الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
25. باب جَوَازِ الْأَكُلِ مِنْ طَعَامِ الْغَنِيمَةِ فِي دَارِ الْحَرْبِ
25. باب: غنیمت کے مال میں اگر کھانا ہو تو دار الحرب میں اس کا کھانا درست ہے۔
حدیث نمبر: 4606
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن بشار العبدي ، حدثنا بهز بن اسد ، حدثنا شعبة ، حدثني حميد بن هلال ، قال: سمعت عبد الله بن مغفل ، يقول: " رمي إلينا جراب فيه طعام وشحم يوم خيبر، فوثبت لآخذه، قال: فالتفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستحييت منه "، وحدثناه محمد بن المثنى ، حدثنا ابو داود ، حدثنا شعبة بهذا الإسناد غير انه، قال: جراب من شحم ولم يذكر الطعام.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ ، يَقُولُ: " رُمِيَ إِلَيْنَا جِرَابٌ فِيهِ طَعَامٌ وَشَحْمٌ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَوَثَبْتُ لِآخُذَهُ، قَالَ: فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ "، وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: جِرَابٌ مِنْ شَحْمٍ وَلَمْ يَذْكُرِ الطَّعَامَ.
بہز بن اسد نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی، کہا: مجھے حمید بن ہلال نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کو یہ بتاتے ہوئے سنا: خیبر کے دن ہماری طرف چمڑے کا ایک تھیلا پھینکا گیا جس میں کھانا اور چربی تھی، میں اسے پکڑنے کے لیے جھپٹا۔ کہا: میں نے مڑ کر دیکھا تو (پیچھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ تو مجھے آپ سے بہت حیا آئی۔ ابوداود نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، البتہ انہوں نے "چربی کا (بھرا ہوا) تھیلا" کہا، کھانے کا ذکر نہیں کیا
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن ہماری طرف ایک چمڑے کی تھیلی پھینکی گئی، جس میں خوراک اور چربی تھی، میں اس کو اٹھانے کے لیے جھپٹا میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم سے شرما گیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1772

   صحيح البخاري5508عبد الله بن مغفلرمى إنسان بجراب فيه شحم فنزوت لآخذه فالتفت فإذا النبي فاستحييت منه
   صحيح البخاري4214عبد الله بن مغفلرمى إنسان بجراب فيه شحم فنزوت لآخذه فالتفت فإذا النبي فاستحييت
   صحيح البخاري3153عبد الله بن مغفلرمى إنسان بجراب فيه شحم فنزوت لآخذه فالتفت فإذا النبي فاستحييت منه
   صحيح مسلم4606عبد الله بن مغفلرمي إلينا جراب فيه طعام وشحم يوم خيبر فوثبت لآخذه قال فالتفت فإذا رسول الله فاستحييت منه
   صحيح مسلم4605عبد الله بن مغفلأصبت جرابا من شحم يوم خيبر قال فالتزمته فقلت لا أعطي اليوم أحدا من هذا شيئا قال فالتفت فإذا رسول الله متبسما
   سنن أبي داود2702عبد الله بن مغفلدلي جراب من شحم يوم خيبر قال فأتيته فالتزمته قال ثم قلت لا أعطي من هذا أحدا اليوم شيئا قال فالتفت فإذا رسول الله يتبسم إلي
   سنن النسائى الصغرى4440عبد الله بن مغفلدلي جراب من شحم يوم خيبر فالتزمته قلت لا أعطي أحدا منه شيئا فالتفت فإذارسول الله يتبسم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3153  
´اگر کھانے کی چیزیں کافروں کے ملک میں ہاتھ آ جائیں`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا مُحَاصِرِينَ قَصْرَ خَيْبَرَ فَرَمَى إِنْسَانٌ بِجِرَابٍ فِيهِ شَحْمٌ فَنَزَوْتُ لِآخُذَهُ فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ . . .»
. . . عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم خیبر کے محل کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ کسی شخص نے ایک کپی پھینکی جس میں چربی بھری ہوئی تھی۔ میں اسے لینے کے لیے لپکا، لیکن مڑ کر جو دیکھا تو پاس ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ: 3153]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3153 باب: «بَابُ مَا يُصِيبُ مِنَ الطَّعَامِ فِي أَرْضِ الْحَرْبِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلے کی طرف نشاندہی فرمائی کہ کھانے پینے کی چیزیں مال غنیمت سے قبل استعمال کرنا درست ہے اور جمہور کا مذہب بھی یہی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الجمهور على جواز أحد الغانمين من القوت وما يصلح به و كل طعام يعتاد اكله عموما و كذالك علف الدواب سواء كان قبل القسمة أو بعدها بإذن الامام و بغير إذنه.» [فتح الباري، ج 6، ص: 314]
یعنی جمہور کا یہ فتوی ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو غنیمت پانے والے قبل از تقسیم کے کھا سکتے ہیں، اسی طرح چارا ہے اسے بھی اپنے جانوروں کو اسی طرح کھلا پلا سکتے ہیں چاہے وہ امام کی اجازت سے ہو یا بغیر اجازت سے۔
لیکن حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بایں الفاظ موجود نہیں ہیں، لیکن اگر غور کیا جائے تو سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں لپکا اس چمڑے کے برتن کی طرف جس میں چربی تھی، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ اب یہاں ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت کچھ اس طرح سے ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو قبل از تقسیم اس چیز کی طرف لپکتے ہوئے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ نہ کہا، تو لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش رہنا اس امر کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وموضع الحجة عدم إنكار النبى صلى الله عليه وسلم، بل فى رواية مسلم ما يدل على رضاه فانه فيه، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم متبسما و زاد أبوداؤد الطيالسي فى آخره فقال هولك [فتح الباري، ج 6، ص: 315]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں انکار نہ کرنا یہ حجت کی دلیل ہے، بلکہ صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے الفاظ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرائے۔ اور أبوداؤد طیالسی میں آخری الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ آپ کا ہوا۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ مرقاۃ میں فرماتے ہیں:
«قال عياض: أجمع العلماء على جواز أكل طعام الحربين ما دام المسلمون فى دار الحرب على قدر حاجتهم، ولم يشترط أحد من العلماء استئذان الامام إلا الزهري.» [مرقاة المفاتيح، ج 7، ص: 576]
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علماء کا اس جواز پر اجماع ہے کہ مسلمان دار الحرب میں اپنی ضرورت کے مطابق کھا سکتے ہیں اور کسی اہل علم نے اس پر کسی قسم کی کوئی شرط عائد نہیں کی کہ اس کے لیے امام کی اجازت ضروری ہے سوائے امام زہری رحمہ اللہ کے۔
لہذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت واضح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور یہ خاموشی دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت پر محمول تھی جس کے مختلف الفاظ مختلف کتب احادیث میں مرقوم ہیں۔
فائدہ:
مندرجہ بالا حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش رہنا اسے اصطلاحا تقریری حدیث کہا جاتا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یا سنت (اہل علم کے نزدیک یہ دونوں الفاظ معنی کے اعتبار سے مترادف ہیں) چاہے وہ قولی ہو، یا فعلی، یا تقریری تینوں اقسام بالاتفاق حجت ہیں قطعیت کے ساتھ، ائمہ حدیث ان تینوں اقسام کو حجت قرار دیتے ہیں اور ان تینوں کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کے ساتھ ہے۔
① امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«السنن تنقسم ثلاثة أقسام، قول من النبى صلى الله عليه وسلم، و فعل منه عليه السلام، و شيئ رآه و علمه فأقر عليه.» [الأحكام فى أصول الأحكام، ج 1، ص: 178]
یعنی سنن کی تین اقسام ہیں: نبی کا قول، نبی کا فعل اور (تقریر) جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھی اسے جاننا اور برقرار رکھنا۔
② ملا احمد جیون کی نور الانوار میں لکھا ہے:
«السنة: تطلق على قول الرسول صلى الله عليه وسلم وفعله و سكوته و على أقوال الصحابة و أفعالهم.» [نور الانوار، ج 1، ص: 179]
یعنی سنت کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور خاموشی پر ہوتا ہے۔
③ امام صالح بن طاہر الجزائری فرماتے ہیں:
«وأما السنة فتطلق فى الأكثر على ما أضيف إلى النبى صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير فهي مرادفة للحديث عند علماء الأصول.» [توضية النظر، ج 3، ص: 3]
سنت کا اطلاق اکثر طور پر اس چیز پر ہوتا ہے جس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو۔ خواہ قول ہو یا فعل ہو یا تقریر ہو، یہ حدیث کے مترادف ہے علماء اصول کے نزدیک۔
④ حجاج الخطیب لکھتے ہیں:
«كل ما أشرع عن النبى صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو صفة خلقية أو خلقية أو سيرة سواءا كان ذالك قبل البعثة . . ..» [السنة قبل التدوين، ص: 16]
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال و افعال و تقریرات اور صفات خلقیہ و خلقیہ محاسن و شمائل اور سیرت سب کے مجموع کا نام ہے۔
⑤ امام جرجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«السنة شريعة مشترك بين ما صدر عن النبى صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير وبين ما واظب النبى صلى الله عليه وسلم عليه بلا وجوب.» [التعريفات، ص: 108]
شریعت میں سنت کا لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل، تقریر اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا وجوب ہمیشگی اختیار فرمائی کے درمیان مشترک ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 461   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2702  
´دشمن کے ملک میں (غنیمت میں) غلہ یا کھانے کی چیز آئے تو کھانا جائز ہے۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کے دن چربی کا ایک مشک لٹکایا گیا تو میں آیا اور اس سے چمٹ گیا، پھر میں نے کہا: آج میں اس میں سے کسی کو بھی کچھ نہیں دوں گا، پھر میں مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری اس حرکت پر کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2702]
فوائد ومسائل:
فقہائے حدیث بیان کرتے ہیں کہ مطعومات (کھانے پینے والی چیزوں) میں سے خمس نہیں نکالا جاتا۔
اور مجاہدین کو حسب حاجت کھا پی لینے کی رخصت ہے۔
البتہ بہت زیادہ مقدار میں حاصل ہونے والا غلہ بعد از استعمال بطور غنیمت تقسیم ہوگا۔


خمس کا مسئلہ آگے باب۔
158 میں آرہا ہے۔


اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے۔
اور ان کی چربی بھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2702   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4606  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ دارالحرب میں،
میدان جنگ سے اٹھائی ہوئی خوراک کا کھانا جائز ہے،
لیکن اس کو دارالسلام میں ساتھ لانا جائز نہیں ہے،
جمہور کے نزدیک کھانے کی چیز کے استعمال کے لیے امام سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے،
لیکن امام زہری کے نزدیک اجازت لینا ضروری ہے،
اس طرح دارالحرب میں سواریوں کا اور لباس کا استعمال جائز ہے،
جنگی اسلحہ بھی استعمال ہو سکتا ہے،
لیکن ان کو ملکیت میں نہیں لیا جا سکتا اور اوزاعی کے سوا کسی کے نزدیک اس کے لیے امام سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4606   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.