏‏‏‏ متفق عليه»
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کر دیا ہے ماؤں کو ستانا اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا اور (خود) کچھ نہ دینا اور (دوسروں سے کہنا) لا مجھے دے اور تمہارے لیے ناپسند کیا (یہ کہنا کہ) یہ کہا گیا اور فلاں نے کہا اور زیادہ سوال کرنا اور مال ضائع کرنا۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1254]
تخریج:
[بخاري 5975]،
[مسلم/الاقضية 12]

مفردات:
«عقوق» مصدر ہے جو کہ «بر» کی ضد ہے۔ «برالوالدين» والدین سے اچھا سلوک «عقوق الوالدين» ان کا دل دکھانا، بدسلوکی کرنا «عق» کا لفظی معنی قطع کرنا ہے۔
«الامهات» «امهة» کی جمع ہے۔ «ام» ماں «امة» اور «امهة» بھی کہتے ہیں۔ «ام» کی جمع «امات» ہے۔ جمع کے صیغے میں یہ فرق ہے کہ «امهات» صرف ذوی العقول کے لئے آتا ہے جبکہ «امات» غیر ذوی العقول کے لئے۔ کبھی کبھی اس کا الٹ بھی ہو جاتا ہے۔ [لسان العرب]
«منعا» اپنے ذمے جو چیزیں لازم ہیں ادا نہ کرنا۔ مثلاً مال، حسن سلوک وغیرہ
«هَاتِ» فعل امر بمعنی «آت» یعنی لا دے۔ بعض کہتے ہیں «آت» کے ہمزہ کو ہاء سے بدل دیا ہے۔ «آتي» «يوتي» دینا یعنی دوسروں کے حقوق ادا نہ کرنا اور اپنے لیے ہر چیز کا مطالبہ کرتے چلے جانا۔

فوائد:
➊ اس حدیث میں والدہ کے دل دکھانے کا ذکر خاص طور پر کیا ہے حالانکہ ماں باپ دونوں کے ساتھ ہی احسان کا حکم ہے اور والد کا دل دکھانا بھی حرام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے کیونکہ وہ اولاد کی مشقت زیادہ اٹھاتی ہے۔
«وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ» [31-لقمان:14]
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق وصیت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اسے اٹھایا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کر۔
صحیحین کی ایک حدیث میں آپ نے تین دفعہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی چوتھی دفعہ باپ کا ذکر فرمایا۔ ماں کا ذکر خاص طور پر اس لیے بھی کیا کہ کمزور ہونے کی وجہ سے اولاد اسے زیادہ ستاتی ہے۔
«عقوق» سے مراد اولاد کا ہر وہ قول یا فعل ہے جس سے ماں باپ کو تکلیف ہوتی ہو بشرطیکہ وہ بھی ضد میں نہ آئے ہوئے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«‏‏‏‏رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا» ‏‏‏‏ [17-الإسراء:25]
تمہارا رب اس چیز کو خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے اگر تم صالح ہو گے تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔
اسی طرح شرک یا اللہ کی نافرمانی سے بچنے میں والدین کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ «لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق» خالق کی نافرمانی میں مخلوق کا حکم ماننا جائز نہیں [شرح السنة 44/10، حديث: 2455]
«وواد البنات» اہل جاہلیہ عام طور پر بیٹیوں کو اس لیے زندہ درگور کر دیتے تھے کہ جنگ میں دشمن کے ہاتھ نہ آ جائیں اور اس لیے بھی کہ لڑکے تو کمائیں گے جنگ میں معاون بنیں گے لڑکیاں تو بوجھ ہی بوجھ ہیں۔ کئی لوگ فقر کے ڈر سے اولاد کو قتل کر دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَلا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ» ‏‏‏‏ اپنی اولاد کو فقیری کے ڈر سے قتل مت کرو۔ قدیم جاہلیت میں یہ کام انفرادی طور پر ہوتا تھا۔ جاہلیت جدیدہ میں حکومتیں منظم طریقے سے یہ کام کر رہی ہیں مثلاً چین کے دہریوں نے دو بچوں سے زائد بچے پیدا کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے اگر کسی عورت کے ہاں تیسرا بچہ پیدا ہو جائے تو زچہ خانے میں ہی حکومت کی مقرر کردہ نرسیں اور ڈاکٹر اسے زہر کا ٹیکا لگا کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ امریکہ اور دوسرے کافر ملک مسلمان ممالک میں بھی یہ قانون نافذ کروانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ ابھی تک ترغیب و تحریص سے کام لیا جا رہا ہے اگلا قدم جبر کا ہو گا افسوس کہ مسلمان حکمران بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے اور اس کو رازق سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو رزق کے ٹھیکیدار سمجھ کر مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے ہو چکے ہیں اللہ تعالی ہدایت عطا فرمائے۔
«وَمَنْعا وهات» خود کسی کو کچھ نہ دینا اور دوسروں سے ہر چیز کا تقاضا ہی کرتے چلے جانا جس طرح پیروں کا لطیفہ مشہور ہے کہ تم آؤ گے تو کیا لاؤ گے اور ہم آئیں گے تو کیا کھلاؤ گے۔ یہ نہایت ہی خست بات ہے۔
«قيل و قال» یہ کہا گیا اور فلاں نے کہا اس صورت میں یہ فعل ماضی مجہول اور معروف کے صیغے ہیں یہ دونوں لفظ اسم کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں «قُلْتُ قَوْلاً وقيلا وقالا» میں نے بات کہی۔ بعض اوقات «قيل و قال» فعل کے لفظ سے استعمال ہوتا ہے مگر مراد اسم ہوتا ہے۔
➏ تمہارے لیے «قيل و قال» کو ناپسند کیا اس میں کئی چیزیں شامل ہیں۔
(الف) لوگوں کے متعلق سنی سنائی باتیں بلا تحقیق آگے پہنچانا یا تحقیق کر کے دوسروں کو سناتے رہنا پہلی صورت میں جھوٹ اور بہتان کا مرتکب ہو گا دوسری صورت میں غیبت اور چغلی کا ارتکاب کرے گا کیونکہ عموماً لوگ پسند نہیں کرتے کہ ان کے متعلق بات کی جائے۔
(ب) لوگوں کے عیوب اور کمزوریاں بیان کرتے چلے جانے سے انسان اپنی حالت سے بے پروا ہو جاتا ہے اس لیے قیل و قال کو ناپسند فرمایا صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من قال هلك الناس فهو اهلكهم» ‏‏‏‏ جو کہے کہ لوگ برباد ہو گئے وہ ان سے زیادہ برباد ہے۔ [مسم البر 139]
(ج) دین کے بارے میں لوگوں کے اختلاف کو بیان کرتے چلے جانا۔ فلاں امام نے یہ کہا فلاں نے یہ، بعض علماء یوں بیان فرماتے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے وغیرہ وغیرہ اور پختہ اور اصل بات کا فیصلہ نہ کرنا۔
اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے ساتھ دوسروں کے اقوال ذکر کرنا مسلمان کو زیب ہی نہیں دیتا خصوصاً جب وہ کتاب و سنت کے خلاف ہوں اس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی سبکی ہوتی ہے۔
«دعوا كل قول عند قول محمد ... فما آمن فى دينه كمخاطر»
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے سامنے ہر بات چھوڑ دو کیونکہ اپنے دین میں امن والا آدمی اس شخص کی طرح نہیں جو خطرے میں پڑا ہوا ہے۔
ہاں اگر رد کے لیے ایسے اقوال ذکر کئے جائیں تو کوئی حرج نہیں مگر وہ قیل قال نہیں ہو گا۔ بلکہ قیل و قال کا رد ہو گا۔
دوسری خرابی یہ ہے کہ قیل و قال سننے والا پریشان ہو جاتا ہے کہ میں ان اقوال میں سے کون سا قول اختیار کروں اور آخر کار دین سے ہی منحرف ہو جاتا ہے۔
تیسری یہ کہ جب انسان زیادہ قیل و قال ذکر کرتا ہے تو بہت سی باتیں بغیر تحقیق کر جاتا ہے جس سے اس کا شمار جھوٹے لوگوں میں ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «كفي بالمرء كذبا ان يحدث بكل ما سمع» [مقدمه صحيح مسلم] آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ جو کچھ سنے آگے بیان کر دے۔
چوتھی یہ کہ قیل و قال میں بہت سی باتیں ایسی کرے گا جن کا اسے نہ دین میں کوئی فائدہ ہے نہ دنیا میں اس لیے زیادہ باتیں کرنا ہے ہی نامناسب۔ فرمان الہی ہے:
«وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ» [23-المؤمنون:3]
اور (ایمان والے وہ ہیں) جو بے فائدہ باتوں سے روگردان رہتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من حسن اسلام المرء تركه ما لا يعنيه»
یہ بات آدمی کے اسلام کے حسن میں سے ہے کہ وہ بے مقصد چیزیں چھوڑ دے۔
«وكثره السوال» اس میں بھی کئی چیزیں شامل ہیں۔
(الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سوال کرنا اس لیے منع تھا کہ ایسا نہ ہو کہ کسی سوال کرنے سے مسلمانوں کے لئے وہ چیزیں حرام ہو جائیں جو سکوت کی وجہ سے جائز تھیں۔
«لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ» [5-المائدة:101]
ایسی چیزوں کے متعلق سوال نہ کرو کہ اگر تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔
(ب) بلا ضرورت لوگوں کے حالات کی جستجو کرنا ان کے ذاتی معاملات کے متعلق پوچھنا خواہ مخواہ کا تجسس ناپسندیدہ عمل ہے۔
(ج) ایسے سوال کرنا جن کا وجود ہی نہیں محض فرضی صورتیں صورتیں ہیں یا ابھی تک وجود میں نہیں آئیں سلف صالحین اسے سخت ناپسند فرماتے تھے۔ مثلاً بعض رائے پرستوں نے سوال پیدا کیا کہ اگر کتے نے بکری سے جفتی کی اور بچہ مشترک پیدا ہوا تو حلال ہے یا حرام؟ پھر خود ہی جواب دیا کہ دیکھنا چاہیے کہ گوشت اور گھاس سامنے رکھ کر اگر گاس کھاتا ہے تو حلال ہے اور گوشت کھاتا ہے تو حرام اگر دونوں کھائے تو اس کو مارا جائے گا اگر بھونکے تو کتے کے حکم میں ہے ورنہ بکری کے اگر دونوں آوازیں کرتا ہو تو ذبح کیا جائے اگر اوجھری نکلے تو کھایا جائے ورنہ نہیں . . .
ان لوگوں کو محض سوال پیدا کرنے اور ان کا جواب گھڑنے سے غرض تھی یہ نہیں کہ کہیں ایسا ہوا بھی ہے یا ہو سکتا بھی ہے۔ بتائیے کتے اور بکری کی جفتی سے پیدا ہونے والا جانور کہاں پایا جاتا ہے؟
(د) علماء کو پھنسانے اور نیچا دکھانے کے لیے سوال کرنا اکرام مسلم کے خلاف ہے اور اکرام علم کے بھی خلاف ہے۔
(ھ) لوگوں سے مال یا دوسری چیزیں مانگنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ سے بیعت کی کہ تم لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے۔ ان میں سے کئی حضرات نے اس عہد کی اتنی پابندی کی کہ اگر گھوڑے سے ان کا کوڑا گر پڑتا تو کسی کو پکڑانے کے لیے نہ کہتے بلکہ خود اتر کر پکڑتے اور دوبارہ سوار ہو جاتے [مسلم حديث 1043]
«واضاعة المال» مال ضائع کرنا، ناجائز جگہوں میں خرچ کرنا یا اپنی حیثیت یا موقع کی مناسبت سے بڑھ کر خرچ کرنا مال کو ضائع کرنا ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 72   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4486  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
والدین کی نافرمانی بالاتفاق کبیرہ گناہ ہے،
لیکن بعض جگہ صرف ماؤں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور بعض جگہ والد کا اور ماں باپ کی نافرمانی اس صورت میں گناہ کبیرہ ہے،
جب ان کی بات خلاف شریعت نہ ہو،
کیونکہ یہ اصول ہے لَا طَاعَةَ لِمَخلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الخَالق،
مخلوق کی خاطر،
خالق کی نافرمانی کرنا جائز نہیں ہے،
لیکن رویہ ہر صورت میں ان کے ساتھ نرمی اور ملائمت کا ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4486   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.