الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: صلاۃ وترکے ابواب
The Book on Al-Witr
6. باب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ بِخَمْسٍ
6. باب: پانچ رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Five (Rak'ah) For Al-Witr
حدیث نمبر: 459
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور الكوسج، حدثنا عبد الله بن نمير، حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " كانت صلاة النبي صلى الله عليه وسلم من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر من ذلك بخمس لا يجلس في شيء منهن إلا في آخرهن، فإذا اذن المؤذن قام فصلى ركعتين خفيفتين " قال: وفي الباب عن ابي ايوب، قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، وقد راى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم الوتر بخمس، وقالوا: لا يجلس في شيء منهن إلا في آخرهن، قال ابو عيسى: وسالت ابا مصعب المديني عن هذا الحديث، كان النبي صلى الله عليه وسلم " يوتر بالتسع والسبع " قلت: كيف يوتر بالتسع والسبع، قال: " يصلي مثنى مثنى ويسلم ويوتر بواحدة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَتْ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْوِتْرَ بِخَمْسٍ، وَقَالُوا: لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَأَلْتُ أَبَا مُصْعَبٍ الْمَدِينِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ " قُلْتُ: كَيْفَ يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ، قَالَ: " يُصَلِّي مَثْنَى مَثْنَى وَيُسَلِّمُ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل (تہجد) تیرہ رکعت ہوتی تھی۔ ان میں پانچ رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں، ان (پانچ) میں آپ صرف آخری رکعت ہی میں قعدہ کرتے تھے، پھر جب مؤذن اذان دیتا تو آپ کھڑے ہو جاتے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوایوب رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ (جس) وتر کی پانچ رکعتیں ہیں، ان میں وہ صرف آخری رکعت میں قعدہ کرے گا،
۴- میں نے اس حدیث کے بارے میں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نو اور سات رکعت وتر پڑھتے تھے ابومصعب مدینی سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نو اور سات رکعتیں کیسے پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو دو رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے جاتے، پھر ایک رکعت وتر پڑھ لیتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 17 (737)، (تحفة الأشراف: 16981) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1209 و 1210)، صلاة التراويح

قال الشيخ زبير على زئي: (459) إسناده ضعيف
الحارث الأعور ضعيف (تقدم:282) وأبو اسحاق عنعن (تقدم:107)

   سنن أبي داود57عائشة بنت عبد اللهلا يرقد من ليل ولا نهار فيستيقظ إلا تسوك قبل أن يتوضأ
   جامع الترمذي459عائشة بنت عبد اللهصلاة النبي من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر من ذلك بخمس لا يجلس في شيء منهن إلا في آخرهن فإذا أذن المؤذن قام فصلى ركعتين خفيفتين
   صحيح مسلم1720عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر من ذلك بخمس لا يجلس في شيء إلا في آخرها
   سنن أبي داود1338عائشة بنت عبد اللهيصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر منها بخمس لا يجلس في شيء من الخمس حتى يجلس في الآخرة فيسلم
   سنن أبي داود1359عائشة بنت عبد اللهيصلي ثلاث عشرة ركعة بركعتيه قبل الصبح يصلي ستا مثنى مثنى ويوتر بخمس لا يقعد بينهن إلا في آخرهن
   مسندالحميدي195عائشة بنت عبد اللهأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يوتر بخمس لا يجلس إلا في آخرهن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 57  
´آدمی رات کو اٹھے تو مسواک کرے`
«. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَرْقُدُ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ فَيَسْتَيْقِظُ، إِلَّا تَسَوَّكَ قَبْلَ أَنْ يَتَوَضَّأَ . . .»
. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی رات کو یا دن کو سو کر اٹھتے تو وضو کرنے سے پہلے مسواک کرتے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 57]
فوائد و مسائل:
➊ یہ روایت ضعیف ہے اور بعض کے نزدیک «ولا نهار» کے الفاظ ثابت نہیں۔ (یعنی سو کر اٹھنے کے بعد یہ اہتمام صرف رات کو کرتے تھے)۔
➋ مسواک کرنے کے بہت سے فائدے ہیں اور سب سے بڑا فائدہ یہ کہ مسواک اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا ذریعہ اور اس سے منہ بھی پاک صاف ہو جاتا ہے، جیسا کہ کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ «السواك مطهرة للفم مرضاة للرب» [سنن نسائي، حديث: 5] مسواک، منہ کو پاک صاف کرنے والی اور رب کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔
➌ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہےکہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کام کرنے ہی سے اس کی رضامندی حاصل ہوتی ہے، لہٰذا مسواک کرتے وقت یہی نیت اور ارادہ ہو کہ اس سے ہمارا اللہ ہم سے راضی ہو جائے۔ اطباء اور ڈاکٹر حضرات نے بھی اس کے بہت سے فائدے ذکر کیے ہیں۔
➍ مسواک کرنے سے منہ اور حلق کی آلائشیں بکثرت زائل اور ختم ہو جاتی ہیں۔ مسواک صرف دانتوں ہی تک محدود نہ رکھی جائے بلکہ زبان اور حلق کے قریب تک کی جائے، خصوصاً صبح سو کر اٹھنے پر اسی طرح کیا جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سو کر بیدار ہوتے تو مسواک کرتے، اور اس میں مبالغہ کرتے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے عَا عاَ، اُع اُع، اور اہ اہ کی آواز یں نکلتیں۔
➎ ہمارے پیش نظر یہ بات ہونی چائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسواک کا اہتمام و التزام کیا ہے، نیز امت کو بھی اسی قدر تاکید فرمائی ہےاور اگر امت پر مشقت اور بارگراں کا خطرہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہر وضو اور ہر نماز کے وقت ضرور ی قرار دیتے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منہ کی ذرا سی بو کو بھی پسند نہ کرتے تھے اسی لیے سو کر اٹھتے تو فوراً مسواک کرتے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 57   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.