الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
24. باب رَدِّ الْمُهَاجِرِينَ إِلَى الأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمْ مِنَ الشَّجَرِ وَالثَّمَرِ حِينَ اسْتَغْنَوْا عَنْهَا بِالْفُتُوحِ:
24. باب: انصار نے جو مہاجرین کو دیا تھا وہ ان کو واپس ہونا جب اللہ تعالیٰ نے غنی کر دیا مہاجرین کو۔
حدیث نمبر: 4604
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وحامد بن عمر البكراوي ، ومحمد بن عبد الاعلى القيسي كلهم، عن المعتمر واللفظ لابن ابي شيبة، حدثنا معتمر بن سليمان التيمي ، عن ابيه ، عن انس : ان رجلا، وقال حامد، وابن عبد الاعلى " ان الرجل كان يجعل للنبي صلى الله عليه وسلم النخلات من ارضه، حتى فتحت عليه قريظة، والنضير، فجعل بعد ذلك يرد عليه ما كان اعطاه، قال انس: وإن اهلي امروني ان آتي النبي صلى الله عليه وسلم، فاساله ما كان اهله اعطوه او بعضه؟، وكان نبي الله صلى الله عليه وسلم قد اعطاه ام ايمن، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فاعطانيهن فجاءت ام ايمن فجعلت الثوب في عنقي، وقالت: والله لا نعطيكاهن وقد اعطانيهن، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم يا ام ايمن: اتركيه ولك كذا وكذا، وتقول: كلا والذي لا إله إلا هو، فجعل يقول: كذا، حتى اعطاها عشرة امثاله او قريبا من عشرة امثاله ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ كُلُّهُمْ، عَنْ الْمُعْتَمِرِ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ رَجُلًا، وَقَالَ حَامِدٌ، وَابْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى " أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ يَجْعَلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلاتِ مِنْ أَرْضِهِ، حَتَّى فُتِحَتْ عَلَيْهِ قُرَيْظَةُ، وَالنَّضِيرِ، فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ يَرُدُّ عَلَيِهِ مَا كَانَ أُعْطَاهُ، قَالَ أَنَسٌ: وَإِنَّ أَهْلِي أَمَرُونِي أَنْ آتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْأَلَهُ مَا كَانَ أَهْلُهُ أَعْطَوْهُ أَوْ بَعْضَهُ؟، وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْطَاهُ أُمَّ أَيْمَنَ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَانِيهِنَّ فَجَاءَتْ أُمُّ أَيْمَنَ فَجَعَلَتِ الثَّوْبَ فِي عُنُقِي، وَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا نُعْطِيكَاهُنَّ وَقَدْ أَعْطَانِيهِنَّ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أُمَّ أَيْمَنَ: اتْرُكِيهِ وَلَكِ كَذَا وَكَذَا، وَتَقُولُ: كَلَّا وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: كَذَا، حَتَّى أَعْطَاهَا عَشْرَةَ أَمْثَالِهِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ عَشْرَةِ أَمْثَالِهِ ".
ابوبکر بن ابی شیبہ، حامد بن عمر بکراوی اور محمد بن عبدالاعلیٰ قیسی، سب نے معتمر سے حدیث بیان کی۔۔ الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں۔ ہمیں معتمر بن سلیمان تیمی نے اپنے والد کے واسطے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ کوئی آدمی۔۔ جبکہ حامد اور عبدالاعلیٰ نے کہا: کوئی مخصوص آدمی۔۔ اپنی زمین سے کھجوروں کے کچھ درخت (فقرائے مہاجرین کی خبر گیری کے لیے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص کر دیتا تھا، حتی کہ قریظہ اور بنونضیر آپ کے لیے فتح ہو گئے تو اس کے بعد جو کسی نے آپ کو دیا تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کرنا شروع کر دیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ سے وہ سب یا اس کا کچھ حصہ مانگوں، جو ان کے گھر والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو دے دیا تھا۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے وہ سب کا سب مجھے دے دیا، اس پر ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں، میرے گلے میں کپڑا ڈالا اور کہنے لگیں: اللہ کی قسم! ہم وہ (درخت) تمہیں نہیں دیں گے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہمیں دے چکے ہیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ام ایمان! اسے چھوڑ دو، اتنا اتنا تمہارا ہوا وہ کہتی تہیں: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! اور آپ اسی طرح فرماتے رہے حتی کہ آپ نے اسے دس گنا یا تقریبا دس گنا عطا فرما دیا
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ کوئی آدمی اپنی زمین سے کچھ کھجوروں کے درخت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیتا حتی کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے علاقے فتح کر لیے گئے تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کو جو اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دیا، اس کو واپس کرنے لگے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میرے گھر والوں نے مجھے کہا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپصلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کروں کہ میرے گھر والوں نے آپ کو جو درخت دئیے تھے، وہ سب یا ان میں سے بعض واپس کر دیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہ ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا کو دے چکے تھے، میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وہ درخت مجھے دے دئیے تو حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا نے آ کر میرے گلے میں کپڑا ڈال لیا اور کہا، اللہ کی قسم! آپ وہ درخت تمہیں نہیں دے سکتے، جبکہ وہ مجھے دے چکے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام ایمن! اسے چھوڑ دے، میں تمہیں اتنے اتنے درخت دیتا ہوں۔ اور وہ کہتی رہی ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے، اتنے لے لو حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس سے دس گنا یا اس سے دس گنا کے قریب درخت دئیے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1771

   صحيح البخاري4030أنس بن مالكالرجل يجعل للنبي النخلات حتى افتتح قريظة والنضير فكان بعد ذلك يرد عليهم
   صحيح البخاري4120أنس بن مالكلك كذا وتقول كلا والله حتى أعطاها حسبت أنه قال عشرة أمثاله أو كما قال
   صحيح البخاري3128أنس بن مالكالرجل يجعل للنبي النخلات حتى افتتح قريظة والنضير فكان بعد ذلك يرد عليهم
   صحيح مسلم4604أنس بن مالكاتركيه ولك كذا وكذا وتقول كلا والذي لا إله إلا هو فجعل يقول كذا حتى أعطاها عشرة أمثاله أو قريبا من عشرة أمثاله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4604  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مہاجرین،
جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے،
تو ان کے مکانات اور جائیدادیں مکہ مکرمہ میں رہ گئیں تھی،
اس لیے انصار نے انہیں مکانات فراہم کیے اور انہیں اپنی زمینوں میں شریک کرنے کی پیش کش کی،
جس کو مہاجرین نے مزارعت بٹائی یا مساقات (باغبانی)
کی صورت میں قبول کیا،
لیکن کچھ لوگوں کو کھجوروں کے درختوں کا پھل ان کی ضرورت کے تحت منیحہ کی صورت میں دیا گیا اور جب بنو قریظہ کے علاقے فتح ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جائیدادیں اور باغات مہاجرین میں تقسیم کر دئیے،
حضرت ام یمن نے یہ خیال کیا کہ مجھے تو درخت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عنایت فرمائے ہیں،
اس لیے یہ میرے ہیں،
حالانکہ ان کو پھلوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے دئیے گئے تھے،
چونکہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے بچپن میں آپ کی پرورش و پرداخت کی تھی،
اس لیے آپ نے اس کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کا ناز برداشت کیا اور ان کو راضی کر کے،
درخت واپس دلوائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4604   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.